عالمی صہیونیت کی نظریاتی اور عملی نشانیوں پر ایک نظر
فاران تجزیاتی ویب سائٹ: عالمی صہیونیت ایک ایسی اصطلاح ہے جو عرصہ دراز سے دنیا کی تاریخ سیاست میں استعمال ہوتی چلی آ رہی ہے۔ درج ذیل گفتگو اسی موضوع پر مشتمل ہے جو “خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ” نے موساد کے جاسوسی چینلز اور ایران و حزب اللہ میں جاسوسی کے واقعات کو داستانوں کی صورت میں پیش کرنے والے داستان نگار اور “حیفا”، “کف خیابان” اور “نہ” کتابوں کے مولف حجۃ الاسلام و المسلمین “محمد رضا حداد پور جہرمی” کے ساتھ انجام دی ہے۔
سوال: کیا آپ بتا سکتے ہیں کہ عالمی صہیونیت سے کیا مراد ہے؟ اور عالمی صہیونیت اور عالمی استکبار کے درمیان کیا فرق ہے؟
استاد جہرمی: بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ میں اپنی گفتگو کو دو مختصر مقدموں کے ذریعے شروع کرنا چاہوں گا۔
پہلا مقدمہ؛ صہیونیت ایک ایسی فکری تنظیم کا نام ہے جو موجودہ دور میں سو فیصد انحرافی عقائد پر مشتمل ہے اور یہودیت کے مقدسات سے ناجائز فائدہ اٹھا کر پوری دنیا پر اپنا تسلط جمانا چاہتی ہے۔ یقینا اس تنظیم کی جڑیں بہت پھیلی ہوئی ہیں لیکن یہاں پر ہم اس موضوع پر گفتگو نہیں کر سکتے۔ عالمی صہیونیت ایک تاریخی اور وسیع تحریک ہے۔ بہت سارے لوگوں نے اس کے بارے میں بہت کچھ کہا ہے اور عالمی صہیونیت سے مراد کیا ہے اسے تفصیل سے بیان کیا ہے اور مختلف تعریفیں کی ہیں۔ لیکن ان کی کسی ایک تعریف پر قانع ہونا مشکل ہے۔ بطور کلی یہ کہا جا سکتا ہے کہ یہ ایک ایسا طرز تفکر ہے جو مکمل طور پر انحرافی ہے لیکن دینی مقدسات کو وسیلہ بنا کر سیاسی اغراض و مقاصد کی خاطر میدان سیاست و ثقافت میں داخل ہوا ہے۔ وہ سیاسی اغراض و مقاصد جو پورے یقین کے ساتھ کہا جا سکتا ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے زمانے میں ان کے مخالفین کے ذریعے منصوبہ بندی کئے گئے تھے اور جن کی بنیادیں انحرافی عقائد پر رکھی گئی تھیں۔ لیکن قابل توجہ بات یہ ہے کہ یہ انحرافی طرز تفکر صرف یہودیوں میں ہی منحصر نہیں ہے بلکہ عیسائیت اور اسلام کے اندر بھی یہ انحرافی اور صہیونی تفکر وجود پا چکا ہے اور آج ہم عیسائی صہیونیت اور اسلامی صہیونیت سے روبرو ہیں۔
عیسائی اوراسلامی صہیونیت
دوسرا مقدمہ یہ ہے کہ تقریبا چالیس سال قبل صہیونیت صرف یہودیوں پر ہی اطلاق ہوتی تھی اور عیسائی صہیونیت یا اسلامی صہیونیت کو کوئی نہیں پہچانتا تھا اور عام طور پر قوم حضرت موسیٰ کی ایک شاخ جو یہودی ہی تھے کو صہیونی کہا جاتا تھا لیکن عصر حاضر میں یہ انحرافی تفکر عالمی سطح پر پھیل چکا ہے اب صہیونیوں سے مراد صرف یہودی ہی نہیں ہوتے بلکہ انحرافی فکر رکھنے والی وہ عالمی تنظیم ہے جس میں صہیونیت کی جڑیں پیوستہ ہیں۔
عالمی صہیونیت اب یہودیوں سے مخصوص نہیں ہے بلکہ یہ عیسائیوں میں بھی سرایت کر چکی ہے اور اس کی خطرناک ترین شکل اسلامی معاشرے میں انتہا پسند گروہوں کی شکل میں سامنے آ رہی ہے۔
یہ انتہا پسند گروہ جو اسلامی معاشرے میں پنپ رہے ہیں تکفیری گروہ ہیں جو اس سے پہلے اہل سنت اور وہابیت سے جنم لیتے تھے اب شیعوں میں بھی کام کیا جا رہا ہے اور شیعوں میں تکفیری ٹولہ کو سامنے لانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
عالمی صہیونیت
لیکن بنیادی سوال جس پر ہمیں غور کرنے کی ضرورت ہے وہ یہ ہے کہ ہم کیسے عالمی صہیونیت کو پہچانیں، اسے پہچنوائیں اور اس کا مقابلہ کریں۔ لہذا ضروری نہیں ہے کہ ہم اپنا ٹارگٹ صرف اسرائیل کو بنائیں اور اسرائیل پر تمرکز اختیار کر لیں اور باقی مسائل سے آنکھیں بند کر لیں۔ بلکہ یہ انحرافی تفکر آج ہر معاشرے میں سرایت کر چکا ہے اور پوری دنیا صہیونی تفکر کی لپیٹ میں آچکی ہے۔
اب اگر کوئی یہ سوال کرے کہ یہ صہیونی تفکر جس کی منشا یہودیت ہے اور اب عیسائیت اور اسلام کے اندر بھی پھیلتا جا رہا ہے اس کی بنیادی نشانیاں کیا ہیں؟ تو کم سے کم تین بنیادی نشانیوں کی طرف اشارہ کیا جا سکتا ہے۔
سوال: یعنی ان تین نظریاتی نشانیوں کے ذریعے عالمی صہیونیت کو پہچانا جا سکتا ہے؟
۔ جی ہاں، تین نظریاتی اور دو علمی نشانیوں کے ذریعے عالمی صہیونیت کو پہچانا جا سکتا ہے؛
عالمی صہیونیت کی نظریاتی نشانیاں
۱۔ تکفیریت
تکفیریت پہلی نظریاتی نشانی ہے جس کے ذریعے صہیونی اور افراطی فکر رکھنے والے گروہ کو پہچانا جا سکتا ہے تکفیریت کا مطلب یہ ہے کہ صرف ہم اہل ایمان اور اہل نجات ہیں اور ہمارے علاوہ دوسرے کافر ہیں اور انہیں نجات نہیں مل سکتی لہذا انہیں روئے زمین پر جینے کا حق نہیں ہے انہیں صفحہ ھستی سے مٹانا چاہیے۔
۲۔ مخالفین کو مٹانا
دوسری نظریاتی علامت مخالفین کو مٹانے کی کوشش ہے یعنی اس طرز فکر میں مذاکرات کرنا، ایک دوسرے سے سمجھوتے کی بات کرنا، گفتگو کی میز پر بیٹھنا بالکل ممنوع ہے اور مخالف شخص کو صرف مٹانے اور راستے سے ہٹانے کی سوچ بچار کی جاتی ہے۔ اور اس کام کو مقدس اور چوقدس سمجھا جاتا ہے۔ مثال کے طور پر بارہا سنا اور دیکھا کہ کہ اسرائیل ٹی وی چینل سے اعلان کیا جاتا ہے کہ ہم فلاں جنرل کو مٹانے کا منصوبہ رکھتے ہیں۔ اور حتیٰ وہ اس کام کو دھشتگردی بھی نہیں سمجھتے۔
۳۔ عالمگیر سوچ رکھنا
تیسری نشانی اور علامت یہ ہے کہ صہیونی تفکر کے مالک افراد کوشش کرتے ہیں کہ عالمگیر اور گلوبل سوچ رکھتے ہوں وہ اپنے ہر کام اور منصوبے میں گلوبل فکر کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ وہ اپنی کلاسوں میں کہتے ہیں گلوبل فکر کرو لیکن ایک محلے سے کام شروع کرو۔
یہ تین نشانیاں ان کی نظریاتی نشانیاں اور علامتیں ہیں جن کے ذریعے ہم صہیونی گروہوں کو پہچان سکتے ہیں۔ البتہ ممکن ہے کوئی دسیوں علامتیں بھی بیان کرے لیکن یہ وہ موارد ہیں جو مسلّم و یقینی اور عملی طور پر بھی قابل مشاہدہ ہیں یعنی ہم سب ان مسائل کے روبرو ہیں۔
عالمی صہیونیت کی عملی نشانیاں
ان کی دو عملی نشانیاں ایسی ہیں کہ جو انہیں دیکھتا ہے فورا اس کا ذہن اس عالمی صہیونیت کی طرف منتقل ہو جاتا ہے۔
۱۔ سمبل پرستی
پہلے تو یہ بے انتہا سمبل پرست ہیں۔ جیسا کہ جب شیطان پرستی سماج میں پھیل رہی تھی تو اس سے پہلے ایک عرصے تک شیطانی سمبل پر کام کیا جا رہا تھا۔ اسی طرح داعش نے اپنے آغاز میں اپنے سمبلز پر کام کرنا شروع کیا تھا۔
۲۔ رعب و دبدبہ کے ذریعے حکومت کی تشکیل
دوسری عملی علامت یہ ہے کہ یہ سماج میں رعب و دبدبہ اور دھشت پیدا کر کے حکومت قائم کرنا چاہتے ہیں۔ یعنی لوگوں کو ڈراؤ اور ان پر حکومت کرو ان کا نعرہ ہے۔
دیگر تمام مسائل چاہے وہ اقتصادی ہوں یا ثقافتی، سیاسی ہوں یا سماجی انہیں پانچ مرکزی نکات کے اردگرد گھومتے ہیں۔ اس وقت ہم پوری دنیا میں انہیں مسائل کے روبرو ہیں۔ میں اسی زاویہ نگاہ سے صہیونیت پر کام کر رہا ہوں۔ لہذا میری پہلی کاوش جو داعش کے حوالے سے منظر عام پر آئی ہے “ایک تکفیری کی آدھی جلی ہوئی کاپی” ہے اور پہلا بین الاقوامی سطح کا پروجیکٹ جس پر قومی حدود سے بالاتر فکر کے ساتھ کام ہوا ہے وہ کتاب “حیفا” ہے۔ بریکٹ میں عرض کروں کہ ’’حیفا‘‘ ایک شخص کا نام ہے اور ’’ہیفا‘‘ جو شہر کا نام سے اس سے مختلف ہے۔ اور دوسرا ہمارا بین الاقوامی سطح کا کام کہ جس میں، میں نے کوشش کی ہے کہ مخاطب کا ہاتھ پکڑ کو دھیرے دھیرے اسے زمان و مکان کی حدود سے باہر لاؤں اور مخاطب زمان و مکان کی قیود سے ماوراء آکر سوچے وہ کتاب “نہ” ہے۔ یہ چند ایک مقدماتی باتیں تھی جو بیان کیں۔
سوال: آپ کی مذکورہ گفتگو کے پیش نظر ہم عالمی صہیونیت کو گویا ایک طرح کا مکتب فکر مان لیں؟
۔ جی ہاں یہ ایک ایسا مکتب فکر ہے جو اقتصادیات و سیاسیات کے میدانوں سے باہر نکل چکا ہے۔ یعنی اس نے انسانیت سے سب سے بڑا انتقام لے لیا ہے۔ اس لیے کہ امام خمینی (رہ) اور انقلاب اسلامی سے پہلے صہیونیوں نے سنا تھا کہ وہ زوال اور نابودی کی طرف گامزن ہیں۔ لہذا اہم ترین کام جو انہوں نے کیا وہ یہ تھا کہ انہوں نے اپنی فکر کو دیگر ممالک اور دیگر ادیان کے اندر ٹھونس دیا۔ لہذا جب وہ اس کام کو انجام دینے میں کامیاب ہو گئے ہیں اب اگر جعلی ریاست جو اسرائیل ہے وہ نابود بھی ہو جائے تو صہیونی فکر ختم نہیں ہو پائے گی۔ جیسا کہ حال میں داعش کے ساتھ ہوا۔ داعش کو عراق و شام میں تو شکست مل گئی وہاں اسے نابود کر دیا لیکن فکر داعش تو پوری دنیا میں پھیل چکی ہے مثال کے طور پر گزشتہ ۸، ۹ ماہ کے دوران ایران میں جو دھشتگردانہ حملے ہوئے ہیں یہ سب داعشی فکر کا نتیجہ ہیں۔ لہذا اس بات کو نہیں بھولنا چاہیے جیسا کہ ہمارے بہت سارے دوست صرف اسرائیل کی نابودی کے بارے میں سوچتے ہیں کہ اسرائیل مٹ گیا تو صہیونی فکر ختم ہو جائے گی۔ در حقیقت اسرائیل کی نابودی پہلا مرحلہ ہے اور ہمارا اصلی کام اسرائیل کی نابودی کے بعد شروع ہو گا۔
۔ بہت بہت شکریہ جو آپ نے اپنا قیمتی وقت ہمیں دیا۔
ترتیب و تدوین؛ مجید رحیمی
تبصرہ کریں