عالمی یوم قدس کا نام امام خمینی (رہ) نے رکھا تھا: ابوشریف
فاران تجزیاتی ویب سائٹ: اللہ کے نام سے جو بڑا مہربان ہے۔ السلام علیکم، میں عالمی یوم قدس کے موقع پر اپنے تمام بھائیوں اور بہنوں کی خدمت میں سلام عرض کرتا ہوں۔ جیسا کہ آپ جانتے ہیں کہ فلسطین کا مسئلہ ملت اسلامیہ کے لیے ایک اسلامی مسئلہ ہے اور عرب ممالک بھی اس کو ایک عرب اور اول درجے کا اسلامی مسئلہ سمجھتے ہیں۔ صیہونی حکومت نے عالم اسلام کے قلب پر قبضہ کر رکھا ہے۔ ہماری مراد مقدس شہر قدس شریف ہے، جسے ہم پوری دنیا کے لیے بابرکت مقام سمجھتے ہیں اور اس پر حملہ تمام مسلمانوں پر حملہ سمجھتے ہیں۔ اس تناظر میں مسلمانوں کا فرض ہے کہ وہ صیہونیت کے خلاف متحد ہو جائیں۔ فلسطین کا مسئلہ بنیادی طور پر ایک انسانی مسئلہ ہے۔ ہم اس وقت عالمی استعمار، برطانیہ اور مغربی ممالک کی یلغار کا سامنا کر رہے ہیں۔ انہوں نے فلسطین کی سرزمین پر قبضہ کیا اور پھر یورپ میں یہودیوں کے مسئلے سے جان چھڑانے کے لیے انہیں یہاں لا کر بسانا شروع کر دیا، مغرب کا تاوان فلسطین کے عوام ادا کر رہے ہیں۔
برطانوی غاصبوں اور صیہونی گروہوں کی آمد کے بعد سے اس غاصب حکومت کو تحفظ فراہم کرنے کے لیے فلسطین میں انسانیت کے خلاف ہزاروں جرائم کا ارتکاب کیا گیا ہے۔ خود صہیونی یعنی خود یہودیوں نے ایسی کتابیں لکھیں، جس میں ان جرائم کا ذکر موجود ہے۔ اس سلسلے میں ایلین پوپ کی تحریر کردہ کتاب نسلی صفائی کی مثال دی جاسکتی ہے۔ اس میں انسانیت کے خلاف گھناونے جرائم کا ارتکاب کیا گيا۔ ایک پوری قوم کو ان کی سرزمین سے نکال باہر کیا گیا، تاکہ نئے سامراجی منصوبے کے تحت سرزمین فلسطین میں یہودیوں سے کام لیا جاسکے۔ لہذا یہ ان تمام لوگوں کا فرض ہے، جو انسانیت پر یقین رکھتے ہیں، وہ صہیونی گروہوں کے خلاف اور فلسطینی عوام کا ساتھ دیں۔
اخلاقی نقطہ نظر سے یہ ممکن نہیں کہ آپ مسلمان ہوں اور فلسطینی عوام کے ساتھ ہمدردی نہ رکھتے ہوں۔ ایک عام انسان بھی یہ کیسے برداشت کرسکتا ہے کہ فلسطینی عوام نسل پرستانہ حکومت کا ظلم کا شکار ہوں۔ تمام انسانی حقوق کی تنظیموں حتی صیہونی تنظیموں کا بھی متفقہ فیصلہ ہے کہ فلسطینی عوام اس وقت ایک نسل پرست حکومت میں زندگی گزار رہے ہیں۔ جہاں آئے روز قتل و غارتگری کا بازار گرم ہے، انسانیت کے خلاف جرائم جو آئے روز ہو رہے ہیں، اس لیے یہ تمام مسلمانوں کا فرض ہے اور پوری دنیا اور دنیا کے تمام آزاد انسانوں کا فرض ہے کہ وہ فلسطینیوں کا ساتھ دیں۔
سوال: آپ آذربائیجان اسرائیل تعلقات پر کیا تبصرہ کریں گے۔؟
ابو شرہف: جیسا کہ آج ہم جنوبی افریقہ میں دیکھتے ہیں کہ وہ واقعی میں جانتے ہیں کہ نسل پرست حکومت کیسی ہوتی ہے۔ یہ وہی لوگ ہیں، جو نسل پرستی کا شکار رہے ہیں، ہم دیکھتے ہیں کہ وہ صیہونی حکومت کے ساتھ اپنے تعلقات میں کمی لا رہے ہیں۔ یہ ان مثالوں میں سے ایک ہے، جو دنیا کو صیہونی حکومت کے حوالے سے مدنظر رکھنا چاہیئے۔ صیہونی حکومت کے خلاف حقیقی پابندیاں لگانی چاہییں، تاکہ اسے انسانیت سوز اقدامات سے باز رکھا جاسکے۔ بلاشبہ اگر ہمارا خدا تعالیٰ پر ایمان ہے تو قرآن پاک میں ارشاد ہے کہ “لَتَجِدَنَّ أَشَدَّ النَّاسِ عَدَاوَةً لِلَّذِينَ آمَنُوا الْيَهُودَ” خداوند تعالی نے حقیقی دشمن کا تعین کر دیا ہے اور وہ دشمن جو مومنوں سے بیزار ہیں، خود یہودی ہیں۔ قرآن پاک کی ایک اور آیت میں ارشاد ہوتا ہے کہ “لَّمَا أَوْقَدُوا نَارًا لِلْحَرْبِ أَطْفَأَهَا اللَّهُ وَيَسْعَوْنَ فِي الْأَرْضِ فَسَادًا” یہ صیہونی حکومت آذربائيجان میں اس ملک کی ترقی یا آذربائیجان کی خدمت اور یہاں کے لوگوں کی سربلندی کے لیے نہیں آئی۔
ہم نے دیکھا ہے کہ مصر جیسے ملکوں کے ساتھ اسرائیل کے تعلقات قائم ہوئے، مصر کے حالات کو دیکھیں، اس معاہدے سے پہلے کی صورت حال اس کی موجودہ صورت حال سے بہت بہتر تھی، اردن کی صورت حال نام نہاد امن معاہدوں سے پہلے اس کی موجودہ صورت حال سے بہتر تھی، مثال کے طور پر سوڈان ان ممالک میں سے ایک ہے، جسے صیہونی حکومت نے توڑا ہے اور ایک انٹیلی جنس افسر نے اس پر بات کی کہ سوڈان کی تقسیم صیہونی سازش تھی اور اب بدقسمتی سے سوڈان کے لیڈروں نے صیہونی حکومت کے ساتھ تعلقات قائم کر لیے، تاکہ امریکہ کے دل میں اپنی جگہ بنا سکیں۔ صیہونی حکومت صرف اپنے مفاد میں ہی کسی سے تعلقات بناتی ہے۔ اس کا بنیادی اور براہ راست مقصد ایران کی ناکہ بندی ہے، ایران کے مقابلے پر آنے کی کوشش کرنا، یہ حکومت بنیادی طور پر ایران کی قومی سلامتی کے لیے خطرہ ہے۔ کیونکہ ایران صیہونی حکومت کا سب سے خطرناک دشمن ہے۔ بنا برایں آذربائیجان کا پڑوسی ایران ہے، اسرائیل نہیں۔
اب اگر اسرائیل آذربائیجان میں کچھ کھو بھی دے تو اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا، کیونکہ اصل نقصان تو آذربائیجان کے عوام کا ہوگا۔ اس لیے ایران کے ساتھ آذربائیجان کے تعلقات دائمی ہیں، کیونکہ ایران ایک ہمسایہ ملک ہے، ان دونوں ممالک کے ایک دوسرے کے ساتھ بہت زیادہ ثقافتی اور سماجی تعلقات ہیں، لہذا آذربائیجان کو ایران کے مقابلہ میں اسرائیل کا آلہ کار نہیں بننا چاہیئے۔ ہم نے قرہ باغ کے مسئلہ میں آذربائیجان کی مکمل حمایت کی اور ہم ہمیشہ آذربائیجان کے حق کے ساتھ کھڑے رہے اور یقین رکھتے ہیں کہ قرہ باغ کے معاملے میں آذربائیجان حق پر ہے اور ہماری قومی جماعتوں نے بھی اس علاقے کی آزادی اور اس کی زمینوں کو دوبارہ حاصل کرنے کی کوششوں کی حمایت کی، ہم آذربائيجان کے عوام سے کہتے ہیں کہ آپ کا حقیقی تعلق اسلامی اقوام سے ہے اور صیہونی حکومت کے ساتھ رابطوں کا کوئی نتیجہ نہیں نکلے گا، کیونکہ صیہونی ریاست کی جڑیں کھوکھلی ہیں۔
آپ اس علاقے میں اپنے پڑوسیوں کے ساتھ باقی رہیں گے، دراصل آپ کو ایران کے ساتھ، ترکی کے ساتھ ، آرمینیا کے ساتھ اور پڑوسی ممالک کے ساتھ تعلقات کو فروغ دینا چاہیئے، کیونکہ یہی آپ کا حقیقی ماحول ہے۔ آپ کی قوم مسلم امہ کا حصہ ہے، آپ اہل مغرب نہیں، آپ کا تعلق اس امت مسلمہ سے ہے اور آپ کے تعلقات ان اقوام کے ساتھ ہونے چاہئیں، آپ کے تعلقات غاصب صیہونی حکومت کے ساتھ ہیں، جس نے فلسطین کے حقوق غصب کر رکھے ہیں، جو موزوں نہیں ہیں، یہ آذربائيجانیوں کی قومی امنگ کے منافی ہے۔ صیہونی حکومت جو فلسطین پر قابض ہے اور فلسطینی قوم کے خلاف بدترین اور گھناؤنے جرائم کا ارتکاب کر رہی ہے، اس کی حمایت نہ کریں۔ فلسطینی عوام کے حامیوں کی پہلی صف میں رہیں، آپ تو خود ایک مقدس مشن کے مالک تھے، آپ غاصبانہ قبضے کو بہتر طور پر سمجھتے ہیں۔
سوال: غاصب اسرائیل کی موجودہ صورتحال پر آپ کیا تبصرہ کریں گے۔؟
ابو شریف: ہم دیکھتے ہیں کہ صیہونی حکومت کے اندر انتہاء پسندوں کی تعداد بڑھ رہی ہے، زبردست اندرونی تشدد اور اختلافات، نسلی، مذہبی، جماعتی اور اختلافات وغیرہ اور حتی دہشت گرد عناصر موجود ہیں۔ یہ چیزیں کھل کر سامنے آگئی ہیں، اس وقت قدامت پرستوں، سیکولر عناصر اور بائیں بازو والوں میں کشیدگی ہے۔ نیتن یاہو اور اس کے حواری عدالتی نظام کو تبدیل کرنا چاہتے ہیں اور عدلیہ کو کنٹرول کرکے اپنے منصوبوں کو عملی جامہ پہنانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اندرونی تصادم کی صورتحال ہے اور یہ مستقبل میں بہت زیادہ شدید ہوسکتی ہے، تمام سینیئر لیڈروں نے اس صورتحال کے بارے میں خبردار کیا اور ان سب کا خیال ہے کہ صیہونی حکومت زوال کے قریب پہنچ رہی ہے، لہذا ہم امید کرتے ہیں، جیسا کہ میں نے کہا کہ تمام اسلامی دنیا کی عوامی قوتوں کو فلسطین کی حمایت کرنا چاہیئے اور امریکی صیہونی سراب کے دھوکے میں نہیں آنا چاہیئے۔
سوال: یوم قدس کی اہمیت پر آپ کیا کہیں گے۔؟
ابو شریف: بلاشبہ جیسا کہ آپ جانتے ہیں کہ عالمی یوم قدس کا نام امام خمینی (رہ) نے رکھا تھا، یہ دن سال میں ایک دن نہیں ہے، بلکہ یہ پوری زندگی ہے اور بیت المقدس کو مسلمانوں کے سیاسی مرکز میں تبدیل کرنے کی تحریک ہے، جب تک صیہونی حکومت قائم ہے، مسلمان نہ تو متحد ہوسکتے ہیں نہ ترقی کرسکتے ہیں، ہم ایک عظیم قوم ہیں، جس کے پاس بے پناہ صلاحیت ہے اور ایرانی عوام ایک وسیع ملک اور بہت زیادہ قدرتی اور انسانی وسائل کے مالک ہیں۔ آذربائیجانیوں میں صلاحیتیں ہیں، ترکوں میں صلاحیتیں ہیں، سعودی عرب میں بھی صلاحیتیں ہیں، لیکن بدقسمتی سے یہ صلاحیتیں بکھری پڑی ہیں اور مغرب ان سے فائدہ اٹھا رہا ہے۔ اس لیے ہمیں اپنے منصوبے خود بنانا ہوں گے، تاکہ یورپ کی پیروی سے بچ سکیں۔ یورپ تو ساری دینا کا خون چوس رہا ہے، لہذا ہمیں اپنے لیے منصوبہ بندی کرنا ہوگی۔ ہمارا منصوبہ اتحاد اور ایک دوسرے کا احترام ہے، ہماری توانائياں یکجا ہونا چاہیں، صیہونی حکومت کے مقابلے میں اپنی طاقت کو بڑھانا ہوگا۔ صیہونی حکومت ایسی حکومت ہے، جو ہمیں تقسیم کرنے اور ٹکڑے ٹکڑے کرنے کے لیے بنائی گئی ہے، یہ عالمی یوم قدس کا پیغام ہے اور وہ ان لوگوں کے خلاف قومی اتحاد کا پیغام، جو نہیں چاہتے کہ دنیا میں کوئی قوم باقی رہے۔ وہ بکھری ہوئی قومیں چاہتے ہیں اور صیہونی حکومت تقسیم شدہ خطے پر اپنی بالادستی چاہتی ہے۔
سوال: فلسطین کے مسئلے میں ایران کے کردار پر آپ کیا کہیں گے۔؟
ابو شریف: اسلامی جمہوریہ ایران نے پہلے دن سے اعلان کیا تھا کہ وہ مغرب کے آپشنز پر نہیں بلکہ اپنے آپشنز پر عملدرآمد کرے گا، وہ کسی دوسرے کی ڈکٹیشن کو قبول نہیں کرتا، وہ چاہتا ہے کہ اس کی اپنی پالیسی ہو۔ مسئلہ فلسطین اس قوم اور خطے کا بنیادی مسئلہ ہے، اس لیے ایران نے روز اول سے اپنا فرض ادا کیا اور فلسطینیوں کا حامی بن کر سامنے آيا ہے، آج ایران فلسطینی قوم اور فلسطینی کاز پر مکمل اعتماد رکھتا ہے اور پوری قوت کے ساتھ فلسطین کے ساتھ کھڑا ہوا ہے۔ اس کی وجہ سے اس کے خلاف آٹھ سالہ جنگ چھیڑی گئی تھی، تاکہ وہ امریکی سازش میں شامل ہو جائے، ایران کو اس راستے سے روکنے کے لیے اس کے خلاف ہر قسم کی پابندیاں عائد کی گئیں، اسے دہشت کردی کا نشانہ بنایا گيا، لیکن ایران اب بھی اپنے راستے پر ثابت قدم ہے۔ یہ ایران ہی ہے، جو فلسطینی عوام کی حمایت کرتا ہے، یہ ایران ہی ہے، جو فلسطینیوں کے حقوق کا دفاع کرتا ہے۔ ایران ہمیشہ فلسطین میں مزاحمتی تحریکوں کی حمایت اور پشت پناہی کرتا آيا ہے اور خارجہ پالیسی میں بھی فلسطینی عوام کی حمایت کرتا ہے۔ حتیٰ کہ اندرونی طور پر بھی ایران صیہونی خطرات کے مقابلے میں عرب اور اسلامی ممالک کو منظم اور متحد کرنے کی ہر ممکن کوشش کرتا ہے۔
سوال: آخر میں امت مسلمہ کے لئے آپکا کیا پیغام ہے۔؟
ابو شریف: اس میں کوئی شک نہیں کہ اس صیہونی حکومت کی عمر بہت تھوڑی ہے، یہاں تک کہ اس کے اعلیٰ سیاسی، فکری اور عسکری عہدیدار بھی اس کی تصدیق کرتے ہیں، درحقیقت اس کے معدوم ہونے کا مرحلہ اندر اور باہر سے شروع ہوچکا ہے۔ اس موقع پر امت مسلمہ کے اتحاد کی اشد ضرورت ہے۔
تبصرہ کریں