غاصب صیہونی رژیم کا اندرونی خلفشار

گذشتہ 70 برس میں یہ مسئلہ ہمیشہ سے موجود رہا ہے اور صیہونی رژیم اس چیلنج سے روبرو رہی ہے۔ مزید برآں، وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس مسئلے میں مزید شدت آ رہی ہے اور دنیا کے مختلف حصوں سے ہجرت کر کے مقبوضہ فلسطین میں بسنے والے صیہونیوں کے درمیان خلیج بڑھتی جا رہی ہے۔

فاران تجزیاتی ویب سائٹ: اسرائیل کی غاصب صیہونی رژیم آج اپنی تاریخ کے بحرانی ترین دور سے گزر رہی ہے اور روز بروز اس کے وجود اور تشخص کو دپیش بحرانوں کی گہرائی اور وسعت میں اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے۔ غاصب صیہونی رژیم کی فوج، سکیورٹی اور انٹیلی جنس ادارے، سیاسی جماعتیں وغیرہ شدید اندرونی تناو اور انتشار کی لپیٹ میں آ چکی ہیں۔ اس اندرونی خلفشار اور انتشار کی شدت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ غاصب صیہونی رژیم حتی فلسطینی مزاحمتی گروہوں کے مقابلے میں بھی بہت کمزور اور متزلزل دکھائی دے رہی ہے۔ گذشتہ دو سال کی جنگوں میں غاصب صیہونی رژیم نے اسلامی مزاحمتی گروہوں کے مقابلے میں شدید شکست اور ناکامی کا مزہ چکھا ہے جبکہ اس رژیم کی جنگی، دہشت گرد اور شدت پسند مشینری جدید ترین فوجی ہتھیاروں سے لیس ہے۔

اسرائیل کی غاصب صیہونی رژیم اپنے پاس جدید ترین اور طاقتور ترین میزائل ڈیفنس سسٹم ہونے کے باوجود فلسطینی مزاحمتی گروہوں کے خلاف ایسی ناکامیوں کا شکار ہو رہی ہے جس کی مثال اس کی پوری تاریخ میں نہیں ملتی۔ غاصب صیہونی رژیم فلسطینی مجاہدین کے مقابلے میں بے بس نظر آتی ہے۔ فوجی اور سیاسی میدانوں میں قابل مشاہدہ حقائق سے واضح ہو جاتا ہے کہ غاصب صیہونی رژیم تیزی سے زوال اور نابودی کی جانب گامزن ہے۔ جب سے دنیا بھر سے یہودی مہاجرین نے مقبوضہ فلسطین کا رخ کیا ہے، یہ علاقہ شدید جنگ اور قتل و غارت کا شکار ہے، چاہے یہ جنگ ہمسایہ ممالک سے ہو یا اندرونی سطح پر انجام پا رہی ہو۔ 1948ء میں جب اسرائیلی نامی جعلی ریاست کی بنیاد رکھی جا رہی تھی تو اس کے بانی رہنماوں نے اس کی تشکیل کا بنیادی ترین ہدف دنیا بھر میں صہیونیوں کی بھرپور حمایت بتایا تھا۔

غاصب صیہونی رژیم کے بانی رہنما اس بات پر زور دے رہے تھے کہ دنیا میں صیہونیوں کا کوئی حامی اور مددگار نہیں ہے لہذا انہیں ایک ایسی خودمختار ریاست کی ضرورت ہے جو دنیا بھر کے صیہونیوں کی پشت پناہی اور مدد کر سکے۔ یوں انہوں نے صیہونیوں سے مخصوص ریاست کی تشکیل کیلئے فلسطینیوں کی سرزمین پر قبضہ جمایا تاکہ دنیا بھر کے صیہونیوں کو ایک چھتری تلے جمع کر سکیں۔ صیہونی رژیم کے بانی رہنماوں کی زیادہ تر توجہ جوان صیہونیوں پر مرکوز تھی۔ دوسری عالمی جنگ کے بعد ہولوکاسٹ کا دعوی پیش کیا گیا۔ غاصب صیہونی رژیم کی تشکیل کے بعد دنیا بھر سے صیہونی مقبوضہ سرزمین کی طرف ہجرت کرنا شروع ہو گئے۔ وہ اس خوش فہمی کا شکار تھے کہ ایک نئی ریاست تشکیل دے کر وہاں پرسکون زندگی بسر کر سکیں گے۔ لیکن وہ اس حقیقت سے غافل تھے کہ یہاں آ کر انہوں نے اپنے اور خطے کیلئے بیشمار مشکلات پیدا کر دی ہیں۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ مقبوضہ فلسطین میں انجام پانے والی قتل و غارت کا بڑا حصہ غاصب صیہونیوں کی جانب سے اپنے اقتدار کو مضبوط بنانے کیلئے انجام پایا ہے جبکہ اس کام میں انہیں امریکہ اور مغربی طاقتوں کی بھرپور حمایت بھی حاصل رہی ہے۔ غاصب صیہونی حکمرانوں نے طاقت کے بل بوتے پر آج تک اپنا وجود باقی رکھا ہوا ہے۔ آج غاصب صیہونی رژیم کو تشکیل پائے 70 برس کا عرصہ بیت چکا ہے جبکہ ہم دیکھ رہے ہیں کہ یہ ناجائز رژیم نہ صرف دنیا کے دیگر مقامات پر بسنے والے صیہونیوں کی کوئی مدد اور حمایت کرنے کے قابل نہیں بلکہ اس کا اپنا وجود ہی خطرے میں پڑا ہوا ہے اور وہ اپنا وجود بچانے کیلئے دنیا بھر میں موجود صیہونیوں سے مدد کی اپیل کرنے میں مصروف ہے۔ دوسرے الفاظ میں صیہونی رژیم ایسے ناقص نومولود کی مانند ہے جس میں پروان چڑھ کر بڑا ہونے کی صلاحیت نہیں پائی جاتی۔

اس وقت غاصب صیہونی رژیم کے زیر کنٹرول علاقوں میں جو صیہونی مقیم ہیں وہ دنیا کے مختلف علاقوں سے آئے ہوئے ہیں جس کے باعث ان میں بہت زیادہ ثقافتی اختلافات پائے جاتے ہیں۔ ان کی بڑی تعداد یورپ، امریکہ، ایشیا اور افریقہ سے ہجرت کر کے وہاں آئی ہے۔ یوں ان میں ثقافت اور اخلاقی اقدار کے لحاظ سے بہت زیادہ اختلاف پایا جاتا ہے جبکہ ان کے رویے بھی یکسان نہیں ہیں۔ مزید برآں، مقبوضہ سرزمین پر بسنے والے صیہونیوں کی 90 فیصد تعداد صیہونزم کی بالکل قائل نہیں ہے اور ان کا رجحان سیکولرازم کی جانب ہے۔ مقبوضہ سرزمین میں مقیم صیہونیوں کی صرف 10 فیصد تعداد ایسی ہے جو نظریاتی طور پر صیہونی ہیں اور وہ صیہونزم پر عقیدہ رکھتے ہیں۔ لہذا غاصب صیہونی رژیم کے پرچم تلے مقیم صیہونیوں میں گہرا فاصلہ پایا جاتا ہے اور وہ مختلف عقائد اور رویوں کے حامل ہیں۔

گذشتہ 70 برس میں یہ مسئلہ ہمیشہ سے موجود رہا ہے اور صیہونی رژیم اس چیلنج سے روبرو رہی ہے۔ مزید برآں، وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس مسئلے میں مزید شدت آ رہی ہے اور دنیا کے مختلف حصوں سے ہجرت کر کے مقبوضہ فلسطین میں بسنے والے صیہونیوں کے درمیان خلیج بڑھتی جا رہی ہے۔ پوری جرات سے یہ دعوی کیا جا سکتا ہے کہ غاصب صیہونی رژیم نے اپنی تمام تر توانائیاں صرف کر کے صرف ظاہری شان و شوکت برقرار رکھی ہوئی ہے جبکہ اندر سے اتنی کھوکھلی ہو چکی ہے کہ اسے نابودی کیلئے بیرونی دشمن کی ضرورت بھی نہیں ہے۔ مقامی صیہونیوں اور مہاجر صیہونیوں کے درمیان کسی قسم کا اتفاق اور ہم آہنگی نہیں پائی جاتی اور یہ مسئلہ حتی صیہونی رژیم کی سیاسی جماعتوں میں بھی سرایت کر چکا ہے۔ لہذا سیاسی جماعتوں کے درمیان پائے جانے والے شدید اور گہرے اختلافات کے باعث اسرائیل کی غاصب صیہونی رژیم اندر سے ٹوٹ پھوٹ اور انتشار کا شکار ہے۔