صیہونی وزیراعظم کا دورہ امارات
فاران تجزیاتی ویب سائٹ: اسرائیلی وزیراعظم نفتالی بینیٹ پیر کی رات ابوظہبی کے ہوائی اڈے پر پہنچے اور متحدہ عرب امارات کے وزیر خارجہ عبداللہ بن زاید نے ان کا استقبال کیا۔ بینیٹ نے پیر کے دن ولی عہد شہزادہ محمد بن زاید سے ملاقات کی۔ اسرائیلی وزیراعظم کا یو اے ای کا دورہ ابوظہبی اور تل ابیب کے درمیان تعلقات کو معمول پر لانے کا تسلسل ہے، جس کا آغاز ستمبر 2020ء میں ہوا تھا۔ ابراہیم معاہدے کے بعد اماراتی اور اسرائیلی حکام کے درمیان سفارتی ملاقاتیں بڑھ گئیں تھیں۔ اس سے قبل اسرائیلی وزیر خارجہ یائر لاپڈ نے گذشتہ جون میں یو اے ای کا دورہ کیا تھا۔ بینیٹ کا یو اے ای کا دورہ کسی قابض و غاصب حکومت کے وزیر اعظم کا یو اے ای کا پہلا دورہ ہے۔ اقتصادی اہداف کے علاوہ ان سفارتی دوروں کا ایک اہم سیاسی مقصد بھی ہے، جو کہ متحدہ عرب امارات کے ذریعے خلیج فارس کے دیگر ممالک کے ساتھ اسرائیل کے تعلقات کو نارمل بنانے کی کوشش ہے۔ یہ ایک ایسا مقصد ہے، جس کا تعاقب دونوں فریق کر رہے ہیں۔
ان سفارتی ملاقاتوں سے اسرائیل عملی طور پر مستحکم ہو رہا ہے، وہ عرب ممالک کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے کے منصوبے کے ساتھ آگے بڑھ رہا ہے اور متحدہ عرب امارات بھی اپنی خارجہ پالیسی کی فعالیت کو دکھانے کی کوشش کر رہا ہے۔ متحدہ عرب امارات کو یہ غلط فہمی ہے کہ ان ملاقاتوں سے اس کی علاقائی پوزیشن بہتر ہوگی۔ اسی سلسلے میں متحدہ عرب امارات کے وزیر خارجہ عبداللہ بن زاید نے شام کا سفر کیا اور قومی سلامتی کے مشیر نے بھی ایران کا دورہ کیا۔ بینیٹ کے سفر کی اہم بات یہ ہے کہ یہ دورہ طحنون بن زاید کے ایران کے دورہ کے بعد کیا گیا ہے۔ اس سفر کے دوران فریقین نے سکیورٹی تعاون کے ایک معاہدے پر دستخط کیے۔ اس دورے کے بعد مختلف صہیونی ذرائع ابلاغ نے یو اے ای کے ایران کے قریب آنے کے بارے میں حکومت کی تشویش کی خبر دی تھی کہ ایران کے ساتھ متحدہ عرب امارات کے گرمجوشی کے تعلقات ناقابل قبول ہیں۔
بہرحال بینیٹ کے دورہ ابوظہبی میں ایران اور P4+1 کے درمیان مذاکرات کا مسئلہ ضرور زیر بحث آئے گا، ایک ایسا مسئلہ جس کی اسرائیل مخالفت کرتا ہے۔ اس لیے ایسا لگتا ہے کہ ابوظہبی کے حکام سے اسرائیلی وزیراعظم کی ملاقات کے مرکزی نکات میں سے ایک ایران کا مسئلہ ہوگا۔ ایک اور نکتہ یہ ہے کہ بینیٹ کا یہ دورہ جی سی سی کے رکن ممالک کے سربراہی اجلاس کے موقع پر ہوا ہے۔ خلیج فارس تعاون کانفرنس ریاض میں منگل کو ہونے والی ہے۔ اس لیے ابوظہبی کے ولی عہد محمد بن زاید ممکنہ طور پر ریاض سربراہی اجلاس میں شرکت کرنے والے حکام کے لئے اسرائیلی وزیراعظم کا پیغام لے کر جائیں گے۔ پچھلے سال بھی متحدہ عرب امارات نے اسرائیل کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے کی طرف کچھ دوسرے عرب ممالک کو متوجہ کرنے کی کوشش کی تھی۔
اسرائیلی حکام کے یو اے ای کے دورے کے حوالے سے اہم بات یہ ہے کہ سعودی عرب درحقیقت ان سفارتی ملاقاتوں سے اسرائیل سے اپنے باقاعدہ تعلقات کے دروازے کھول رہا ہے، کیونکہ اسرائیلی حکام کو لے جانے والا طیارہ سعودی عرب کے آسمانوں سے ہوتا ہوا ابوظہبی گیا ہے۔ اس لیے سعودی عرب اور اسرائیل کے تعلقات ایک خاص طریقے سے بلکہ غیر محسوس طریقے سے بحال ہوگئے ہیں اور آہستہ آہستہ آل سعود اسرائیل کے ساتھ تعلقات کو عام بھی کر دے گا۔ آخر میں یہ کہنا چاہیئے کہ اسرائیلی وزیراعظم کا یو اے ای کا دورہ، جو کسی اسرائیلی سربراہ کا پہلا سفارتی دورہ ہے، اس سے فلسطینیوں کے خلاف اسرائیلی تشدد میں مزید اضافہ ہوگا، جیسا کہ ابراہیم معاہدے کے بعد ہوا تھا۔
اسی لئے فلسطینی جماعت حماس نے بینیٹ کے دورے کے ردعمل میں ایک بیان جاری کرتے ہوئے کہا کہ بینیٹ کا خیرمقدم کرکے اس مجرم حکومت کی سلامتی کو مضبوط کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے اور اس کے جھوٹے اور ناجائز وجود کو جائز بنانے کی کوشش کی گئی ہے۔ اسرائیلی وزیراعظم کا استقبال اس ظالم و جابر حکومت کے ہاتھوں پر موجود ہمارے بچوں اور معصوم لوگوں کے خون کو دھونے کے مترادف ہے اور یہ صیہونی قاتلوں اور دہشت گردوں کو امت اسلامیہ کے خلاف ان کے جرائم سے بری کرنے کی ایک کوشش ہے، یو اے ای کے اس اقدام کو ہرگز فراموش اور نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ یو اے ای نے فلسطینی کاز سے خیانت کی ہے اور عالم عرب اور عالم اسلام اس جرم کو ہرگز معاف نہیں کرے گا۔
تبصرہ کریں