عاشورا کے بارے میں غلط تصورات
فاران؛ اس مسئلے کی طرف توجہ دینے کی ضرورت ہے کہ عاشورا کے بعض پہلؤوں کی شناخت نادرست انداز سے انجام پائی ہے اور غیر صحیح تصورات عاشورا کے سلسلے میں ابھرے ہیں۔
– میرے خیال میں اس پہلو پر زیادہ کام کرنے کی ضرورت ہے؛ یعنی سب کا دعوی ہے کہ وہ عاشورا کو پہچانتے ہیں؛ ایک داستان ہے جس کے بارے میں لوگوں نے 1400 سے بولا اور لکھا ہے اور اس داستان سے فائدہ اٹھایا گیا ہے لیکن میرا خیال ہے کہ عاشورا کے جانے پہچانے پہلؤوں کے بارے میں بہت سی جہتوں سے اصلاح اور نظر ثانی کی ضرورت ہے۔
– اگر عزاداری کی مجالس و محافل 200 سال پہلے کی سی صورت میں باقی رہتیں اور اگر ہمارے لوگ عمومی طور پر 200 سال پہلے کی طرح سوچتے تو کیا اسلامی نظام قائم ہو جاتا؟
امام حسین علیہ السلام کی عزاداری کو اچھی طرح نہیں سمجھا جاسکا ہے۔
– لگتا ہے کہ امام حسین علیہ السلام کی عزاداری کو صحیح طور پر پہچانا نہیں جاسکا ہے گوکہ اسی انجانی صورت میں بھی بہت مؤثر ثابت ہوئی ہے۔
– امام حسین علیہ السلام کے لئے نوحہ سرائی اور آپ کے مصائب کے سلسلے میں شاعری، ابتداء سے بھی تھی؛ اور شعر و ادب اس سلسلے میں بہت زیادہ کارآمد رہا ہے، لیکن جب انسان اشعار کی طرف پلٹتا ہے، دیکھتا ہے کہ شعراء کو اس سلسلے میں کچھ زیادہ شناخت حاصل نہیں تھی، ہمارے پاس صدیوں سے کربلا کے بارے میں شاعری کے نمونے موجود ہیں لیکن اشعار کے معطیات کچھ زیادہ سبق آموز نہ تھے۔
– ماضی کی طرح کی شاعری اس زمانے میں درست نہیں ہے، اگرچہ یہ کسی زمانے میں رائج تھی لیکن آج کے لئے یہ درست نہیں ہے۔ ان پہلؤوں پر زیادہ کام ہونا چاہئے۔
بہت زیادہ کام کی ضرورت ہے کہ عاشورا کا صحیح ادراک ممکن ہوجائے
– ہماری مرثیہ خوانی، ہماری عزاداری، منبر اور ہماری محافل و مجالس اور امام حسین علیہ السلام اور واقعۂ عاشورا کے بارے میں لوگوں کے طرز فکر نے ارتقائی مراحل طے کئے ہیں اور یہ فکر پیشرفت اور نُمُو پا چکی ہے۔
– اس کے باوجود ابھی بہت زیادہ کام کرنے کی ضرورت ہے تاکہ عاشورا کا ایک ایسا ادراک معرض وجود میں آئے کہ داستان کربلا کا تقدس بھی محفوظ رہے، اس کے تمام اخلاقی پہلو اور خصوصیات کو بھی صحیح طور پر پہچانا جائے اور یہ واقعہ ہمارے لئے ایک منطقی نمونۂ عمل بھی ہو جس سے سبق لیا جاسکے۔ اس سلسلے میں ہمارے پاس اچھی کتابوں کی شدید قلت ہے۔
– اگر ہم کہتے ہیں کہ اصلاح کی ضرورت ہے تو مقصد وہ مسائل ہیں جن کے ادراک کی نوعیت اور ان کے بارے میں ہمارا تصور، اہمیت رکھتا ہے، لیکن یہ کہ ہم جائزہ لیں اور اس نتیجے پر پہنچیں کہ علی اکبر علیہ السلام اٹھارہ سالہ نہیں بلکہ ستائیس سالہ تھے، یا یہ کہ شادی شدہ اور صاحب اولاد باپ تھے یا نہیں، ان مسائل کے بارے میں تحقیق چنداں اہمیت نہیں رکھتی اور اگر اس عمر کے کم یا زیادہ ہونے یا شادی شدہ اور صاحب اولاد ہونے یا نہ ہونے سے کوئی خاص فرق نہیں پڑتا۔
تبصرہ کریں