فلسطینی میدان میں، مزید تنہا نہیں ہیں

میرا قوی ایمان و یقین ہے کہ کامیابی اسلام کی ہے، اور آج میرا پختہ ایمان و یقین ہے کہ اٹل فتح اسلام کی ہے اور اس قوم کو جس چیز کا سامنا ہے وہ ایک امتحان و آزمائش اور آخری فتح کا پیش خیمہ ہے اور یہ اللہ کا حقیقی وعدہ ہے۔

فاران تجزیاتی ویب سائٹ: گزشتہ سے پیوستہ

سوال: تمام تر جائز اور برحق مسائل – بشمول فلسطین کاز اور عالمی مسائل – کے تئیں اسلامی انقلاب کی مکمل پابندی، کو دیکھتے ہوئے اگر ہم فلسطینی مقاومت (مزاحمت) بالخصوص حماس کی بات کرنا چاہیں، تو سوال یہ بنتا ہے کہ انقلاب اسلامی صہیونی ریاست کے خلاف مقاومت کی ہمہ جہت حمایتوں کے ساتھ کیونکر فلسطینی مقاومت اور حماس پر اثر انداز ہؤا؟
اسامہ حمدان: مقاومت کے تئیں ایران کی حمایت نے ملت فلسطین کی استقامت اور مزاحمت نیز مقاومت کی بنیادیں مستحکم کرنے اور اس کے وسائل اور صلاحیتوں میں اضافہ کرنے میں بنیادی کردار ادا کررہی ہے۔ چنانچہ ایران کی طرف سے مقاومت کی حمایت صہیونی ریاست سے تقابل پر گہرے اثرات مرتب کرتی ہے اور ایران آج غاصب ریاست کے ساتھ جنگ کے انتظام و انصرام میں اپنے قواعد دشمن پر مسلط کرنے کی غیرمعمولی صلاحیت رکھتا ہے۔ ایران کے ان ہی مسلط کردہ قواعد نے فلسطینیوں کو پتھروں کی جنگ کے مرحلے سے نکال کر میزائلوں کے جنگ کے مرحلے میں داخل کر دیا ہے۔
چنانچہ صہیونی دشمن کے خلاف فلسطینی مزاحمت کی بروقت کارروائی کی رو سے – جیسا کہ آپریشن سیف القدس کے ثابت ہؤا – فلسطینی اپنے دفاع کے مرحلے سے، ملک کی آزادی کے مرحلے میں داخل ہوئے؛ اور یہ سب مقاومت کے تئیں اسلامی جمہوریہ ایران کی حمایت کا پھل ہے۔
لیکن اس سے زیادہ اہم مسئلہ علاقائی مسائل ہیں۔ صہیونی دشمن اور امریکیوں کی کوشش ہے کہ خطے کے مسائل کو کچھ اس انداز سے رقم کریں کہ مسائل فلسطینی کاز کے منظر عام سے ہٹ کر نابود ہونے پر منتج ہوجائیں؛ لیکن آج خطے میں نئے قواعد نافذ العمل ہوئے ہیں جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ خطے کے کچھ اہم طاقتیں فلسطینی مقاومت کے دوش بدوش کھڑی ہیں، چنانچہ دشمن کی سازشوں کے باوجود، فلسطینی کاز کو منظر عام سے ہٹانا ممکن نہیں ہے اور فلسطینی قوم اور مقاومت آج میدان میں تنہا نہیں ہے۔
صہیونی دشمن سنہ 1948ع‍ سے فلسطینیوں سے یہی کہتا رہا کہ “تم میدان جنگ میں تنہا ہو” لیکن اب دشمن دیکھ رہا ہے کہ فلسطینی قوم میدان میں تنہا نہیں ہے اور اہم علاقائی طاقتیں فلسطینیوں کے کندھے سے کندھا لگا کر کھڑی ہیں اور وہ ہماری حمایت کرتی ہیں، اور یہ بجائے خود غاصب ریاست کے مسلط کردہ قواعد کے بالکل برعکس ایک مختلف قاعدہ ہے جو اللہ کی مدد اور قوت سے فلسطین کی آزادی کے بنیادی اصولوں میں سے ایک ہے۔

سوال: اس مکالمے کے آخر میں، ان تمام حالات کے باوجود جن کا اس ملک کو سامنا ہے، آپ آج کے ایران کے مستقبل کو کیسے دیکھتے ہیں؟
اسامہ حمدان: میرا قوی ایمان و یقین ہے کہ کامیابی اسلام کی ہے، اور آج میرا پختہ ایمان و یقین ہے کہ اٹل فتح اسلام کی ہے اور اس قوم کو جس چیز کا سامنا ہے وہ ایک امتحان و آزمائش اور آخری فتح کا پیش خیمہ ہے اور یہ اللہ کا حقیقی وعدہ ہے۔
جیسا کہ قرآن کریم میں ارشاد ہؤا ہے کہ اللہ کے صالح بندے زمین کے وارث ہونگے: “وَلَقَدْ كَتَبْنَا فِي الزَّبُورِ مِنْ بَعْدِ الذِّكْرِ أَنَّ الْأَرْضَ يَرِثُهَا عِبَادِيَ الصَّالِحُونَ؛ اور ہم نے زبور میں – توریت کے بعد – لکھ لیا کہ زمین کے ورثہ دار میرے صالح (نیک) بندے (ہی) ہوں گے”۔
اگر ہم اس قاعدے کو نافذ کریں اور اللہ کے اذن و توفیق سے حقیقی معنوں میں اللہ کے صالح بندے بنیں تو زمین کے ورثہ دار بنیں گے۔ میں اس حقیقت پر ایمان کامل رکھتا ہوں۔ سیاست کی دنیا میں اب ہم خطے کی تاریخ کے آخری (پچھلے) 40 سالہ عرصے کے بارے میں بات کر رہے ہیں جب ہمیں ہر طرح کی مکاریوں، دھوکہ بازیوں اور ہر طرح کی دشمنیوں کا سامنا کرنا پڑا۔ نتیجہ کیا رہا؟ نتیجہ یہ رہا کہ آج ایک منصوبہ ہمارے سامنے ہے جس کا تعلق بڑھتی ہوئی [فلسطینی] قومی بیداری سے ہے اور دوسرا منصوبہ – جو ہمارے سامنے ہے جو ہم سے چاہتا ہے کہ ہماری قوم اس راستے کو کھو دے۔ لیکن آخرکار اللہ کی مرضی اور توفیق سے، فتح اس کے صالح بندوں کے لئے [مخصوص] ہے۔