عالمی استعماریت اور دہشت گردی کے درمیان چوہے بلی کا کھیل
فاران؛ کسی گاؤں میں لڑکپن کی تمام تر رعنائیوں سے مزّین چند ایک بچوں نے ایک قطعہ اراضی کو اپنی بچگانہ حرکتوں کی جولان گاہ بنایا تھا۔ وہ اکثر و بیشتر وہاں اپنا پسندیدہ کھیل کرکٹ کھیلا کرتے تھے۔ زمین کے اس چھوٹے سے ٹکڑے سے متصل ایک صاحبِ ثروت کا عالیشان مکان تھا جس کے چاروں اطراف اونچی اونچی دیواروں نے ایک حفاظتی حصار بنا رکھا تھا۔ اس عالیشان مکان کے عقب میں مختلف قسم کے میوے دار درخت کھیل کود میں مشغول ان بچوں کو وقتاً فوقتاً للچاتے تھے۔ خاص طور سے جب یہ درخت پکے ہوئے پھلوں سے لدے ہوئے ہوتے تھے۔ ان کے من میں بارہا یہ خواہش حسرت بن کر کروٹیں لیتی کہ کاش ان کے ننھے منھے ہاتھوں کی رسائی میٹھے میٹھے خوش نما پھلوں تک ہو مگر درمیان میں اونچی دیوار ان کے لئے سدِ راہ بنی ہوئی تھی۔ چنانچہ ایک مرتبہ ان بچوں نے مل کر یہ پلان بنایا کہ کسی نہ کسی طرح اس دیوار کو پھلاند کر وہ اپنا مقصد حاصل کرلیں لیکن ایک ڈرپوک مگر ذہین بچے نے اس پلان کو یہ کہہ کرمسترد کردیا کہ اول تو اتنی اونچی دیوار پر چڑھ کر اندر داخل ہونا ہمارے لئے کارے دارد والا معاملہ ہے اور باقی ہمجولیوں کی معاونت سے بالفرض کوئی بچہ دیوار پھلانگنے میں کامیاب ہو بھی جائے تو اْس کا وہاں سے باہر نکلنا ناممکن ہے۔
اس طرح اس ذہین و فطین بچے نے نہ صرف زیرِ نظر پلان کے متعلق معقول تحفظات کا اظہار کیا بلکہ اس سے بھی قدرے بہتر اور آسان طریقہ صحن میں داخل ہونے کیلئے بتادیا۔ اس نے اپنے ہم جولیوں سے کہا کہ ہم اپنا گیند اس مکان کے عقبی حصّے میں بالارادہ پھینکیں گے اور پھر صدر دروازہ (Main Gate) سے جاکر مالکِ مکان یا افرادِ خانہ سے صحن میں اس بہانے سے داخل ہونے کی اجازت لیں گے کہ ہمارا گیند آپ کے مکان کے عقبی حصّے میں آیا ہے جس کو لینے کی غرض سے ہم میں سے ایک بچے کو صحن میں داخل ہونا پڑے گا۔
ان بچوں نے اس رائے کو بہتر جانا اور ایک بچے کو منتخب کرکے افرادِ خانہ سے اجازت لینے کے بعد صحن میں داخل کرہی دیا۔ گیند کو ڈھونڈ نکالنے سے پہلے وہ درختوں پر چڑھ کر چند ایک میوے دیوار کے باہر اپنے ساتھیوں کی جولی میں ڈال دیا کرتا۔ اس عمل کو انہوں نے بار بار دہرایا۔ خیر ایک مرتبہ کسی فردِ خانہ نے ان کو یہ حرکت کرتے ہوئے پکڑا۔اور پھر ان کی اس حرکت پر قدغن لگ گئی ۔
بسا اوقات بڑے بوڑھوں سے بھی اس زعم کے ساتھ بچگانہ حرکتیں صادر ہوتی ہیں کہ وہ بزرگانہ کام انجام دے رہے ہیں۔ یہ بچگانہ حرکتیں کسی فرد تک ہی محدود ہی نہیں رہتیں بلکہ کبھی کبھار قومی، ملکی حتیٰ کے بین الاقوامی سطح پر بھی دیکھنے کو ملتی ہیں۔ علی الخصوص دہشت گردی کے حوالے سے عالمی طاغوت کی کارستانی مذکورہ بچوں کے تکڑم سے سرمو بھی مختلف نہیں ہے۔ بلکہ یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ امریکہ کی قیادت میں ان بچوں کے فارمولے کو وسیع پیمانے پر عملایا جارہا ہے۔ امریکہ اور اس کے حواریوں نے دہشت گردی کو ایک آزمودہ اور کارآمد ہتھیار کے بطور استعمال کیا ہے۔ جس ملک کے قدرتی وسائل پر ان کی نظر للچاتی ہے۔جس کے انسانی وسائل سے عالمِ طاغوت کو خطرے کی بو محسوس ہوتی ہے۔جس ملک کی ترقی و پیشرفت انہیں ایک آنکھ نہیں بھاتی۔ جس ملک نے بھی ان کی فرمانبرداری سے انکار کیا تو یہ دہشت گردی کو مذکورہ بچوں کے گیند کی طرح اس ملک میں پھینک آتے ہیں۔ نیز دہشت گردوں کو ہر قسم کی معاونت فراہم کرتے ہیں۔ اور جب ان کی بربریت کے چرچے ہر سو پھیلتے ہیں تو ان کو ختم کرنے کے بہانے اس ملک پر بالواسطہ یا بلاواسطہ حملہ آور ہوتے ہیں۔
چنانچہ عراق کو لوٹنے اور تباہ و برباد کرنے کیلئے صدام حسین کو ذریعہ بنایا گیا۔ حالانکہ جب صدام حسین نے کویت پر حملہ سے قبل عراق میں قائم امریکی قونصلٹ سے رابطہ بھی کیا تھا اور اسے امریکی قونصلٹ کی جانب سے گرین سیگنل بھی ملا تھا۔ لیکن بعد میں اسی حملہ کو بہانہ بنا کر امریکہ عراق پر چڑھ دوڑا۔ لیبیا کو غیر مستحکم کرنے کا بہانہ کرنل قزافی کو گردانا گیا۔ افغانستان کو تاراج کرنے کی باری آگئی تو اسامہ بن لادن کا شوشہ کھڑا کیا گیا۔ داعش جیسی دہشت گرد تنظیم کو بھی اسی استعمار کی خلق کردہ اور پروردہ و پرداختہ ہے اور سوچے سمجھے منصوبے کے تحت اسے عراق، شام اور اب افغانستان میں ایک خاص ہدف پر معمور کیا گیا ہے۔ عالمی استعمار اپنے ہی ہاتھوں لگائے ہوئے پودے کو تناور اور دیوہیکل درخت میں تبدیل کرکے اس کے تلخ پھلوں سے بظاہر متنفر دکھائی دے رہا ہے۔ یہ تو ایسا ہی ہوا کہ آگ لگانے والا اور اس جلتی آگ پرتیل چھڑکنے والا شخص ہی ”آگ لگی ہے اسے بچاؤ”کی صدائیں بلند کرے۔
عالمی استعمار نے بھی متذکرہ طفلانہ فرمولے کو عملایا ہے اور یوں ابلیسی کھیل کھیلنے کے لئے پورے مشرق وسطیٰ کو کھیل کا میدان بنارکھا ہے اور جب کسی ملک پر چڑھ دو ڑنے کا خیال اسے آتا ہے وہ دہشت گردی کے جن کو بوتل سے نکال اْس ملک میں پھینک آتے ہیں۔ دہشت گردی عالمِ استعمار کا سب سے بڑا کارگر حربہ ہے جس کو وہ مقصد برآوری کے لئے ایک عرصے سے آزماتا آ رہا ہے۔
تبصرہ کریں