فاران: غاصب اسرائیل کے اندر یعنی مقبوضہ علاقوں سے صیہونی آبادی کی ہجرت کی مقدار میں روز بروز اضافہ ہو رہا ہے۔ یہ ایک ایسا موضوع ہے، جو صیہونی حکومت کے حکام کے لیے بہت ہیبت ناک بن چکا ہے۔ “والہ نیوز” نے اس سلسلے میں اسرائیل کے شماریاتی مرکز کا حوالہ دیتے ہوئے اعتراف کیا ہے کہ کم از کم 55 ہزار سے زائد اسرائیلیوں نے ان دنوں میں یقینی طور پر مقبوضہ فلسطین سے ہجرت کی ہے، جس کی صیہونی حکومت کی تاریخ میں مثال نہیں ملتی۔ پیش گوئی کی گئی ہے کہ یہ تعداد 2024ء تک بڑھ کر تقریباً 70 ہزار افراد تک پہنچ جائے گی۔ میڈیا کے اعتراف کے مطابق یہ موضوع صیہونی حکومت کے لئے انتہائی غیر متوقع اور غیر معمولی مسئلہ ہے۔
اسرائیل سے ہجرت کا سلسلہ تیز ہوتا جا رہا ہے جبکہ گزشتہ برسوں کے دوران صیہونی حکومت کے حکام نے پوری دنیا سے یہودیوں کو مقبوضہ فلسطین کی طرف راغب کرنے کے لیے بہت سی کوششیں کی ہیں۔ اسی مقصد کے حصول کے لئے فلسطینی زمینوں پر قبضے اور مزید صیہونی بستیوں کی تعمیر کا سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے۔ تمام تر پروپیگنڈے اور مراعات کے باوجود جو اسرائیلی حکومت نے تارکین وطن کے لیے تل ابیب میں انجام دیئے ہیں، خاص طور پر غزہ جنگ اور اس کے جاری رہنے کے بعد، اسرائیل سے ہجرت کا عمل کم ہونے کی بجائے بڑھ گیا ہے۔ اس تناظر میں اقتصادی اخبار “DeMarker”، Haaretz اخبار کے اقتصادی ایڈیشن نے ایک تفصیلی رپورٹ میں اعتراف کیا ہے کہ 7 اکتوبر کو جنگ کے آغاز کے بعد سے، یونان میں اسرائیلی آمد کی لہر میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے اور ہزاروں اسرائیلی بے گھر ہو کر یونان میں عارضی یا مستقل پناہ گاہ کی تلاش میں سرگرداں ہیں۔ یہ تارکین ایتھنز اور دیگر یونانی شہروں بشمول کیبسیا اور گلیواڈا میں آباد ہو رہے ہیں۔
درحقیقت غزہ جنگ کے آغاز اور صیہونی حکومت کی طرف سے اس کے جاری رہنے کے بعد اسرائیلی کابینہ کے ارکان کے اندرونی تنازعات سمیت مختلف سیاسی مسائل میں اضافہ ہوا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ جنگ کے اخراجات نے مقبوضہ علاقوں کے معاشی حالات کو خراب کر دیا ہے۔ دوسری جانب مختلف تاجروں کی طرف سے سرمایہ کاری ختم کرنے کا خطرہ بڑھ گیا ہے۔ اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ اسرائیل سرمائے کی کشش کے دس اہم ممالک کی فہرست سے نکل گیا ہے۔ غزہ کی جنگ نے غیر ملکی سرمائے کو اپنی طرف متوجہ کرنے میں تل ابیب کی پوزیشن کو سخت متاثر کیا ہے، جس سے سرمایہ کار گروپوں کے دوروں کی تعداد 2022ء جو تقریباً 1000 تھی، اب کم ہو کر 200 سے بھی کم ہوگئی ہے۔
صیہونی حکومت میں الٹی ہجرت کے نتائج اور منفی اثرات صرف اقتصادی میدان تک محدود نہیں ہیں بلکہ اس میں فوجی اور سکیورٹی کے شعبے بھی شامل ہیں۔ صیہونی حکومت جس نے شروع سے ہی عسکریت پسندی اور تشدد پر اپنی بقا کی بنیاد رکھی ہے، اب اس کے پاس فوج کے لیے جوان اور تازہ دم فوجی کم ہوچکے ہیں۔ حالیہ ہجرت کی اس لہر میں بہت سے نوجوان اور ریزرو فوجی بھی اسرائیل کو خیرباد کہہ رہے ہیں اور بہت سے ایسے ہیں، جو تعاون کرنے کو تیار نہیں۔ یہ مسئلہ صہیونی حکام کے لیے انتہائی تشویشناک ہے۔ موجودہ حالات سے پتہ چلتا ہے کہ اسرائیل کی صورتحال ابتر ہوچکی ہے۔ غزہ میں مقیم فلسطینیوں کے خلاف صیہونی حکومت کے جرائم کے تسلسل سے تل ابیب پر بین الاقوامی دباؤ میں بھی اضافہ ہوا ہے۔
دوسری طرف جنگ کے اخراجات کی وجہ سے اسرائیل کے باشندوں کے معاشی مسائل میں شدت آگئی ہے، اسی طرح تل ابیب کی کابینہ میں سیاسی اختلافات بھت بڑھ گئے ہیں۔ ان سیاسی اختلافات نے اسرائیلی باشندوں میں عدم تحفظ کو بڑھا دیا ہے۔ ان تمام عوامل کی وجہ سے بہت سے ماہرین کو ہجرت کرنا پڑی ہے اور بہت سے لوگ اسرائیل چھوڑنے کی کوشش کر رہے ہیں، ہارٹز اخبار کی سابق صحافی اور ریچن یونیورسٹی کی پروفیسر، جنہوں نے حال ہی میں اسرائیل سے ہجرت کی ہے، انہوں نے اس تناظر میں لکھا ہے “میرے پاس مزید کوئی راستہ نہیں ہے۔ امید ہے کہ اسرائیل کے حالات بہتر ہوں گے، میں اب اس غیر جمہوری، نفرت انگیز، نسل پرستانہ اور جابرانہ سرزمین میں رہنا پسند نہيں کرتی۔
ایسا لگتا ہے کہ اسرائیل سے الٹی ہجرت موجودہ حالات میں صیہونی حکومت کی سب سے بڑی ناکامی ہے۔ صیہونی حکام غزہ کی جنگ میں فلسطینیوں کے خلاف اپنے جرائم کو جاری رکھے ہوئے ہیں، لیکن وہ عملی طور پر سیاسی عدم استحکام، اقتصادی مسائل، سماجی جبر اور بدعنوانی کے بھنور میں ڈوبے ہوئے ہیں۔ اس پر مزید یہ کہ الٹی ہجرت کی موجودہ لہر اس حکومت کی بقا کے لیے ایک ایسا سنگین دھچکا ہے، جس کا ازالہ ناممکن نہیں تو دشوار ضرور ہے۔
تبصرہ کریں