صیہونی حکومت کی ریاستی دہشتگردی
فاران تجزیاتی ویب سائٹ: آج جوہری توانائی کو مختلف شعبوں میں نہایت اہم سمجھا جاتا ہے اور اسے توانائی کی فراہمی کے اہم ترین ذرائع میں سے ایک قرار دیا جاتا ہے۔ اسلامی جمہوریہ ایران نے بارہا ایٹمی ادویات اور زرعی تحقیق جیسے معاملات میں ایٹمی توانائی کے پرامن استعمال اور سمندر کے پانی کو میٹھا کرنے کے لئے ایٹمی ٹیکنالوجی کے استعمال کی ضرورت پر زور دیا ہے۔ اس کے باوجود مغربی حکومتوں نے اس شعبے میں ایران کی پیش رفت کو روکنے کے لیے ایران کے خلاف بہت سے دہشت گردانہ اور جاسوسی کے اقدامات انجام دیئے ہیں۔ ان دہشت گردانہ کارروائیوں کا بنیادی ہدف ایران کے جوہری پروگرام کو روکنا یا سست کرنا ہے۔ میڈیا ایکٹوسٹ جان کلاسر نے 4 نومبر 2011ء کو ایک مضمون میں لکھا تھا “امریکہ سائبر دہشت گردی، ایرانی سائنسدانوں کی ٹارگٹ کلنگ، مالی ناکہ بندی اور ایران کے جوہری پروگرام کو روکنے کے لیے ایک پراکسی جنگ کا استعمال کر رہا ہے۔”
سائنس اور ٹیکنالوجی میں ایران کی ترقی کے مخالفین میں ریاستی دہشت گردی کی سرغنہ صیہونی حکومت خاص طور پر سرگرم عمل ہے۔ اس بنا پر گذشتہ برسوں کے دوران ایران کے ایٹمی سائنسدان کئی بار صیہونی حکومت کے دہشت گردانہ حملوں کا نشانہ بنے۔ پرامن ایٹمی ٹیکنالوجی کے میدان میں ایران کی پیش رفت کو سست کرنے کے لیے صیہونی حکومت کی دہشت گردانہ کوششیں اب کسی سے پوشیدہ نہیں۔ ایران کے ایٹمی سائنسدانوں میں سے ایک ڈاکٹر اردشیر حسین پور پر جنوری 2007ء میں شیراز میں موساد کے ایجنٹوں نے مشکوک حملہ کیا تھا۔ اس حوالے سے کی گئی تحقیق سے معلوم ہوا کہ ان کی موت موساد کے ایجنٹوں کی زہریلی تابکار گیس سے دم گھٹنے کے نتیجے میں ہوئی۔ سنڈے ٹائمز اور ٹائم میگزین نے 4 فروری 2007ء کو اس ایرانی سائنسدان کے قتل کو بے نقاب کیا۔ صہیونی اخبار Ha’aretz نے اپنے ایک مضمون میں دھمکی آمیز فقرے کے ساتھ لکھا: “یہ پہلا کام ہے!” اسرائیلی حکومت نے ان قتلوں کو انجام دینے کے لیے منافقین کے گروہ ایم کے او کو استعمال کیا۔
ڈاکٹر مسعود علی محمدی ایک اور ایرانی جوہری سائنسدان تھے، جو جنوری 2010ء میں تہران میں اپنے گھر کے سامنے ایک بم دھماکے میں شہید ہوگئے تھے۔ ڈاکٹر مجید شہریاری ایک اور ایرانی ایٹمی سائنسدان تھے، جنہیں تہران میں موساد کے ایجنٹوں نے قتل کر دیا تھا۔ حادثے کے روز مجید شہریاری اور ان کی گاڑی کا ڈرائیور سامنے بیٹھے تھے اور سائنسدان کی اہلیہ گاڑی کے پچھلے حصے میں بیٹھی تھیں۔ چھ سو میٹر کا سفر طے کرنے کے بعد ایک موٹر سائیکل سوار شہریاری کو لے جانے والی کار کے قریب پہنچا اور اس نے مقناطیسی بم کار کے دروازے سے لگا دیا۔ اسی دوران شہریاری کی اہلیہ اور کار ڈرائیور نے بمبار کی حرکت دیکھی اور فوراً گاڑی سے باہر نکل گئے۔ لیکن ڈاکٹر شہریاری سیٹ بیلٹ پھنس جانے کی وجہ سے گاڑی سے باہر نہ نکل سکے اور بم پھٹنے سے ان کی شہادت ہوئی۔ اسی دن، ڈاکٹر فریدون عباسی دوانی، ایک اور ایرانی جوہری سائنسدانوں کو قاتلانہ حملے کا نشانہ بنایا گیا۔ لیکن وہ اس واقعے میں بال بال بچ گئے۔
ایرانی جوہری سائنسدانوں کی ایک بڑی تعداد صیہونی حکومت کی ریاستی دہشت گردی کا شکار ہوچکی ہے۔ 23 جولائی 2011ء کو ایرانی دفاعی اور ایٹمی سائنسدان داریوش رضائی نژاد کو موساد کے ایجنٹوں نے نشانہ بنایا اور شہید کر دیا۔ دہشت گردی کے واقعے کے تقریباً ایک سال بعد، ایک اور ایرانی جوہری سائنسدان مصطفیٰ احمدی روشن پر 11 جنوری 2012ء کو گھر سے نکلنے کے بعد ایک موٹر سائیکل سوار نے حملہ کر دیا۔ اس ایٹمی سائنسدان کے قتل کے بعد سکیورٹی ماہرین نے اعلان کیا تھا کہ اس قتل کی شہید شہریاری اور شہید رضائی نژاد کے قتل سے مماثلت ہے اور اسکے ساتھ ساتھ ڈاکٹر فریدون عباسی دوانی کے ناکام قاتلانہ حملے کی منصوبہ بندی صیہونی حکومت کے کرائے کے قاتلوں نے کی تھی۔ اس قتل کے بعد اسرائیلی فوج کے ترجمان نے کہا کہ ہم اس قتل پر آنسو نہیں بہاتے ہیں۔ اس واقعے کے ایک ماہ بعد، NBC چینل نے ایک امریکی اہلکار کی شناخت ظاہر کیے بغیر اس کے حوالے سے ایک مضمون میں لکھا: “ایران کے جوہری پروگرام میں ملوث افراد کے خلاف حملوں اور ان کی مالی، تربیتی اور ہتھیاروں کی مدد میں اسرائیل کی انٹیلی جنس سروس کا ہاتھ ہے۔”
ڈاکٹر محسن فخر زادہ ایران کے ایک اور دفاعی اور ایٹمی سائنسدان تھے، جن پر 30 نومبر 2020ء کو دماوند کے علاقے آبسرد میں موساد کے ایجنٹوں نے حملہ کیا اور انہیں شہید کر دیا۔ وہ ایسے سائنس دان تھے، جن کے نام کا تذکرہ سابق اسرائیلی وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو نے 30 اپریل 2018ء کو ایک پریس کانفرنس میں تین بار کیا اور اس بات پر سختی سے تاکید کی کہ “اس شخص کا نام یاد رکھیں۔” ڈاکٹر فخری زادہ نے 1983ء میں آئی آر جی سی ریسرچ سینٹر میں اپنی سرگرمیاں شروع کیں۔ نیو یارک ٹائمز کے مطابق، 27 نومبر 2020ء کو ان کا قتل، موساد کی جانب سے کیے جانے والے قتل کا سب سے منفرد طریقہ تھا۔ فخری زادہ کا نام، پانچ ایرانی شخصیات میں سے ایک کے طور پر، امریکی میگزین فارن پلس کی شائع کردہ دنیا کی 500 طاقتور ترین شخصیات کی فہرست میں شامل تھا۔ امریکی فخری زادہ کو ایران کے ایٹمی پروگرام کے خفیہ رازوں کا بینک سمجھتے تھے۔
انگریزی زبان کے اخبار انڈیپنڈنٹ نے “دنیا کے مہلک ترین قاتل” کے عنوان سے ایک مضمون میں موساد کو “اسرائیل کی بے رحم قاتل مشین” قرار دیا ہے اور ایرانی ایٹمی سائنسدانوں کے قتل سمیت متعدد قتلوں کو درج کیا ہے، ان تمام قتلوں میں موساد کے باقاعدہ دستخط ہیں۔ ہارٹز اخبار کے عسکری شعبے کے سابق سینیئر مصنف رونن برگمین کتاب “رائز اینڈ کِل فرسٹ” rise and kill first میں لکھتے ہیں: “اسرائیلی حکومت کے گیارہویں وزیرِاعظم ایریل شیرون نے میر ڈگن نامی شخص کو موساد کا سربراہ مقرر کیا اور اسے ایران کے جوہری پروگرام میں خلل ڈالنے کی ذمہ دار سونپی۔ ڈیگن نے اس کام کو پورا کرنے کے لیے مختلف طریقے آزمائے۔ ڈگن کے مطابق ان میں سب سے مشکل اور پیچیدہ کام یہ تھا کہ میزائل اور نیوکلیئر انڈسٹری کے اہم سائنسدانوں کو کس طرح پہچانا جائے اور پھر انہیں قتل کیا جائے۔ اس کتاب کے مطابق موساد نے ان میں سے 15 افراد کی نشاندہی کی اور ان میں سے 6 کو قتل کر دیا۔ دہشتگردی کی زیادہ تر کارروائیاں مقناطیسی بموں اور موٹر سائیکل سوار کے ذریعے کی گئیں۔
2009ء سے 2020ء تک ایران کے پرامن ایٹمی ٹیکنالوجی سے متعلق کم از کم چھ سائنس دانوں کو موساد کے دہشت گردانہ حملے کا نشانہ بنایا گیا، جن میں پانچ افراد شہید ہوئے۔ موساد کے ہاتھوں ایران کے جوہری سائنسدانوں کا قتل ظاہر کرتا ہے کہ صیہونی اب بھی ایران کے جوہری پروگرام کا مقابلہ کرنے کے لیے ڈگن کے انداز کو موزوں سمجھتے ہیں۔ ان کے مطابق ایران کے جوہری سائنسدانوں کو قتل اور جسمانی طور پر ختم کرنا بہترین اور سستا آپشن ہے۔ ایران کے دفاعی اور جوہری پروگراموں کو روکنے کے لیے اسرائیلی حکومت کے دہشت گردانہ اقدامات کے باوجود ایران کے سائنسی، دفاعی اور جوہری پروگراموں میں اضافہ جاری ہے۔
تبصرہ کریں