غزہ میں انسانی حقوق کا قحط

غزہ میں بھوک اور غذائی قلت بدترین انداز اختیار کر چکی ہے اور اگر وہاں انسانی امداد فراہم نہیں کی جاتی تو عنقریب شمالی غزہ میں شدید قحط پیدا ہو جانے کا خطرہ ہے۔ اگرچہ پورے غزہ میں شدید غذائی قلت پائی جاتی ہے لیکن دس لاکھ فلسطینی ایسے ہیں جن کی زندگی کو خطرہ لاحق ہو چکا ہے۔

فاران: گذشتہ نو ماہ سے غزہ کی پٹی پر اسرائیلی جارحیت اور بربریت جاری ہے۔ اس دوران غزہ میں مقیم فلسطینی اب تک کئی بار ایک علاقے سے دوسرے علاقے میں نقل مکانی کر چکے ہیں اور یوں جلاوطنی کی حالت میں جلاوطن ہوتے جا رہے ہیں۔ غزہ میں انسانی امداد فراہم کرنے کیلئے اقوام متحدہ کے کوآرڈینیٹر سیگرڈ کاگ نے سلامتی کونسل میں تقریر کرتے ہوئے کہا ہے: “آج غزہ کی پٹی میں 19 لاکھ انسان جلاوطنی کی زندگی بسر کرنے پر مجبور ہیں اور ہم ان رپورٹس پر شدید پریشان جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ اسرائیل نے غزہ کے جنوبی شہر خان یونس کو بھی خالی کرنے کا حکم دے دیا ہے۔” تشویش کا یہ اظہار ایسے حالات میں کیا جا رہا ہے جب غزہ گذشتہ کئی سالوں سے غاصب صیہونی رژیم کی جانب سے زمینی، سمندری اور ہوائی محاصرے کا شکار ہے اور اقوام متحدہ سمیت انسانی حقوق کے عالمی ادارے اور تنظیمیں اس ظالمانہ محاصرے کو ختم کروانے کیلئے کوئی اقدام انجام نہیں دے رہے۔ دوسری طرف عالمی عدالت انصاف بھی حکم جاری کرنے میں تاخیر کر کے صیہونی رژیم کو قانونی تحفظ فراہم کرنے میں مصروف ہے۔

دل دہلا دینے والے حقائق
غزہ میں دس لاکھ سے زیادہ فلسطینی ایک بار پھر جلاوطن ہو چکے ہیں اور بدستور محفوظ پناہکاہ کی تلاش میں ہیں۔ آج غزہ کی پٹی میں بسنے والے عام فلسطینی شہری حقیقی معنی میں دکھ اور درد میں مبتلا ہیں اور ان کی زندگی مکمل طور پر تباہ ہو چکی ہے۔ جنگ کا شکار غزہ تک کافی مقدار میں انسانی امداد پہنچائی نہیں جا رہی اور انسانی المیے سے بچنے کیلئے خاص طور پر غزہ کے جنوب میں ایک اور کراسنگ کھولنے کی ضرورت ہے۔ غزہ اور مصر کے درمیان موجود رفح کراسنگ بھی دوبارہ کھولے جانے کی اشد ضرورت ہے جبکہ عالمی برادری کو بھی چاہئے کہ وہ غزہ تک امداد رسانی کے کاموں کے اخراجات ادا کرے۔ مشرق وسطی میں امن بحالی کیلئے اقوام متحدہ کے خصوصی ایلچی ٹور وینسلینڈ نے اس بات پر زور دیا ہے کہ غزہ میں جنگ کا تسلسل خطے میں عدم استحکام بڑھ جانے کا باعث بنے گا۔

شدید قحط
غزہ میں بھوک اور غذائی قلت بدترین انداز اختیار کر چکی ہے اور اگر وہاں انسانی امداد فراہم نہیں کی جاتی تو عنقریب شمالی غزہ میں شدید قحط پیدا ہو جانے کا خطرہ ہے۔ اگرچہ پورے غزہ میں شدید غذائی قلت پائی جاتی ہے لیکن دس لاکھ فلسطینی ایسے ہیں جن کی زندگی کو خطرہ لاحق ہو چکا ہے۔ ورلڈ فوڈ پروگرام نے بھی اپنے بیانئے میں اسرائیل کی جانب سے غزہ پر شدید فوجی جارحیت کی جانب اشارہ کرتے ہوئے اعلان کیا ہے کہ ایسے حالات میں اس علاقے میں انسانی امداد کی فراہمی تقریباً ناممکن ہے۔ دوسری طرف اقوام متحدہ کے ماہرین نے بھی غزہ میں کھانے پینے کی اشیاء کی شدید قلت کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا ہے: “غزہ میں مقیم فلسطینی شدید غذائی قلت سے روبرو ہیں اور انہیں ایک حقیقی خطرہ درپیش ہے۔ ایسے حالات میں غزہ میں انسانی امداد کی فراہمی بھی انجام نہیں پا رہی۔”

انسانی بحران کی نئی لہر
غزہ کے حالات پر نظر رکھے ہوئے آگاہ ذرائع کا کہنا ہے کہ شمالی غزہ میں قحط کی پہلی لہر کے بعد جس میں دسیوں عام شہری جاں بحق ہوئے ہیں اور خاص طور پر حاملہ خواتین اور بچوں کو شدید نقصان پہنچا ہے، اب اس خطے میں قحط کی دوسری لہر شروع ہونے والی ہے۔ غزہ میں انسانی امداد کی فراہمی کیلئے زمینی راستے کا کوئی متبادل نہیں پایا جاتا۔ اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے یونیسف نے بھی غزہ میں بچوں کی دردناک صورتحال کے بارے میں بیانیہ جاری کیا ہے جس میں کہا گیا ہے: “اس وقت غزہ کے 3000 بچے شدید بھوک کا شکار ہیں اور مسلسل اسرائیلی جارحیت کے نتیجے میں میڈیکل سہولیات نہ ہونے کے باعث ان بچوں کی زندگی کو خطرہ لاحق ہے۔ جنوبی غزہ میں بھی صورتحال بہت نازک ہے اور وہاں بھی انسانی امداد کی فراہمی شدید حد تک کم ہو چکی ہے۔”

یہی مسئلہ اس بات کا باعث بنا ہے کہ بچوں کی زیادہ تعداد بھوک کا شکار ہو کر اس کے نتیجے میں موت کے خطرے سے روبرو ہو جائے۔ اسرائیل کے وحشیانہ حملے اور عام شہریوں کی جلاوطنی فلسطینی گھرانوں کو میڈیکل کی سہولیات فراہم کرنے میں بہت بڑی رکاوٹ بنے ہوئے ہیں۔ ایسے حالات میں اقوام متحدہ کے ادارے یونیسف نے حال ہی میں ایک رپورٹ شائع کی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ غزہ میں ہر 10 میں سے 9 بچے شدید بھوک کا شکار ہیں۔ مزید برآں، غاصب صیہونی رژیم غزہ کے بچوں کے خلاف جو مجرمانہ اقدامات انجام دے رہی ہے انہیں بیان کرنے کیلئے الفاظ کے دامن میں گنجائش نہیں ہے۔ غزہ کے بچے ان مجرمانہ اقدامات کی وجہ سے شدید جسمانی اور نفسیاتی مسائل کا شکار ہو چکے ہیں۔ اقوام متحدہ کے اداروں نے خبردار کیا ہے کہ اگر غزہ میں قحط پر قابو پانے کیلئے عالمی برادری کی جانب سے وسیع اقدامات انجام نہ پائے تو عنقریب غزہ میں بہت بڑا انسانی المیہ جنم لے سکتا ہے۔

اسرائیل پر سلامتی کونسل کی تنقید
اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے رکن ممالک نے غاصب صیہونی رژیم کی جانب سے غزہ کے فلسطینیوں کے خلاف بھوک کو ایک جنگی ہتھیار کے طور پر استعمال کرنے پر شدید تنقید کی ہے اور غزہ میں فوری جنگ بندی کا مطالبہ کیا ہے۔ اقوام متحدہ میں روس کے مستقل نمائندے اور سفیر ویسلے نبینزیا نے سلامتی کونسل کے اجلاس میں کہا: “واشنگٹن سمندر میں مصنوعی بندرگاہ بنا کر بہت ہی کم مقدار میں انسانی امداد کی فراہمی کی بجائے اسرائیل سے غزہ کے خلاف محاصرے کی شدت کم کر کے وہاں انسانی امداد کی فراہمی ممکن بنانے کا مطالبہ کر سکتا تھا۔ سلامتی کونسل کے اراکین کو چاہئے کہ وہ اسرائیل اور اس کے اتحادی امریکہ پر دباو ڈالیں کہ وہ غزہ میں کسی شرط کے بغیر فوری اور مستقل جنگ بندی کروائیں۔” اسی طرح اقوام متحدہ میں چین کے نمائندے فو کونگ نے بھی کہا: “غزہ میں انسانی المیہ انسان ساختہ ہے۔ بھوک کو ہتھیار نہیں بنانا چاہئے۔ غزہ میں جان بوجھ کر انسانی بحران بڑھانا ناقابل قبول ہے۔”