غرب ایشیاء میں بدلتی ہوئی صورتحال اور مسلم امہ میں خوشی کی لہر

یہ ایسی صورتحال ہے کہ جس نے پوری مسلم دنیا میں خوشی کی لہر پیدا کر دی ہے۔ یقینی طور پر اس صورتحال سے اگر کوئی ناخوش ہے تو وہ شکست خوردہ امریکی حکومت اور اس کے حواری برطانوی استعمار اور ناجائز اولاد اسرائیل ہیں کہ جو خطے کی ان تبدیلیوں کو برداشت کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتے۔

فاران تجزیاتی ویب سائٹ:  مسلم دنیا ہمیشہ عالمی استعماری نظاموں کی سازشوں کا نشانہ بنتی آئی ہے۔ خلافت عثمانیہ کا خاتمہ بھی استعماری قوتوں کی سازشوں کا نتیجہ تھا۔ فلسطین اور القدس پر غاصب صیہونی ریاست اسرائیل کا ناجائز قیام بھی استعمار کی لڑاؤ، تقسیم کرو اور حکومت کرو کی پالیسی کا نتیجہ تھا۔ غرض یہ کہ ایشیائی ممالک چاہے جنوب میں ہوں یا مغرب میں، ہمیشہ عالمی استعماری نظام کی سازشوں کے نشانہ پر رہے ہیں۔ جنوب ایشیاء میں بھی برطانیہ اور امریکہ کی مشترکہ سازشوں کے نتیجہ میں سنہ1857ء سے لے کر تاحال آج تک تقسیم کرنے اور حکومت کرنے کی پالیسی جاری ہے۔ حالانکہ پاکستان اور ہندوستان جیسے ممالک انگریزوں کی غلامی سے آزاد ہوچکے ہیں، لیکن تاحال انگریزیت کا رنگ باقی ہے۔ غلامی کی زنجیریں ہر دو مقام پر طوق گریباں ہیں۔

غرب ایشیاء میں ایران ہمیشہ سے ایک اہم مسلم ملک اور حکومت کے طور پر رہا ہے۔ سنہ1979ء میں ایران میں آنے والے اسلامی انقلاب نے ایران میں امریکہ اور اسرائیل سمیت برطانیہ اور تمام استعماری طاقتوں کے ستون گرا دیئے۔ انقلاب سے پہلے تک ایران اگرچہ ایک مسلم ملک تھا لیکن استعماری قوتوں بشمول برطانیہ اور امریکہ کا ایک اہم ستون تصور کیا جاتا تھا۔ استعماری قوتوں نے یہاں بھی اپنے تمام تر اوچھے ہتھکنڈے استعمال کئے، لیکن ناکامی کے بعد اس نتیجہ پر پہنچے کہ عرب دنیا اور خاص طور پر ایران کے پڑوسی ممالک کو ایران کا دشمن بنا دیا جائے، تاکہ ایران کی ترقی کی راہوں میں رکاوٹ کھڑی کی جائے اور اس انقلاب کو ختم کیا جائے۔

امریکہ اور برطانیہ نے اپنے ناپاک عزائم کی تکمیل کے لئے سعودی عرب سمیت خطے کے کئی ایک عرب ممالک کو ایران کے خلاف استعمال کیا۔ اس صورتحال سے امریکہ نے جہاں دنیا کے دوسرے مسلمان ممالک میں فرقہ واریت کے بیج بوئے، وہاں ساتھ ساتھ امریکی اسلحہ کی فروخت کے لئے عرب دنیا میں ایک پائیدار منڈی بھی پیدا کر لی کہ جہاں ایران کے خلاف منفی پراپیگنڈا کے نتیجہ میں عرب حکومتوں کو اربوں ڈالر کا سالانہ اسلحہ فروخت کیا جانے لگا۔ اس طرح عالمی شیطان امریکہ نے دنیا میں امن و امان کو تباہ کرنے کے لئے بھرپور فائدہ اٹھایا۔ امریکہ نے ہمیشہ سعودی عرب کو ایران کیخلاف استعمال کیا اور اس کے نتیجہ میں گذشتہ چند سالوں تک سعودی عرب کو اربوں ڈالر کا اسلحہ فروخت کرکے منافع کمایا۔

امریکی حکومت کی ہمیشہ یہ کوشش رہی ہے کہ تقسیم کرو اور حکومت کرو۔ یہی کچھ ایران اور سعودی عرب کے مابین انجام دینے کے لئے امریکہ نے سعودی عرب کے کاندھوں پر سواری کی۔ ایران اور سعودی عرب کے مابین تعلقات اس وقت غرب ایشیاء میں خبروں کی سرخیوں میں ہیں۔ ان تعلقات کے آغاز پر مسلم دنیا میں خوشی کی لہر ہے۔ عوام بھی خوشی کا اظہار کر رہے ہیں۔ البتہ امریکہ، برطانیہ سمیت اسرائیل اور دیگر یورپی حواری اس پیشرفت سے خوش نہیں ہیں۔ ایران اور سعودی عرب کے مابین از سر نو شروع ہونے والے تعلقات کا سہرا چین کے صدر شی چن پنگ کے سر جاتا ہے، لیکن اس حقیقت سے بھی منہ نہیں موڑا جا سکتا کہ ان تعلقات کی بحالی کے لئے عراق بھی کوشش کر رہا تھا اور ماضی میں پاکستان بھی ان کوششوں میں شامل رہا ہے۔

امریکہ نے ہمیشہ ان کوششوں کو سبوتاژ کرنے کی کوشش کی ہے۔ عراق اور پاکستان کی غیر مستحکم سیاسی صورتحال کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ امریکہ نہیں چاہتا ہے کہ پاکستان اور عراق جیسے ممالک ایران اور سعودی عرب کے مابین تعلقات کا آغاز کروائیں۔ امریکی حکومت یہ بات اچھی طرح جانتی ہے کہ پاکستان اور ایران کے مابین 900 کلو میٹر زمینی سرحد ہے۔ اگر پاکستان کسی طرح سعودی عرب اور ایران کے مابین تعلقات بہتر کرنے میں کامیاب ہو جاتا ہے تو یقیناً مستقبل میں پاکستان اور ایران کے معاشی تعلقات مزید مستحکم ہو جائیں گے، جس کا فائدہ دونوں ممالک کو حاصل ہوگا۔ لہذا ہمیشہ پاکستان میں سازشوں کے ذریعہ امریکی حکومت نے سیاسی صورتحال کو غیر مستحکم کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ہے۔ حالیہ سیاسی بحران بھی امریکی حکومت کی سازشوں کا شاخسانہ ہے۔

عراق کی بات کریں تو عراق میں بھی غیر مستحکم سیاسی صورتحال کا موجب امریکہ ہی ہے۔ عراق و پاکستان میں دہشت گرد گروہوں کی حمایت کرنے والی حکومت بھی امریکی ہی ہے۔ حتی کہ ایران کے جنرل قاسم سلیمانی تین جنوری سنہ2020ء کو جب عراقی وزیراعظم عادل المہدی سے ملاقات کے لئے آئے اور کہا جاتا ہے کہ وہ اس موقع پر ایران اور سعودی عرب کے مابین تعلقات کے آغاز کے سلسلہ میں عراق میں اہم پیغام لائے تھے، لیکن امریکہ نے ڈرون حملے کی دہشت گردانہ کارروائی میں ایران کے جنرل قاسم سلیمانی کو قتل کیا، تاکہ اس عمل کو سبوتاژ کیا جائے۔

بہرحال ان تمام تر حالات کے باوجود سترہ جون سنہ2023ء کو سعودی عرب کے وزیر خارجہ فیصل بن فرحان تہران پہنچے ہیں۔ اس سے قبل ایران اور سعودی عرب کے وزرائے خارجہ کے مذاکراتی دور کیپ ٹاؤن اور دیگر مقامات پر ہوتے رہے ہیں۔ یمن کی جنگ بندی کا عمل بھی جاری ہے۔ شام کی عرب لیگ میں شمولیت بھی ایک اچھا سائن ہے۔ شام میں سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات سمیت دیگر عرب ممالک کے سفارت خانوں کا کھولا جانا بھی مثبت ہے۔ شام کے صدر بشار الاسد کا گذشتہ ماہ سعودی عرب کا دورہ بھی ایک بڑی تبدیلی کی پیشن گوئی کر رہا ہے۔ اس سے قبل شامی صدر بشار الاسد متحدہ عرب امارات کا دورہ بھی کرچکے ہیں۔

سعودی عرب کی حکومت جو مسلسل امریکہ اور مغربی اتحادیوں کے ساتھ یمن کا محاصرہ کئے ہوئے تھی۔ مسلسل یمن پر جنگ مسلط کر رکھی تھی، ایران اور سعودی عرب کے تعلقات کے آغاز کے دوران ہی سعودی حکومت کا وفد یمن میں حوثی رہنماؤں سے مذاکرات کر چکا ہے۔ حال ہی میں یمن سے حاجیوں کی پرواز حج کے لئے سعودی عرب روانہ ہو رہی ہے۔ جو کہ جنگ کے سات سالہ دور میں پہلی مرتبہ ایسا ہو رہا ہے۔ چین نے فلسطین کاز سے متعلق فلسطینی عوام کے حقوق کی بات ہے۔ عرا ق میں بھی کافی حد تک تبدیلیاں رونما ہو رہی ہے۔

لبنان میں بھی سعودی حکومت کی مداخلت کی وجہ سے جو غیر مستحکم سیاسی صورتحال تھی۔ خلاصہ یہ ہے کہ اس تمام تر صورتحال میں مثبت پیش رفت سامنے آرہی ہے۔ یہ ایسی صورتحال ہے کہ جس نے پوری مسلم دنیا میں خوشی کی لہر پیدا کر دی ہے۔ یقینی طور پر اس صورتحال سے اگر کوئی ناخوش ہے تو وہ شکست خوردہ امریکی حکومت اور اس کے حواری برطانوی استعمار اور ناجائز اولاد اسرائیل ہیں کہ جو خطے کی ان تبدیلیوں کو برداشت کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتے۔