فتح کی نوید دلاتا پیغام
فاران: حال ہی میں حماس کے سیاسی شعبے کے سربراہ یحیی السنوار نے غزہ سے حزب اللہ لبنان کے سیکرٹری جنرل سید حسن نصراللہ کو ان کے خط کا جواب بھیجا ہے جو درحقیقت فلسطین اور لبنان میں سرگرم اسلامی مزاحمتی گروہوں کے درمیان موجود گہرے اتحاد کی علامت ہے۔ یاد رہے حزب اللہ لبنان کے سیکرٹری جنرل نے شہید اسماعیل ہنیہ کی شہادت کے بعد حماس کے نئے سربراہ کے طور پر یحیی السنوار کو خط لکھا تھا جس میں شہید ہنیہ کی شہادت کی مناسبت سے تعزیت اور تبریک پیش کی گئی تھی۔ یحیی السنوار نے اپنے جواب میں سید حسن نصراللہ کے خط کا شکریہ ادا کرتے ہوئے لکھا: “میں آپ کی اظہار حمایت اور ہمدردی کا شکریہ ادا کرتا ہوں جو سچے اور اعلی جذبات پر مشتمل تھا۔ آپ کی جانب سے حمایت کا یہ اظہار اسلامی مزاحمتی محاذوں پر آپ کے بابرکت اقدامات کے ہمراہ ہیں۔”
حماس کے سربراہ یحیی السنوار کے پیغام میں مزید آیا ہے: “ابوالعبد، طوفان الاقصی میں ہمارے کمانڈر تھے جو ہماری قوم کی تاریخ میں سب سے زیادہ شرافت مندانہ معرکہ تھا۔ وہ شہید ہو چکے ہیں۔ ہمارے کمانڈر کی شہادت اس بات کی گواہ ہے کہ ہمارے کمانڈرز اور مجاہدین کا خون اپنے ہم وطن افراد کے خون سے زیادہ قیمتی نہیں ہے۔ یہ پاکیزہ خون اور شہداء کے مبارک قافلے قابض قوتوں کے خلاف ہماری طاقت اور استقامت میں اضافے کا باعث بنیں گے۔ ہم جس راہ پر قدم آگے بڑھائیں گے وہ جہاد اور مزاحمت کے گرد فلسطینی قوم کا اتحاد ہے۔ اسی طرح ہم وحدت کی راہ پر گامزن ہوں گے جس کی مرکزیت صیہونزم کے خلاف وحدت پر استوار ہے۔ ہم قابض قوتوں کو نکال باہر کرنے اور قدس شریف کی مرکزیت میں مکمل حاکمیت سے برخوردار خودمختار ملک تشکیل دینے تک اپنے ان اصولوں پر گامزن رہیں گے۔”
یحیی السنوار کی جانب سے سید حسن نصراللہ کو لکھے گئے خط کے مختلف پہلو واضح کرنے کیلئے اس نکتے پر توجہ دینا ضروری ہے کہ آج اسلامی مزاحمتی بلاک میں شامل تمام قوتیں غاصب صیہونی رژیم نامی واحد دشمن کے خلاف متحد ہو چکی ہیں۔ طوفان الاقصی آپریشن کے دوران انجام پانے والی کامیاب کاروائیوں اور اس معرکے کا مقبوضہ فلسطین کے دیگر حصوں تک پھیل جانے نے نئے علاقائی نظم کے بارے میں بہت سے تجزیوں اور مفروضات کو جنم دیا ہے۔ ان سب کا مشترکہ نکتہ اس بات پر مبنی ہے کہ غاصب صیہونی رژیم کو اسٹریٹجک لحاظ سے شدید شکست کا سامنا کرنا پڑا ہے اور خطے اور عالمی سطح پر نئی مساواتیں ابھر کر سامنے آ رہی ہیں۔ یقیناً ان نئے حالات میں غاصب صیہونیوں اور ان کے مغربی حامیوں کو مختلف قسم کے چیلنجز کا سامنا کرنا پڑے گا۔
طوفان الاقصی آپریشن ایک ہائبرڈ فتح کی علامت سمجھا جاتا ہے جس کا نتیجہ غاصب صیہونی رژیم پر اسلامی مزاحمتی بلاک کی اسٹریٹجک برتری کی صورت میں ظاہر ہو گا۔ اسلامی مزاحمتی بلاک میں شامل مختلف قوتیں ایک خونخوار اور وحشی دشمن کے مقابلے میں متحدہ طور پر سرگرم عمل ہو چکی ہیں۔ غاصب صیہونی رژیم کے فوجی اور سیاسی سربراہان اس نکتے پر متفقہ رائے رکھتے ہیں کہ مقبوضہ فلسطین کے تمام حصے اسلامی مزاحمت کے میزائلوں کی زد میں ہیں۔ دوسرے الفاظ میں صیہونی حکمران سمجھ چکے ہیں کہ اب ان کے پاس کوئی “محفوظ مقام” باقی نہیں رہا۔ دوسرا اہم مسئلہ انتفاضہ ہے۔ تقریباً گذشتہ ایک عشرے سے صیہونی حکمرانوں کی پوری توجہ غزہ پر مرکوز رہی ہے لیکن اس وت پورا خطہ بلکہ پوری دنیا اسلامی مزاحمت کا نیا مورچہ بن چکی ہے۔ غزہ جنگ تاریخ ساز اور تحریک ساز ہے جس نے صیہونیوں کی موجودیت خطرے میں ڈال دی ہے۔
سیکرٹری جنرل حزب اللہ لبنان سید حسن نصراللہ کے نام حماس کے سربراہ یحیی السنوار کے جوابی خط کا ایک اہم نتیجہ دشمن کی نرم جنگ ناکام بنانا ہے۔ امریکہ، یورپی یونین اور غاصب صیہونی رژیم نے دنیا بھر میں فلسطینی مجاہدین کو دہشت گرد ظاہر کرنے کیلئے جو بھرپور پراپیگنڈہ شروع کر رکھا تھا وہ پوری طرح ناکام ہوا ہے اور آج مغربی ممالک سمیت دنیا بھر میں اہل غزہ کے حق میں عوامی مظاہروں کا سلسلہ جاری ہے۔ لندن جیسے شہر میں برطانوی شہری اس ملک کی تاریخ کا سب سے بڑا مظاہرہ کر کے فلسطینیوں سے یکجہتی کا اظہار کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ امریکہ، فرانس اور دیگر مغربی ممالک میں شدید حکومتی دباو اور پولیس کی جانب سے طاقت کے بے جا استعمال کے باوجود آئے دن فلسطینیوں کے حق میں عوامی مظاہرے برپا ہو رہے ہیں۔ یہ مغرب کی بہت بڑی شکست ہے جو صرف غزہ جنگ تک محدود نہیں بلکہ درحقیقت نیو ورلڈ آرڈر تشکیل پا رہا ہے۔
یقیناً اس نئے عالمی نظام میں صیہونی رژیم، اس کے مغربی حامیوں اور اس سے سازباز کرنے والے عرب حکمرانوں کی حقیقی ہار اور شکست ہو گی۔ یہ حقیقت ہر زمانے سے زیادہ واضح ہو چکی ہے۔ لہذا امریکہ اور غزہ میں صیہونی رژیم کی نسل کشی کے دیگر حامیوں کی نرم جنگ نہ صرف مطلوبہ اہداف حاصل کرنے میں ناکام رہی ہے بلکہ ان کے خلاف عالمی رائے عامہ پروان چڑھ رہی ہے۔ یحیی السنوار کا حالیہ خط صرف حزب اللہ لبنان کے سیکرٹری جنرل کے نام نہیں تھا بلکہ اس میں عالمی رائے عامہ کو مخاطب قرار دیا گیا تھا اور ان تمام بیدار ضمیر انسانوں کا شکریہ ادا کیا گیا تھا جو غزہ اور خان یونس میں صیہونی رژیم کے مجرمانہ اقدامات پر خاموش نہیں بیٹھے اور اس کے خلاف آواز اٹھانے میں مصروف ہیں۔ نرم جنگ میں عوام کی سوچ اور عقائد کو نشانہ بنایا جاتا ہے اور اسلامی مزاحمت نے اسی محاذ پر دشمن پر جوابی وار کیا ہے۔
تبصرہ کریں