غزہ جنگ اور امریکی حمایت

اہم نکتہ یہ ہے کہ موجودہ امریکی صدر جو بائیڈن کے موقف اور ان کی انتظامیہ کی طرف سے اسرائیل کی غیر مشروط اور ہمہ گیر حمایت نیز غزہ کی موجودہ جنگ کے لیے فلسطینیوں بالخصوص حماس کو مورد الزام ٹھہرانے کی کوشش کے باوجود کئی امریکی سیاست دان صیہونی حکومت کی جارحانہ نوعیت اور فلسطینیوں کے خلاف صیہونیوں کے عشروں پر محیط مظالم سے بخوبی واقف ہیں۔

فاران: غزہ جنگ کو ایک ماہ سے زائد عرصہ ہونے کو ہے۔ آپریشن “طوفان الاقصیٰ” کے آغاز کے بعد، صیہونی حکومت نے غزہ پٹی میں حماس کے جنگجوؤں کے خلاف زمینی کارروائیاں تیز کر دی ہیں۔ غزہ کی پٹی کے مظلوم عوام کے قتل عام کے علاوہ رہائشی علاقوں کے خلاف فضائی حملوں میں بھی شدت پیدا ہوچکی ہے۔ اگرچہ فلسطینی شہداء کی تعداد 10,000 اور زخمیوں کی تعداد 24,000 سے تجاوز کرچکی ہے اور ان میں ایک قابل ذکر حصہ بچوں اور خواتین کا ہے، لیکن اسرائیل کا بنیادی اور غیر مشروط حامی ہونے کے ناطے امریکہ ایک عجیب و غریب دعوے میں نسل کشی کے ان واقعات کی تردید کر رہا ہے۔ اس سلسلے میں وائٹ ہاؤس کی قومی سلامتی کونسل کے ترجمان جان کربی نے فلسطینیوں کے خلاف صہیونی جرائم کی حمایت کرتے ہوئے دعویٰ کیا کہ غزہ میں جو کچھ ہو رہا ہے، وہ نسل کشی نہیں ہے۔

کربی نے کہا: آپ غزہ کی پیش رفت کو دیکھ کر یہ نہیں کہہ سکتے کہ یہ واقعات نسل کشی کی تعریف پر پورا اترتے ہیں۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ لفظ “نسل کشی” ان پیش رفتوں کو بیان کرنے کا ایک غیر ذمہ دارانہ طریقہ ہے۔ اس امریکی اہلکار سے پوچھا جائے کہ صیہونی حکومت کے اور کون سے جرائم ہیں، جنہیں نسل کشی کہا جائے۔ صیہونی غاصبوں نے اپنے دفاع کے بہانے غزہ پٹی کے عوام کا قتل عام کیا ہے اور اس سلسلے میں اسے بائیڈن انتظامیہ اور امریکی کانگریس کی مکمل حمایت حاصل ہے۔ غزہ پٹی میں نسل کشی نہ ہونے کے بارے میں کربی کے دعوے کو فلسطینیوں کے خلاف ایک مثال کے طور پر جرم قرار دینا چاہیئے۔ فلسطینیوں کے اجتماعی قتل کو کیا جنگی جرم اور نسل کشی نہیں سمجھا جانا چاہیئے۔؟

پینٹاگون کے ترجمان پیٹرک رائیڈر نے فلسطینی مزاحمتی گروپوں اور اسرائیل کے درمیان جھڑپوں کے آغاز کے ایک ماہ بعد بالآخر اعتراف کیا کہ تل ابیب کی جانب سے طوفان الاقصیٰ کارروائی کے جواب میں غزہ کی پٹی میں ہزاروں شہری ہلاک اور زخمی ہوئے۔ پیٹرک رائڈر نے پیر کو اعتراف کیا کہ “جہاں تک غزہ میں شہریوں کی ہلاکتوں کا تعلق ہے، ہم جانتے ہیں کہ وہ ہزاروں میں ہیں۔” صہیونی فضائیہ نے اب تک غزہ کی پٹی میں مختلف اہداف پر 35000 ٹن، جو ہیروشیما ایٹم بم کی طاقت سے دوگنا زیادہ ہے، بارود برسایا ہے۔ فلسطینیوں کے خلاف اسرائیل کے جرائم کی شدت نے بعض مغربی شہریوں کے احتجاج کو بھڑکا دیا ہے۔ یورپی حکام من جملہ بیلجیئم کی بین الاقوامی تعاون کی وزیر کیرولین جینز نے پیر کی شام کہا، “اسرائیل سے جنگی جرائم کے ارتکاب کی تحقیقات ہونی چاہیئے اور تمام شواہد اس کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔”

اہم نکتہ یہ ہے کہ موجودہ امریکی صدر جو بائیڈن کے موقف اور ان کی انتظامیہ کی طرف سے اسرائیل کی غیر مشروط اور ہمہ گیر حمایت نیز غزہ کی موجودہ جنگ کے لیے فلسطینیوں بالخصوص حماس کو مورد الزام ٹھہرانے کی کوشش کے باوجود کئی امریکی سیاست دان صیہونی حکومت کی جارحانہ نوعیت اور فلسطینیوں کے خلاف صیہونیوں کے عشروں پر محیط مظالم سے بخوبی واقف ہیں۔ اہل فلسطین کی سرزمینوں پر قتل عام اور غاصبانہ قبضہ جاری ہے اور اس پر تنقید بھی کی جاتی ہے۔ اس حوالے سے ایک کھلے خط میں امریکی محکمہ خارجہ کے ملازمین نے امریکی حکومت کی طرف سے صیہونی حکومت اور حماس کے درمیان جنگ کو منظم کرنے کے طریقے پر تنقید کی اور اعلان کیا کہ بائیڈن انتظامیہ کو کھلے عام اسرائیل پر تنقید کرنی چاہیئے۔

پولیٹیکو کی طرف سے شائع کردہ یہ خط فلسطینی بحران کے بارے میں بائیڈن کے نقطہ نظر میں امریکی سفارت کاروں کے اعتماد میں بڑھتی ہوئی کمی کی نشاندہی کرتا ہے۔ یہ ردعمل بہت سے درمیانے اور نچلے درجے کے امریکی سفارت کاروں کے رویئے کو بھی ظاہر کرتا ہے۔ اس بات کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ان اندرونی تنازعات کی شدت کی وجہ سے بائیڈن حکومت کو خطے کے حوالے سے پالیسیوں پر عمل درآمد میں مزید مشکلات پیش آسکتی ہیں۔ اس کھلے خط میں امریکی حکومت سے دو اہم مطالبات کیے گئے ہیں، پہلا مطالبہ جنگ بندی کے لیے واشنگٹن کی حمایت اور دوسرا اسرائیل کی عوامی اور نجی سطح پر مذمت۔ کھلے خط میں کہا گیا ہے کہ ہمیں بین الاقوامی اصولوں کی روشنی میں اسرائیل کی خلاف ورزیوں پر عوامی سطح پر تنقید کرنی چاہیئے، جیسا کہ جارحانہ کارروائیوں کو فوجی اہداف تک محدود کرنے میں ناکامی ہے۔

اس کے ساتھ ساتھ صیہونی حکومت کے حوالے سے بائیڈن حکومت کے غیر منصفانہ اور پرو اسرائیلی رویئے کی وجہ سے بعض آزاد امریکی سیاست دانوں کے ساتھ ساتھ ڈیموکریٹک پارٹی کے سرکردہ گروپ نے بھی صیہونی حکومت کے خلاف بائیڈن حکومت کے حمایتی انداز پر تنقید کی ہے۔ امریکی ایوان نمائندگان کی ڈیموکریٹک رکن رشیدہ طلیب نے ہفتے کے روز کہا: “بائیڈن نے غزہ جنگ میں فلسطینیوں کے خلاف “نسل کشی” کی حمایت کی ہے اور امریکی عوام 2024ء کے انتخابات میں اس مسئلے کو نہیں بھولیں گے۔ اس کے علاوہ، ایک آزاد امیدوار اور امریکی ریاست ورمونٹ سے تعلق رکھنے والے سینیٹر برنی سینڈرز نے غزہ میں حالیہ جارحیت کو ’’معصوم لوگوں کا اندھا قتل‘‘ قرار دیکر غاصب صیہونی حکومت کی مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ صیہونی حکومت کے حملے بند ہونے چاہئیں۔ ان تنقیدی مواقف کے باوجود بائیڈن حکومت اور امریکی کانگریس صیہونی حکومت کی حمایت جاری رکھے ہوئے ہے اور اس سلسلے میں بائیڈن حکومت اسرائیل کو 320 ملین ڈالر مالیت کے چھوٹے لیکن انتہائی موثر بم بھیجنے کا منصوبہ بنا رہی ہے۔