غم سید الشہداء لازوال متاع حیات

عزاداری شہادت امام حسین علیہ السلام کے سلسلہ سے غور و فکر کا ایک موقع ہے ، ایک عظیم انقلاب برپا کرنے والے مظلوم کے ساتھ جذبات کے بندھن کو مضبوط کرنا اور ستمگرو ظالم کےخلاف احتجاج کرناہے ۔

فاران ؛ رہبر انقلاب اسلامی کے بقول غم حسین علیہ السلام کی نعمت یقینا کوئی معمولی نعمت نہیں ہے ایک ایسا قیمتی و لازوال متاع حیات ہےجس کے بل پر زندگی میں حرکت و انقلابی آھنگ پیدا ہوتا ہے جس کے دم پر ایک ایک مردہ قوم میں نئی روح جاگتی ہے جس کی وجہ سے انسانی معاشرہ میں ارتقاء کے بغیر حیات کوئی معنی نہیں رکھتی ۔
یہ وہ غم ہے جو ظاہر و باطن میں انسان کے وجود میں ایک ایسا انقلاب پربا کر دیتا ہے کہ انسان بغیر قدروں کے ساتھ جینے کو موت سے عبارت جانتا ہے اور شاید یہی وجہ ہے کہ آج ہر مکتب خیال کے افراد اس کے ساتھ جڑے نظر آتے ہیں ۔
اس غم کی عمارت ان انسانی بنیادوں پر قائم ہے کہ جہاں، مذہبی، نسلی اور لسانی تنگ نظری کا کوئی تصور نہیں پایا جاتا یہ ہر ایک کے دل کی آوا ز ہے حسینیت نے اسلام کی وسیع النظری عام کرنے اور انسانی فطرت کو بیدار کرکے تمام انسانوں کو اسلام کا ہمدم و ہم درد بنانے میں بڑی مدد کی ہے اس انقلاب کے اصولی و منطقی طرز عمل نے اسے ایک مثالی حیثیت بخشی ہے اور اسی لئیے دنیا کی اہم انقلابی تحریکوں میں اس کی صدائے بازگشت سنائی دیتی ہے چنانچہ جس وقت ہندوستان غلامی کی زنجیروں میں جکڑا ہوا تھا مہاتما گاندھی نے کہا تھا : ” حسینی اصول پر عمل کرکے انسان نجات حاصل کرسکتا ہے ” اور پنڈت نہرو نے اقرار کیا تھا کہ ” امام حسین (ع) کی شہادت میں ایک عالمگیر پیغام ہے ۔” ” ہیروز ورشپ ” کے مصنف کارلائل نے مانا تھا کہ ” شہادت حسین (ع) کے واقعہ پر جس قدر غور و فکر کیاجائے گا اسی قدر اس کے اعلیٰ مطالب روشنی میں آتے جائیں گے ۔
عزاداری شہادت امام حسین علیہ السلام کے سلسلہ سے غور و فکر کا ایک موقع ہے ، ایک عظیم انقلاب برپا کرنے والے مظلوم کے ساتھ جذبات کے بندھن کو مضبوط کرنا اور ستمگرو ظالم کےخلاف احتجاج کرناہے ۔ اور استاد شہید مرتضی مطہری کے بقول ” شیہد پر گریہ اس کے ساتھ میدان کارزار ميں شرکت کے مترادف ہے” اس بناء پر عزاداری کے جلسوں اور جلوسوں ميں شرکت کرنے والوں میں جو معنوی تبدیلی رونما ہوتی ہے اس سے سماجی تبدیلیوں کے لئے حالات سازگار ہوتے ہیں اور در حقیقت امام حسین علیہ السلام کے اہداف و مقاصد کے تحفظ کے لئے حالات فراہم ہوتے ہیں ۔ شہیدوں کا غم اور خاص طور پر سید الشہدا حضرت امام حسین کا غم ، کربلا کے عظیم واقعے کو زندہ جاوید بنانے کا ذریعہ ہے اس غم سے عزاداروں اور حق کے پیشواؤں کے درمیان باطنی بندھن قائم ہوتاہے اور ساتھ ہی عوام میں ظلم و ستم سے مقابلے کی روح زندہ ہوتی ہے۔