عید حانوکاہ، عیسائیت کی تقلید/ خفیہ شیطانی انجمنوں اور کالے جادو سے پیوند
فاران تجزیاتی ویب سائٹ: حانوکاہ (یا حنوکاہ یا خانوکاہ) عبرانی میں خنوکہ חֲנֻכָּה اور انگریزی میں Hanukkah) یا روشنی کا میلہ یا جشن، یہودی عیدوں اور میلوں میں سے ایک ہے جسے عام طور پر آخر نومبر اور دسمبر کے درمیان اور عیسائی کرسمس سے پہلے منایا جاتا ہے۔
عبرانی میں خنوکہ کے معنی افتتاح یا کھولنے کے ہیں اور یہ عید یہودیوں کی قدیم فتوحات اور معجزات کی یاددہانی کراتا ہے۔
یہودی تاریخ کے مطابق، سَنتوں (Saints) کی جماعت اروشلیم سے بھاگ گئی تو جماعت کے ارکان نے حشمونی (Hasmonean) خاندان کے بزرگ میتن یاہو – جو کچھ ہی عرصہ بعد گذر گیا – کو اپنا قائد منتخب کیا۔ اس کے بیٹے اور جانشین یہودا المعروف بہ مکابی (ہتھوڑا) نے سلوقیوں (Seleucid empire) کے خلاف بغاوت کر دی اور کئی لڑائیوں کے بعد انہیں شکست دی۔
عید حانوکاہ کا تاریخچہ
ہیکل سلیمانی (یا بیت هامیقداش = مقدس عبادت گاہ) کی تعمیر کے بعد، تقریبا 300 سال قبل از مسیح، یورپ میں نئی طاقت ظہور پذیر ہوئی جس نے اپنے زمانے کی سلطنت کو چیلنج کیا۔ یہ نئی طاقت یونانی فاتحین کی طاقت اور نئی تہذیب جو ہیلینیت (Hellenism) کہلاتی تھی۔ اس نئی طاقت نے ایشیا کے ایک بڑے حصے کو مسخّر کیا اور ارض مقدسہ میں قائم یہودا کی حکومت بھی مقبوضہ علاقوں میں شامل تھی۔
یونی ثقافت اور ہیلینی تہذیب اور ہیلینیت
یہودا کی سرزمین پر یونانیوں کی حکمرانی کے بعد، ان کی حاکمیت نے یہودیوں پر مختلف قسم کے اثرات مرتب کئے۔ یونانی ثقافت و تہذیب نے یہودیوں کی ایک بڑی جماعت کی سوچ کو اپنی طرف مبذول کرایا۔ یہودا کی سرزمین پر یونانی یلغار فوجی یورش سے زیادہ ثقافتی یلغار تھی۔
یونانی، جو خدائے یکتا پر ایمان نہیں رکھتے تھے اور متعدد معبودوں اور دیوتاؤں کی پوجا کرتے تھے، فَنُونِ لَطِيفَہ، فلسفہ، ادب اور دوسرے علوم میں بہت حد تک ترقی کر چکے تھے اور انھوں نے یہودی قوم کے ایک بڑے حصے کو اپنی ثقافت اور آداب و رسوم سے متاثر کر دیا۔ تاریخ میں ان یہودیوں یو ہیلینی یہودی (Hellenistic Jews) کہا جاتا ہے جو یونانی ثقافت و تہذیب اور زبان نیز آداب و رسوم اور طرز زندگی اپنا چکے تھے۔ کچھ روایتی یہودیوں نے ان کا مقابلہ کیا جو حسیدیم (بمعنی پرہیزگاروں اور پارساؤں) اور حسیدی یہودیوں (Hasidic Jews) کے نام سے مشہور ہوئے۔ یہ لوگ توریت کے فرامین و احکامات کے تحفظ پر اصرار کیا۔
جس وقت یہودا نامی چھوٹا سا ملک سلوقیوں کے زیر قبضہ تھا، آنتیوخوس چہارم (Antiochus IV) نے یہودیت کی بیخ کنی کرنے اور یونانی ثقافت کو متبادل کے طور پر رائج کرنے کی کوشش کی۔ اس نے اورشلیم (یا یروشلم) کے دوسری عبادت گاہ (Second Temple) کو (یونانی دیوتا) زیوس کے مندر (Temple of Zeus) میں تبدیل کرنے کا فرمان جاری کیا۔
یہودی حکایات کے مطابق، آنتیوخوس کے فوجیوں نے زیوس کا مجسمہ عبادت گاہ کے اندر منتقل کیا اور اپنے دیوتا کے اعزاز میں وہاں ایک قربان گاہ کی بنیاد رکھی اور یہودیوں کو ان رسوم کی پیروی پر مجبور کیا۔ نیز آنتیوخوس نے حکم دیا کہ توریت کی تعلیم اور یہودی مذہبی رسوم کو ممنوع کیا جائے۔ یہاں تک کہ گھر میں کتاب مقدس رکھنا بھی جرم سمجھا جاتا تھا اور جو بھی ان قوانین کی خلاف ورزی کرتا اس کو موت کی سزا دی جاتی تھی۔ یہودیوں نے کسی بھی مزاحمت کے بغیر ان احکامات کو قبول کرلیا، کیونکہ وہ [خود بھی] یونانی ثقافت کی پیروی کو تہذیب اور شان و شوکت کی علامت سمجھتے تھے!
لیکن یہودیوں کی ایک جماعت اورشلیم سے بھاگ کر اطراف کی پہاڑیوں اور غاروں میں پہنچ گئی، ان یہودیوں نے اپنے ایمان کے تحفظ کا فیصلہ کیا اور یونانی قوانین ماننے سے انکار۔ اس اثناء میں ایک بزرگ یہودی راہنما یا کاہن اعظم (כהן גדול = کوہن گاڈول Kohen Gadol = = High Priest) بنام متاتیاس بن یوحنا (Mattathias ben Johanan) یا ماتتیا حشمونائے اپنے پانچ بیٹوں کے ساتھ اورشلیم سے بھاگ گیا اور شمال میں مودیعین (Modi’in) علاقے میں رہائش اختیار کی۔ اس نے وہاں یہودیوں کی ایک جماعت کو اکٹھا کیا اور آنتیوخوس کی سلطنت کے خلاف اپنی پہلی [مکابی] بغاوت کا آغاز کیا اور کچھ کامیابیاں بھی حاصل کر لیں۔
متاتیاس کی موت کے بعد، اس کے بیٹے یہودا نے یونانیوں کے خلاف یہودیوں کی کمان سنبھالی، اور اس نے یونانیوں پر جو ضربیں لگائیں، ان کی وجہ سے وہ بعد میں یہودی یهودا مکابی (Judas Maccabeus) یعنی کوٹنے والے یہودا کے نام سے مشہور ہؤا۔
یہودا مکابی اور اس کی جماعت “مکابیون” کے عنوان سے مشہور ہوئے تھے۔ وہ تذبذب میں مبتلا پس و پیش کرنے والے یہودیوں کو اپنے گرد جمع کرنے میں کامیاب ہوئے اور آخرکار مسلسل لڑائیوں کے بعد آنتیوخوس کے لشکر کو شکست دی اور سنہ 165 قبل مسیح میں اورشلیم میں داخل ہوئے اور خوشی و مسرت کے ساتھ بیت ہمیقداش (مقدس عبات گاہ) کو آزاد کرا لیا۔ انھوں نے بیت ہمیقداش کی صفائی کی اور کو پاک کر دیا اور اس کے لئے نئے برتن بنوائے اور نو بازُوٴوں والے شمع دان (Menorah) کے جلانے کا وقت آن پہنچا، جسے شب و روز روشن رہنا چاہئے تھا۔ [اس شمع دان کو حنوکا یا حنوکیہ بھی کہا جاتا ہے]
یہودا مکابی اور مکابی یہودی
یہودی کتاب تلمود (תלמוד = Talmud) میں بیان ہؤا ہے کہ جب حشمونائیم (Hashmonaians) (یعنی مکابیوں) نے عرصہ بعد عبادت گاہ کو کھول دیا تو انہیں ایک چھوٹا سا برتن ملا جس پر کاہن اعظم (کوہن گاڈول Kohen Gadol) کی مہر ثبت تھی اور اسی بنا پر [یہودی عقیدے کے مطابق] ناپاکی سے محفوظ تھی۔ اس برتن میں تھوڑا سا تیل تھا جو ایک دن تک جلنے کے لئے کافی تھا لیکن آٹھ دن تک جلتا رہا تھا جس سے یہ امکان پیدا ہؤا کہ نیا [پاک] تیل فراہم کیا جائے۔
یہ “معجزہ” یہودیوں کے نزدیکی جشن حانوکاہ میں تبدیل ہؤا اور اس دن کے لئے اور نو بازُوٴوں والا شمع دان تیار کیا گیا، جس میں جشن کی پہلی شب ایک شمع جلائی جاتی ہے، دوسری شب دوسری شمع اور اسی ترتیب سے آخری روز آٹھویں شمع روشن کی جاتی ہے۔
اگرچہ حاخام (یا خاخام یا ربی) ماضی میں عسکری پہلو سے زیادہ اس عید کے روحانی پہلو پر زور دیتے تھے، لیکن آج کے زمانے میں – صہیونیت کے زیر اثر (بالخصوص جعلی ریاست اسرائیل میں) یہ رویہ برعکس ہے اور اس جشن کو بڑھا چڑھا کر اس کے قومی پہلو (یعنی فوجی کامیابی) کو زیادہ نمایاں کیا جاتا ہے۔
عید حانوکاہ دوسری نگاہ سے
عید حانوکاہ عہد قدیم (اور توریت) میں مذکورہ اعیاد کے زمرے میں نہیں آتی اور گذشتہ زمانے میں اس کو اتنی اہمیت حاصل نہیں تھی؛ اسی وجہ سے، عید پوریم کو چھوڑ کر، یہ واحد عید ہے جس میں کام کرنا حرام نہیں ہے۔ یہ عید ماضی میں بڑی سادگی سے منائی جاتی تھی؛ یوں کہ ہر روز ایک شمع جلائی جاتی تھی، اور گھرانے کا باپ کوئی دعا پڑھتا تھا اور اہل خانہ ایک سادہ سا نغمہ مل کر گاتے تھے جس میں خدا کا شکر ادا کیا جاتا تھا اور سلوقیوں کو “کتا” کہا جاتا تھا! (کہتے تھے: وہ ایسے دشمن ہیں جو بھونکتے ہیں) بچے بھی ایک سادہ سا کھیل کھیلتے تھے، نتیجے کے طور پر، حانوکاہ کا دن ہفتے کے دوسرے ایام سے کچھ زیادہ مختلف نہیں تھا۔
لیکن رفتہ رفتہ عید حانوکاہ – اس لئے کہ عیسائیوں کے کرسمس کے ایام میں منائی جاتی تھی – غیر معمولی اہمیت اختیار کر گئی اور یہ غیر اہم اور معمولی سی عید سب سے اہم یہودی عید اور کرسمس کی بازگشت بن گئی؛ کیونکہ مینورہ شجرہ کرسمس (Christmas tree) کے مقابلے میں آتا ہے، اور اس دن کرسمس کی طرح بچوں کو تحفے تحائف دیئے جاتے ہیں۔
عید حانوکاہ کرسمس کی تقلید میں اس حد تک بڑھ گئی کہ اس سے متعلقہ تمام آداب و رسوم کو برباد کیا گیا اور مینورہ کے شمع دان نے اپنی جگہ شجرہ مینورہ کو دے دی اور شجرہ مینورہ کو شجرہ کرسمس کا ہم پلہ قرار دیا گیا۔ یہودیوں کے درمیان عید حانوکاہ کے لئے اب ایک چچا آیا ہے جس کو انکل ماکس (Hanukkah Harry or Uncle Max, the Hanukkah man) بھی کہا جاتا ہے جو کرسمس کے سانتا کلاز (Santa Claus) کا ہم منصب ہے! اور اس کی ذمہ داری بھی وہی ہے فر یہ ہے کہ سانتا کلاز عیسائی بچوں کو تحائف دیتا ہے اور انکل ماکس یہودی بچوں کو۔
شجرہ حانوکاہ اور چچا ماکس
قابل توجہ نکتہ یہ ہے کہ اگرچہ عید حانوکاہ اپنی یہودی شناخت مکمل طور پر کھو چکی ہے، لیکن یہودی اس کو یہودی تشخص کی اہم ترین علامت سمجھتے ہیں! عید حانوکاہ اسرائیل کے زیر قبضہ مقبوضہ فلسطین میں ایک دینی اور قومی عید کے طور پر منائی جاتی ہے۔ اور اس میں شمعدانوں کو شہروں کے عمومی چوراہوں پر روشن کیا جاتا ہے، کچھ لوگ مشعل اٹھا کر عوامی راستوں پر منظم اور ہم آہنگ انداز سے چہل قدمی کرتے ہیں اور ہزاروں نوجوان ان رسومات کے دوران قلعۂ ماسادا (Masada fortress) پر چڑھتے ہیں۔
عید حانوکاہ میں نو بازُوٴوں والا شمع دان (مینورہ)
یہودی عیدوں میں دو قسم کے شمع دانوں سے استفادہ کیا جاتا ہے، ایک سات بازؤوں والا اور دوسرا نو بازؤوں والا۔ نو بازؤوں والا شمعدان وہ ہے جسے یہودیوں کی عید حانوکاہ میں استعمال کیا جاتا ہے۔
حانوکاہ والا مینورہ کی شمعیں آٹھ دنوں میں یکے بعد دیگر جلائی جاتی ہیں، اور یہ سات بازؤوں والے مینورے سے مختلف ہے جس کو ہیکل سلیمانی میں روشن کیا جاتا تھا اور یہودیت کی اصل علامت ہے۔ نواں بازو شماس (خادم) (1) کہلاتا ہے اور اس میں رکھی ہوئی شمع کو عید حانوکاہ میں آٹھ شمعیں جلانے کے لئے استعمال کیا جاتا ہے۔
یہودی پوری دنیا میں 25 کسلیو (Kislev) سے 2 ٹیوٹ (Tevet) تک کے آٹھ دنوں میں حنوکیہ کی نو بازؤون کو روشن رکھتے ہیں۔ یہ شمع دان ان ایام میں معمول کے مطابق گھروں کے کھڑکیوں میں رکھے جاتے ہیں اور شمعیں وہیں جلائی جاتی ہیں۔
تاہم سات بازؤوں والے شمع دان – جو بہت سی یہودی کنیسوں اور گھروں میں پائے جاتے ہیں – سات بازؤوں والے اس زرین شمع دان کی تاریخی علامت ہے۔ یہ شمع دان خیمۂ عہد (Tabernacle of the covenant) میں اور بعد کے زمانوں میں اورشلیم کی مقدس عبادت گاہ میں، استعمال کیا جاتا تھا۔
حانوکاہ حنوکا در محافل و انجمنهای مخفی و شیطانی
همزمان با اینکه یهودیان جهان حنوکا را بهعنوان یکی از اعیاد خویش جشن میگیرند، بهطور هماهنگ در سرتاسر جهان، انجمنهای مخفی نظیر فراماسونری (Freemasonry)، ایلومیناتی (illuminati)، جمجمه و استخوان (Skull and Bones)، بوهمیان گراو (Bohemian Grove)، ایشتاریان (ishtar) و… مراسم جادوی سیاه شیطانی و آیینی باستانی را به کثیفترین شکل ممکن برگزار مینمایند که بعضاً همراه با قربانیهای خاص میباشد.
خفیہ شیطانی انجمنوں اور کالے جادو سے پیوند
ایران کے 11 بڑے شہروں میں یہ رسوم وسیع پیمانے پر اور دوسرے شہروں میں محدود انداز سے، منائی جاتی ہیں۔
یہ مراسمات سورج کے غروب سے رفتہ رفتہ شروع ہوتے ہیں اور رات 10 بجے سے صبح 2 بجے تک بڑی تعداد میں یہودی شرکت کے لئے آتے ہیں؛ اور یہ اجتماعات شہریوں کے لئے بھی منفی اثرات کے حامل ہوتے ہیں۔ ان مراسمات میں کالا جادو اور کچھ شیطانی رسوم کا بھی پورا عمل دخل ہوتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
1۔ شماس Deacon: شَمّاس عیسائیت میں خادم ہے جو مذہبی مدارج میں پہلا سب سے نچلا درجہ ہے۔ پادری (priest) کے بعد دوسرا عہدہ؛ بعض پروٹسٹنٹ گرجاؤں میں شماس – جو پادری یا minister کہلاتا ہے – عیر عبادی کام میں پادری کی معاونت کرتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تبصرہ کریں