عقد زہرا (س) و علی (ع) اور ہمارے سماج کی شادیاں 

بہترین دوست و معاون تعلیمات ائمہ کی نظر میں وہی ہے جو بندگی کی راہ میں مددگار ثابت ہو ۔چنانچہ جب حضور سرور کائنات نے آپ سے پوچھا علی ع تم نے فاطمہ سلام اللہ علیہا کو کیسا پایا تو امام علی علیہ السلام پیغبر ص کے جواب میں فرماتے ہیں میں فاطمہ س کو اطاعت پروردگار میں نے بہترین مدد گار پایا

فاران تجزیاتی ویب سائٹ: یکم ذی الحجہ[1] وہ تاریخ ہے جو منسوب ہے کائنات کی دو عظیم ہستیوں کے عقد سے جنکی کامیاب زندگی کے نقوش آج بھی ہماری کامیابی کی ضمانت ہیں بشرطیکہ انکے چھوڑے نقوش پر عمل کیا جائے انکے فضائل کو لیکر محض زبانی جمع خرچی نہ ہو ۔آج ہمارے یہاں ہر طرف خوشیوں کی محفلیں سجی ہیں اس اہم تاریخ میں بہت سے ایسے عاشقان اہلبیت اطہار علیھم السلام ہیں جنہوں نے اپنی بیٹیوں کو رشتہ ازدواج میں منسلک کر کے انکے گھروں کی طرف رخصت کیا ہے ۔

لیکن حضرت صدیقہ طاہرہ سلام اللہ علیہا کے عقد کی مناسبت محض اس لئے اہم نہیں ہے کہ ہم اس تاریخ میں خوشیاں منائیں جشن منائیں محفل مسرت بپا کریں یا حصول برکت کے لئے اس دن اپنے بچوں کا عقد رکھیں  بلکہ  اپنی خوشی کے اظہار کے ساتھ ساتھ ہمارے لئے ضروری ہے اس عقد کے ماحصل پر بھی غور کریں کہ اس عقد کے نتیجہ میں نسل امامت چلی اور شریعت پیغمبر ص اسی امامت کے تسلسل کی بنا پر آج تک محفوظ ہے ۔ آج ہمارے سماج اور معاشرے میں ہم سب پر لازم ہے کہ دیکھیں علی و فاطمہ علیھما السلام نے کس طرح زندگی گزاری اور ہمارے یہاں مشترکہ زندگی کو کتنے چیلنجز ہیں جناب فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کے عقد  میں نہایت سادگی کا خیال رکھا گیا ہم دیکھیں ہمارے یہاں شادیوں میں کیا دھوم دھڑاکہ ہلڑ ہنگامہ ہوتا ہے ، ہمارے یہاں زمانے سے مذہبی گھرانوں میں رواج رہا ہے کہ مہر کی تعیین کے وقت اس بات کا لحاظ رکھا جاتا ہے کہ مہر زیادہ نہ ہو اور کوشش کی جاتی کہ مہر کو حضرت زہرا سلام اللہ علیہا کے مہر سے منسوب کرتے ہوئے اتنا رکھا جائے کہ ادائگی مہر میں پریشانی نہ ہو  لیکن ادھر بعض گھرانوں میں ایک نئی آفت دیکھنے کو مل رہی ہے  جہاں یہ کہہ کر کہ مہر فاطمی کچھ کم نہیں تھا اس دور کا سونا اس دور کے سکے اس دور کی چاندی آج کہاں میسر ؟ توہم کیوں مہر چودہ ہزار روپیے رکھیں ہم نہ لاکھوں میں رکھیں بعض لوگ اس عقد کو مشکل بنا رہے ہیں جو زندگی کا نیا پڑاو ہے  اگرچہ ابھی بھی الحمد للہ کثرت سے کچھ گھرانوں میں مہر  کے سلسلہ سے اسلاف صالحین کی ہی روش رائج ہے لیکن بعض  تاجر طبقے سے متعلق معروف و بڑے گھرانوں میں یہ آفت آ گئی ہے کہ وہ سمجھتے ہین مہر جتنی زیادہ رکھی جائے اتنا ہی بہتر ہے  ایسے لوگوں کے لئے ضروری ہے  کہ وہ سوچیں ہم کس کی سیرت پر چلنے کا دم بھر رہے  ہیں ،رہبر انقلاب اسلامی اس سلسلہ سے ایک مقام پر بیان فرماتے ہیں : “ہزاروں خوبصورت جوان جنکا حسب و نسب بہت عالی ہو جو بہت طاقت ور اور لوگوں کی نظروں میں محبوب ہوں لیکن ان کا وجود علی ابن ابی طالب علیہ السلام کے ایک تار مو کے برابر نہیں ، اسی طرح ہزاروں خوبصورت  خواتین  جنکا حسب و نسب دونوں ہی اعلی ہو وہ بھی حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کے ایک تار مو کے برابر نہیں ہیں ، یہ وہ شخصتیں ہیں جو اپنے دور میں معنوی و الہی اعتبار سے بھی اعلی درجات کی حامل تھیں اور اپنے زمانے میں بھی بڑی شخصیات تھیں ، جناب فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا اسلامی معاشرے کے حاکم  کی بیٹی تھیں  دوسری طرف امام علی ع تھے جو اسلام کے پہلے درجے کے کمانڈر تھے آپ دیکھیں دونوں نے کس طرح شادی کی ، انکی مہر کتنی تھی ؟ جہیز کا سامان کتنا تھا  ، جو کچھ تھا خدا کے نام پر خدا کے لئے تھا یہ سب ہمارے لئے نمونہ عمل ہے ، اسی دور میں جاہلیت کے زمانے میں ایسے بھی لوگ تھے جو اپنی لڑکیوں کی مہر بہت زیادہ رکھتے تھے مثلا ہزار اونٹ ،کیا یہ لوگ پیغمبر ص کی بیٹی سے بڑھ کر تھے اب ہمارے لئے بھی ضروری ہے کہ ہم  ان جاہلوں کی تقلید نہ کرتے ہوئے  بنت پیغمبر ص کی تقلید کریں امیر المومنین کی تقلید کریں” [1]۔

آج  کل بعض جگہوں پر یہ بھی سننے آتا ہے بھائی کیا کریں بڑے باپ کی بیٹی ہے  اب نخرے تو جھیلنا ہی ہی پڑیں گے یا بڑے باپ کا بیٹا ہے اب باتیں تو ماننا ہی پڑیں گی تو ایسے لوگوں سے رہبر انقلاب اسلامی اپنے ایک بیان میں فرماتے ہیں : ” آپ  پیغمبر ص کی بیٹی کو دیکھیں دنیا کی بہترین بیٹی  فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا تھیں ، دنیا کی خواتین میں پہلی اور آخری سب سے با فضیلت خاتون حضرت زہرا تھیں  ہرگز کوئی ایسی خاتون اس دنیا میں پیدا نہ ہوئی جو آپ کے مقام و آپ کی منزلت کی ہمسری کر سکے  اول خلقت سے آخر خلقت تک تمام دنیا کی خواتین آپ کے سامنے ایسی کنیزوں کی طرح ہیں جو  بالکل اس طرح نظر آتے ہیں جیسے  روشنی برساتے ہوئے آفتاب کے سامنے چھوٹے چھوٹے ذرے  آپکے شوہر کو دیکھیں تو شوہر بھی بہترین ،تمام دنیا کے مردوں میں علی سے بہتر کون ہوگا ، اگر دنیا کے تمام مردوں کو ایک ساتھ اکھٹا کر لیا جائے تو سب کے سب مل کر علی ابن ابی طالب علیہ السلام کے ایک ناخن کے برابر بھی نہیں ہو سکتے ، یہ دونوں مظہر عظمت و جمال ہیں دونوں مظہر فضیلت ہیں دونوں نے جب شادی کی تو  جہیز چند سستے سازوسامان پر ہی مشتمل تھا  جسکا ذکر کتابوں میں ہے، ایک چٹائی ،  ایک  بستر، ایک خرمے کی کھال کا بنا بچھونا ، ایک کوزہ، ایک پیالہ، ایک چکی  اگر ان ساری چیزوں کو آج کے پیسوں میں دیکھا جائے تو چند ہزار  مختصر سےزیادہ نہ ہوں گے اس دور میں آپ کے جہیز کے سامان کو ذرا دیکھیں  یہ نہ دیکھیں فلاں نے اسکو اتنا دیا فلاں نے اتنا دیا ، وہی مہر جو امیر المومنین نے ادا کی تھی اسی سے لیکر مختصر سے جہیز کا سامان فراہم کیا گیا  اب ہم یہ نہیں کہتے ہماری خواتین بھی اتنے ہی جہیز پر اکتفا کریں  نہ ہماری بیٹیاں فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کی طرح ہیں اور نہ ہم  فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کے باپ کی طرح ہیں  نہ ہی ہمارے پاس علی ابن ابی طالب علیہ السلام جیسے بیٹے ہیں ہم کہاں وہ کہاں زمین سے آسمان کا فاصلہ ہے لیکن اتنا پتہ ہے راستہ یہی ہے سمت یہی ہے جہیز کوبہت مختصر رکھا جائے اور یہ نہ دیکھا جائے اس نے کیا دیا اس نے کیا دیا  زیادہ خرچ نہ کریں  اپنے رویے سے ان لوگوں کے کام کو مشکل نہ بنائیں جنکے پاس کچھ نہیں ہے”۔

[2] جناب  فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کا کل جہیز اتنا تھا کہ شاید دو لوگ اپنے ہاتھوں سے اٹھا کر گھر لے جا سکتے تھے یہی چیز باعث افتخار ہے۔ ایک اور مقام پر آپ فرماتے ہیں :

“یہ روح کی غذا ہے  یہ معاشرے کی صحت کا نسخہ ہے ، گھر کی صحت کا سبب ہے اس پر عمل ہونا چاہیے  شادی کو سادہ ہونا چاہیے۔ یہی چیز قیمتی ہے ۔ کیا پیغمبر ص اپنی بیٹی کو اچھا جہیز نہیں دے سکتے تھے اگر حضور سرورکائنات صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ایک اشارہ کرتے تھے تو آپ کے اطراف میں اتنے مالدار لوگ اتنے صاحب حیثیت لوگ تھے کہ جنکے پاس پیسوں کی کمی نہ تھی آپ چاہتے تھے تو خداسے مانگتے کہ یہ لوگ ہدیہ لیکر آئیں  کچھ مدد کریں لیکن ایسا نہیں کیا کیوں نہی کیا ؟ اس لئے کہ ہم اور آپ سیکھ لیں ورنہ کیا فائدہ کہ ہم  بیٹھ کر یہ سب باتیں کریں ، ہمیں اچھا لگے  پھر کچھ سیکھیں نہیں  اس کا کیا فائدہ ؟ ہم کوئی فائدہ نہ اٹھا سکیں تو کیا حاصل ؟ ایک طبیب کے نسخے کو انسان اگر طاق پر رکھ کر اسے دیکھتا رہے تو کیا حاصل ہے ،ہمیں عمل کرنا ہوگا تاکہ ہمیں فائدہ ہو سکے ، اگر کھانے کی ایک نوعیت ہم نے بنائی ہے جس سے صحت مند رہ سکیں تو اس پر عمل کی ضرورت ہے یہ سب روح کی غذا ہے معاشرے کی صحت مند غذا ہے اس پر عمل ہونا ضروری ہے  [3] ۔

زہرا و علی علیھما السلام ایک دوسرے کے ہم دم و مونس  :

ہمارے معاشرے میں بسا اوقات شادیاں تو بڑی دھوم دھام سے ہوتی ہیں شادی ہونے کے بعد کئی دنوں تک چرچے ہوتے ہیں اتنے مہنگے ہوٹل میں اتنے مہنکے ہال میں اتنے انواع و اقسام کے کھانوں کےساتھ شادی ہوئی لیکن کچھ ہی دنوں میں معاملات کوٹ کچہری تک پہنچ جاتے ہیں یہ سب اس لئے ہوتا ہے کہ ان شادیوں کی بنیاد دنیا ہوتی ہے لیکن شادی اگر دینی اصولوں کے سایے میں ہو تو زوجہ و شوہر کے درمیان ایک اٹوٹ محبت آمیز رشتہ پروان چڑھتا ہے  ۔ آج ہمارے یہاں بڑی مشکل یہ ہے کہ شادی ہو جاتی ہے لیکن ایک دوسرے کے لئے لگن  اور ایک دوسرے سے زن و شوہر کے درمیان انسیت کا فقدان ہوتا ہے چونکہ جوبھی انسیت ہوتی ہے وہ سب مال سے ہوتی ہے دنیاوی زرق برق سے ہوتی ہے جبکہ شادی دو جسموں کا نہیں دو روحوں کے ملن کا نام ہے  جہاں ایک دوسرے کو لیکر فکر مندی ہو ایک دوسرے کے حقوق کا خیال ہو  آپ امیر المومنین علی ابن ابی طالب علیہ السلام کو دیکھیں آپ کی شخصیت کتنی عظیم ہے اس عظیم شخصیت کی زندگی میں وہ شخصیت کتنی عظیم ہوگی جسکی فضیلت علی ع جیسا انسان بیان کرے امیر المومنین علی ابن ابی طالب علیہ السلام کی نظر میں جناب فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کی شخصیت کا بیان بی بی کی عظمت و جلالت کی دلیل ہے ایک عام انسان کسی کی فضیلت کو بیان کرے تو اور بات ہے لیکن فضلیتیں جسکا طواف کرتی ہوں وہ کسی کے بارے میں زبان کھولے اور ہے ،ایسی ذات جو اگر نہ ہوتی تو فاطمہ ع کا کوئی ہمسر نہ ہوتا[4]. اتنا ہی نہیں کہ امیر المومنین علیہ السلام نے جناب فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کی فضیلت کےپہلووں کو آشکار کیا ہے بلکہ جا بجا آپ نے ا س بات پر فخر بھی کیا ہے کہ فاطمہ سلام اللہ علیہا میری زوجہ ہیں [5]فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا محض علی علیہ السلام کی ایک زوجہ نہ تھیں بلکہ آپ کی زندگی کا کل سرمایہ تھیں علی ع کی ہمدم تھیں معاون تھیں ساتھی تھیں ایسی ساتھی اور دوست کے جنکو دیکھ علی ع اپنے غموں کو بھول جایا کرتے چنانچہ آپ خود فرماتے ہیں کہ جب میں فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کے چہرہ اقدس کو دیکھتا تو اپنے حزن و ملال مجھ سے زائل ہو جاتا جاتا تھا [6] آپ کی ذات علی ع کے مقصد حیات کی طرف بڑھنے میں معاون و مددگار تھی ایک زوجہ کے لئے اس سے بڑھ کر کیا ہے کہ وہ اپنے شوہر کے مقصد حیات کو سمجھے اور اسکے مقصد کی طرف بڑھتے قدموں میں مددگار بن جائے ،

اطاعت الہی میں معاون و مددگار اور اطاعت گزار زوجہ :

بہترین دوست و معاون تعلیمات ائمہ کی نظر میں وہی ہے جو بندگی کی راہ میں مددگار ثابت ہو ۔چنانچہ جب حضور سرور کائنات نے آپ سے پوچھا علی ع تم نے فاطمہ سلام اللہ علیہا کو کیسا پایا تو امام علی علیہ السلام پیغبر ص کے جواب میں فرماتے ہیں میں فاطمہ س کو اطاعت پروردگار میں نے بہترین مدد گار پایا۔[7]

جہاں آپ امام علی علیہ السلام کے لئے مقصد خلقت میں انکی معاون تھیں اطاعت الہی و بندگی پروردگار میں بہترین مددگار تھیں وہیں آپ نے پوری زندگی اس طرح گزاری کہ کبھی شوہر کو شکایت کا موقع نہ دیا چنانچہ امام علی علیہ السلام فرماتے ہیں :خدا کی قسم فاطمہ نے مجھے کبھی غضبناک نہ کیا اور کسی بھی کام میں میری بات سے سرپیچی نہ کی[8]۔آپ  گھر کے تمام امور کو بھی بخوبی انجام دیتی تھیں

گرچہ چھوٹے بچوں کی تربیت کے ساتھ گھر کے امور کی دیکھ بھال  آپ پر شاق گزرتی لیکن پھر بھی گھر کے کاموں کو انجام دینے سے نہ رکتیں اتنا کام کرتیں اتنا کام کرتیں کہ ہاتھوں پر ورم آجاتا [9]آپکو اپنی شوہر رضایت کا اسقدر خیال رہتا کہ اگر کہیں خود ہی احتمال دیتیں کہ ممکن ہے میری کوئی بات شوہر کو بری لگی ہو تو خود ہی فرماتیں  استغفر اللہ ولا اعوذ ابدا میں خدا کے حضور پناہ مانگتی ہوں اب اس بات کا اعادہ نہیں ہوگا [10]شوہر کی رضا کا اتنا خیال تھا کہ جب آپ نے اپنے عمر کے آخری لمحات میں خود کو ممنوع الملاقات کر دیا تھا اور کسی کو عیادت تک کے لئیے آنے کی اجازت نہیں دے رہی تھیں اس وقت امام علی علیہ السلام نے جب آپ سے درخواست کی کہ کچھ نمایاں لوگ آپ سے ملاقات کے لئیے آنا چاہتے ہیں تو آپ نے فرمایا:

علی! یہ گھر آپکا گھر ہے اور میں آپکی شریک حیات ہوں جو آپکو مناسب لگے وہ کریں[11] اگر ہمارے معاشرہ میں بھی یہی مزاج فاطمی حاکم ہو جائے تو کیوں نہ انسان کی زندگی کامیاب ہوگی جہاں بہت سے مسائل اسی وجہ سے پیدا ہوتے ہیں زوجہ چاہتی ہے اس کی بات مانی جائے اور شوہر اپنی بات منوانا چاہتا ہے نتیجہ میں ایسی کھینچا تانی کا ماحول بن جاتا ہے کہ گھر کے اندر سے آپسی مفاہمت و پیار محبت کی فضا کی جگہ انتقام و انا و خود محوری کی فضا لے لیتی ہے اور یوں اچھا خاصا گھر جہنم بن جاتا ہے اور پھر وہ مسائل پیش آتے ہیں سب تماشا دیکھتے ہیں۔زہرا و علی علیہما السلام کا عقد  جہاں ہمارے لئے خوشیوں کی سوغات لاتا ہے وہیں  سوچنے اور فکر کرنے کا ایک موقع بھی  فراہم کرتا ہے کہ علی و زہرا سلام اللہ علیہا کی مشترکہ زندگی کو دیکھیں  اور کوشش کریں کہ ہمارے جوان اور نو جوان جو شادی کے بندھن میں بندھ رہے ہیں یا بندھنا چاہتے ہیں  انہیں اصولوں کے مطابق زندگی گزاریں جنکے تحت حضرت صدیقہ طاہرہ سلام اللہ علیہا اور امام علی علیہ السلام نے کامیاب ترین زندگی گزاری اور ایسی نسل کو تربیت کیا جو آج تک دنیا میں انسانی اقدار کی محافظ ہے ۔

 

حواشی :

[1]۔ابن شهرآشوب، مناقب آل ابی‌طالب، ۱۳۷۹ق، ج۳، ص۳۵۷

[2]  ۔ خطبه‌ی عقد مورخه‌ی ۵/فروردین/۱۳۷۲

[3]  ۔ https://www.leader.ir/fa/content/16174/www.leader.ir

[4]  ۔ «لو لا أنّ الله تبارك و تعالي خلق اميرالمؤمنين(عليه السلام) ما كان لها كفو علي ظهر الأرض من آدم و من دونه»كافي، ج۱، ص ۴۱۶؛

[5] ۔نہج البلاغہ مکتوب ۲۸، بحارالانوار/ج۴۱/ صص۱۵۱و ۲۲۴٫، الاحتجاج: ج۱، ص۱۷۱ و۱۹۵٫(

[6] ۔لقد کنت انظر الیها فتنکشف عنی الهموم والاحزان،«بحارالانوار،جلد۴۳، صفحه ۱۳۴

[7]  ۔کیف وجدت اهلک؟ فقال: نعم العون علی طاعة اللَّه بحارالانوار/ ج۴۳/ ص ۱۱۷(،

[8]  ۔فوالله … لا اغضبتنی و لاعصت لی امرا،«بحارالانوار،جلد۴۳، صفحه ۱

[9]  ۔نہج الحیاۃ ح ۹۲

[10]  ۔ایضا  ح ۲۔ ۳

[11] یا علی البیت  بیتک والحرۃ زوجتک افعل ما تشاء ۔شرح نھج البلاغہ ابن ابی الحدید، جلد ۳ ص ۲۵۷،لمراجعات ، ص ۳۰۳