فلسطینی اور یہودی اپنے اپنے گھروں کو واپس جائیں
فلسطین کے مسئلے کا ایک ہی حل ہے اور وہ یہ کہ فلسطینی اور یہودی اپنے اپنے گھروں کو واپس جائیں۔ یعنی ۱۹۴۸ء سے پہلے کی صورت حال کو بحال کیا جائے۔ ۱۹۴۸ء میں جن فلسطینیوں کو ظلم، تشدد، دھونس، دھاندلی اور سازش کے ذریعے سے اپنے گھروں سے محروم کر دیا گیا تھا اور جو اس وقت تک دربدری کی زندگی گزار رہے ہیں، وہ اپنے گھروں کو واپس آجائیں۔ فلسطینیوں کی آج کی تحریک جس کا عنوان ”اپنے گھر کو واپسی ہے“ ظاہر کرتی ہے کہ امریکہ اور اس کے حواریوں کی اسرائیل کے لئے تمام تر سرپرستی اور دروغ بافی کے ذریعے دنیا کے اذہان کو منحرف کرنے کی کوششیں ناکام ہوچکی ہیں۔ فلسطینیوں کے دلوں سے فلسطین نہیں نکالا جاسکا۔ وہ آج بھی اپنے گھروں کو واپسی چاہتے ہیں۔ دوسری طرف پوری دنیا سے لا کر آباد کئے گئے یہودی آج بھی اسرائیل میں مطمئن نہیں ہیں۔ قہر و تشدد پر مشتمل اسرائیل کی طاغوتی طاقت ان کے دلوں کو اطمینان نہیں دے سکی۔ وہ آج بھی خوفزدہ ہیں۔ کبھی جو یہودی آرزو کرتے تھے کہ ان کی نئی مذہبی ریاست میں ان کا مستقبل محفوظ ہو، آج اپنی اس آرزو کو سراب سمجھنے لگے ہیں۔
۲۰۱۳ء کی ابتداء میں فلسطینی اعداد و شمار کے مرکز نے پوری دنیا میں فلسطینیوں کی تعداد ۱ کروڑ ۱۶ لاکھ افراد بیان کی۔ جس میں سے تقریباً آدھے فلسطینی فلسطین سے باہر عرب اور غیر عرب ممالک میں زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ ۲۰۱۶ء کے اوائل میں فلسطین کے ایک ادارے نے جو اعداد و شمار جاری کئے، ان کے مطابق مغربی کنارے میں جہاں پر محمود عباس کی حکومت ہے اور غزہ میں ملا کر فلسطینیوں کی کل آبادی تقریباً ۴۸ لاکھ ۱۰ ہزار افراد پر مشتمل ہے۔ ان میں سے ۲۹ لاکھ ۳۰ ہزار افراد مغربی کنارے میں آباد ہیں، جبکہ ۱۸ لاکھ ۸۰ ہزار افراد غزہ میں محصور ہیں۔ اس کے علاوہ اسرائیل کے زیر قبضہ علاقوں میں بھی ۱٫۸ ملین سے زیادہ فلسطینی آباد ہیں۔ غزہ بنیادی طور پر ایک مہاجر کیمپ ہے۔ ۱۹۴۸ء میں فلسطینیوں کے قصبوں اور دیہات پر قبضہ کرکے اسرائیل نے انہیں دربدر ہونے پر مجبور کر دیا۔ ان میں سے ایک بڑی تعداد تو اردگرد کے ممالک میں پناہ گزین ہوئی، لیکن آبادی کا ایک حصہ غزہ میں اکٹھا ہوگیا اور اس علاقے میں ایک مہاجر کیمپ بنا لیا گیا۔ اس مہاجر کیمپ کے چاروں طرف اسرائیل نے ایک دیوار کھڑی کر دی ہے اور چاروں طرف اسرائیلی فوج موجود ہے، جو غزہ میں مسلسل قتل و غارت کا بازار گرم کئے ہوئے ہے۔ یہی وہ مہاجر ہیں جو اب اپنے گھروں کو واپس جانے کے لئے پھر سے اٹھ کھڑے ہوئے ہیں۔
دوسری طرف اسرائیل کی آبادی کا بھی جائزہ لینے کی ضرورت ہے، جہاں ۱۹۴۸ء سے پہلے صرف چند ہزار یہودی آباد تھے۔ یہودیوں کی ۹۵ فیصد سے زیادہ موجودہ آبادی ۱۹۴۸ء کے بعد دیگر ممالک سے لا کر بسائی گئی ہے۔ اس وقت اسرائیلی قبضے میں فلسطینی خطوں میں یہودیوں کی کل تعداد ۶۵ لاکھ ۸۹ ہزار ہے، جو کل آبادی کا ۷۳٫۵ فیصد بنتی ہے، جبکہ فلسطینی مسلمانوں کی آبادی ان علاقوں میں ۱۸ لاکھ ۴۹ ہزار ہے جو صہیونی ریاست کی آبادی کا ۲۰٫۹ فیصد ہیں۔ مسلمانوں کو عام طور عرب کہا جاتا ہے۔ یہودیوں اور مسلمانوں کے علاوہ یہاں پر مسیحی بھی آباد ہیں اور ایک معمولی سی تعداد دیگر اقوام کی بھی ہے، جو کل آبادی کا ۴٫۶ فیصد ہیں۔ تازہ ترین اعداد و شمار کے مطابق یہ آبادی ۴ لاکھ ۴ ہزار افراد پر مشتمل ہے۔ یہودی جو کہ امریکہ، یورپ، آسٹریلیا، افریقا اور ایشیا کے مختلف ممالک سے لاکر آباد کئے گئے ہیں، ان کی بیشتر آبادی دوہری شہریت کی حامل ہے۔ خاص طور پر ترقی یافتہ ممالک سے آنے والے یہودیوں نے اپنی پہلی شہریت کو ترک نہیں کیا۔ خود فلسطینی بھی جو اس وقت مہاجر کی حیثیت سے زندگی گزار رہے ہیں، ان دنوں مظاہرے کرتے ہوئے مقبوضہ فلسطین میں موجود اپنے گھروں کی چابیاں لہرا کر دکھاتے ہیں کہ ہم ان گھروں کو چھوڑ کر آئے ہیں، جن کی چابیاں ہمارے پاس ہیں۔ یقیناً ان کے بہت سارے گھر مسمار کر دیئے گئے ہوں گے اور بہت سارے علاقوں میں نئی یہودی بستیاں بسا دی گئی ہیں، لیکن فلسطینیوں کی تیسری نسل کے دلوں میں بھی اپنے باپ دادا کے گھروں کی یادیں باقی ہیں۔
۱۹۴۸ء کے بعد کئی مرتبہ ایسے دور آئے کہ جب مقبوضہ فلسطین جسے آج اسرائیل کہا جاتا ہے، کے یہودیوں نے بھی واپسی کا سفر شروع کیا۔ واپسی کے اس سلسلے کو عبرانی زبان میں ”ہبوط“ کہا جاتا ہے۔ ایک اور اصطلاح کے مطابق اسے ”مہاجرت معکوس“ بھی کہا جاتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ ایک مہاجرت مختلف ممالک سے اسرائیل کی طرف تھی، دوسری معکوس مہاجرت ہے جو اسرائیل سے اپنے اصلی ممالک کی طرف ہے یعنی الٹی مہاجرت۔ ہبوط ہم نیچے جانے کو کہتے ہیں یا گرنے کو کہتے ہیں، عبرانی میں اس کا مطلب واپسی ہے۔ ۱۹۹۳ء کے آخر تک ۸ لاکھ ۴۷۱ یہودی اپنے اپنے ملکوں کو واپس جا چکے تھے، جبکہ ۱۹۹۳ء کے آخر تک ۴۷ لاکھ ۷۳ ہزار ۶۳۲ یہودیوں کو بیرون ممالک سے لاکر اسرائیل میں آباد کیا گیا تھا۔ اس طرح سے اس دوران میں مہاجرت معکوس ۲۰ فیصد کہی جاسکتی ہے۔ یہ سلسلہ بعد میں بھی مختلف اوقات میں جاری رہا۔ ۲۰۰۶ء میں جب اسرائیل نے لبنان پر جنگ مسلط کی اور جو ۳۳ روز تک جاری رہی، اس میں اسرائیل کو اپنے تمام منصوبوں میں ناکامی ہوئی اور اس شکست کو اسرائیلی وزیراعظم اور چیف آف آرمی سٹاف نے بھی تسلیم کیا۔ اس دوران میں حزب اللہ کی طرف سے اسرائیل کے علاقوں میں چار سے پانچ ہزار کے درمیان راکٹ برسائے گئے۔ یہ اسرائیل کی تاریخ میں ایک انہونی تھی۔ اس دوران میں یہودیوں پر بہت خوف طاری ہوگیا اور ان کے درمیان ”واپس چلو“ کا نعرہ گونجنے لگا۔ اس دوران میں واپسی کی رفتار اسرائیل کی پوری تاریخ سے زیادہ رہی۔
اسرائیل جو کسی زمانے میں نیل تا فرات صہیونی ریاست کا خواب دیکھتا تھا، آج موجودہ خطے میں خود محصور ہوگیا ہے۔ اس نے خود اپنے گرد دیواریں کھڑی کر لی ہیں۔ یہ دیواریں بظاہر تو اسرائیل کی حفاظت کے لئے ہیں، لیکن دوسری طرف اس امر کا اعلان ہیں کہ بس بھئی بس، چیف صاحب! اب آگے نہیں بڑھا جاسکتا۔ یہ دیواریں بتاتی ہیں کہ اب اسرائیل مزید وسعت حاصل نہیں کرسکتا۔ یہی وجہ ہے کہ اسرائیل کی تازہ حکمت عملی موجود خطوں ہی میں باہر سے لائی گئی آبادی کو بسا کر اسے مستحکم کرنا ہے۔ خوف کا یہ عالم ہے کہ اسرائیل کے بڑے بڑے ماہرین جو تجزیات پیش کر رہے ہیں، ان کے مطابق اگر اسرائیل نے آئندہ حزب اللہ کے خلاف جنگ چھیڑی تو گذشتہ جنگ کے ۳۳ دنوں میں جتنے میزائل حزب اللہ نے داغے تھے، اتنے حزب اللہ اب روزانہ کے حساب سے اسرائیل پر پھینکنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ حزب اللہ کے پاس لاکھوں کی تعداد میں ۲۰۰۶ء سے کہیں بہتر اور ترقی یافتہ میزائل موجود ہیں۔ اب حزب اللہ کو شام میں داعش اور دیگر دہشتگرد گروہوں سے زمینی جنگ کا تجربہ بھی حاصل ہوچکا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ انہوں نے اسرائیلی ایماء پر لبنان میں کارروائیاں شروع کرنے والے تکفیریوں کو پہلے ہی مرحلے میں شکست دے دی ہے۔
اگر ہم حماس اور اسلامی جہاد کے عسکری شعبوں ”عزالدین قسام“ اور ”سرایا القدس“ کی تازہ ترین کارروائیوں کو سامنے رکھیں تو ان کی جرات ہی کی داد نہیں دینا پڑتی بلکہ ان کے زیر زمین نیٹ ورک کی صلاحیتوں کو بھی خراج تحسین پیش کرنا پڑتا ہے۔ جہاں ایک طرف فلسطینی عوام غلیلوں سے صہیونیوں پر پتھر پھینک کر ان کی نیندیں حرام کئے ہوئے ہیں، وہاں حماس اور اسلامی جہاد کے عسکری شعبوں کی طرف سے صہیونی آبادیوں پر راکٹ فائر کرنے کے تازہ ترین اقدام نے اسرائیل کو خوفزدہ کر دیا ہے۔ یہی وہ خوف ہے جس کے پیش نظر امریکہ نے فلسطینیوں کی مذمت کرنے کے لئے سلامتی کونسل کا اجلاس بلانے کا فیصلہ کیا ہے۔ امریکہ اور اسرائیل جس انداز سے پوری دنیا کو نظرانداز کرتے ہوئے تیز رفتاری سے اسرائیل کے لئے اقدامات کر رہے ہیں، ان سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ اپنے ترکش کے اب آخری تیر آزما رہے ہیں۔ مشرقی بیت المقدس میں امریکہ کے سفارتخانے کا قیام انہی اقدامات کا حصہ ہے۔
اسرائیل جس قدر خوف کا مظاہرہ کرے گا اور فلسطینیوں کے خلاف ظالمانہ اقدامات میں تیز رفتاری دکھائے گا، یہودی آبادی پر اتنا ہی خوف کے سائے منڈلانے لگیں گے، جس کے نتیجے میں ان کے پاس اپنے اپنے ملکوں میں واپسی کے علاوہ کوئی چارہ نہیں ہوگا۔ عراق کی تقسیم کا خواب ٹوٹ گیا۔ شام میں اپنے من پسند دہشتگردوں کی حکومت کے قیام کی آرزو خاک میں مل گئی۔ لبنان میں حزب اللہ اور اس کے اتحادیوں کو فتح نصیب ہوگئی۔ فلسطینی نئے انتفاضہ کے ساتھ اٹھ کھڑے ہوئے ہیں۔ پوری دنیا میں امریکی اور اسرائیلی فیصلوں کی مذمت کی جا رہی ہے۔ لہٰذا ہماری رائے میں ٹھنڈے دل سے آج بھی سوچ لیا جائے اور فیصلہ کر لیا جائے کہ فلسطینی اور یہودی اپنے اپنے گھروں کو واپس جائیں اور اس ناسور کا خاتمہ ہو جائے، جسے آنے والی نسلیں اسرائیل کے نام سے یاد کریں گی۔
تبصرہ کریں