فلسطینی نوجوانوں کی تعلیم و تربیت کے لیے صہیونی مراکز کے قیام کا اہم مقصد
فاران؛ سن ۱۹۴۸ میں فلسطین کے بہت سارے علاقوں پر ناجائز قبضہ کر کے عالمی صہیونیت نے اسرائیل کے نام سے ایک یہودی ریاست کے قیام کا اعلان کرتے ہی صدیوں سے اس سرزمین پر مقیم فلسطینیوں پر جارحیت، قتل و غارت اور ظلم و تشدد کا سلسلہ شروع کر دیا تھا۔
یہودی ریاست کے ظلم و تشدد کا مقابلہ کرنے کی غرض سے فلسطینی جوانوں نے مزاحمتی گروہ تشکیل دے کر اینٹ کا جواب پتھر سے دیا۔ اور قدم بہ قدم صہیونی ریاست کے مظالم کا منہ توڑ جواب دیتے رہے۔ آخرکار جب اسرائیلی عہدیداروں نے فلسطینی نوجوانوں کے اندر جذبہ مزاحمت اور جوش شہادت کو محسوس کیا تو ان کے خلاف مسلحانہ کاروائیوں کے علاوہ دوسرے منصوبے تیار کرنا شروع کئے۔
درج ذیل رپورٹ ملت فلسطین کے اندر صہیونی نفوذ کا ایک نمونہ ہے اس رپورٹ سے یہ واضح ہوتا ہے کہ صہیونی ریاست مختلف حربوں سے فلسطینیوں کے اندر نفوذ حاصل کرنے کی منصوبہ بندی کرتی ہے۔
اسرائیلی ریاست نے فلسطینیوں کے خلاف جہاں ایک طرف ’’سخت جنگ‘‘(Hard War) کا سلسلہ جاری رکھا وہاں دوسری طرف ’’نرم جنگ‘‘ (Soft War) کے ذریعے فلسطینی جوانوں کے جذبہ مزاحمت کو کمزور کرنے کی کوشش کی۔
نرم جنگ کے تحت انجام پانے والا صہیونی منصوبہ در حقیقت وہی امریکی منصوبہ ہے جو امریکیوں نے ’’سرخ پوست‘‘ اینڈین کے خلاف اور یورپ میں فرانیسیوں نے اس ملک کے مہاجرین کے خلاف اپنایا تھا۔
اس اسٹراٹیجیک کا بنیادی مقصد یہ تھا کہ وہ مختلف حربوں کے ذریعے نوجوانوں کے اندر سے جذبہ مزاحمت کو ختم کریں اور انہیں اپنے دین، اپنی ثقافت، اپنی زبان اور اپنی فکر کا گرویدہ بنائیں۔ صہیونی ریاست نے اسی منصوبہ کو فلسطینی نوجوانوں پر آزمانے کے لیے فلسطین میں جگہ جگہ ’’امن کے لیے پرز مرکز‘‘(The peres center for peace) کے نام سے کئی مراکز قائم کئے ہیں۔
’’امن کے پرز مراکز‘‘
’’امن کے لیے پرز مراکز‘‘ کی ۱۹۹۶ میں اسرائیلی وزیر اعظم شیمون پرز کے ذریعے بنیاد رکھی گئی۔ جیسا کہ اس مرکز کے آئین نامے میں درج ہے اس مرکز کا مقصد علاقے مخصوصا مغربی کنارے، مقبوضہ قدس اور غزہ کی پٹی کے عوام کے درمیان امن کی ثقافت کو توسیع دینا اور انہیں ان مراکز کی تعمیر اور ترویج میں مشارکت کی تشویق دلانا ہے۔
فلسطینی معاشرے میں سرگرم ان مراکز کی سرگرمیاں ۳ سے ۲۵ سال کے نوجوانوں کے لیے مخصوص ہوتی ہیں اور انہیں تعلیمی، طبی، فن و ہنر، کھیل کود، کھیتی بھاڑی وغیرہ وغیرہ کی خدمات فراہم کی جاتی ہیں۔
ان مراکز کے آئین نامے کے مطابق، امن کے مراکز کا اصلی مقصد فلسطینی ۔ اسرائیلی باہمی تعاون کے لیے مناسبت پلیٹ فارم فراہم کرنا ہے۔
امن کے پرزمراکز کی سرگرمیاں
یہ مراکز ’’امن کے لیے تعلیم و تربیت‘‘ کے شعار کو اپنا سرلوحہ قرار دے کر نوجوانوں کو اپنی طرف کھینچنے کی کوشش کر رہے ہیں اور انہیں اسرائیلی مقاصد کے خلاف صدائے احتجاج بلند کرنے سے روکنے اور مزاحمت کی راہ سے دوری اختیار کرنے کی ترغیب دلاتے ہیں۔
خیال رہے کہ فلسطینی ایسے حال میں امن اور صلح کی بات کرتے ہیں کہ اس غاصب صیہونی ریاست کے جنگی طیارے شب و روز فلسطینی باشندوں پر بم گرا کر انہیں خاک و خوں میں غلطاں کرتے ہیں۔
یہودی ریاست ایک طرف سے امن کے مراکز قائم کر کے فلسطینی نوجوانوں کے اندر سے اپنے حقوق کی بازیابی اور اپنی زمینوں کو واپس لینے کے لیے جد و جہد کے جذبے کو ختم کر رہی ہے جبکہ دوسری طرف مقبوضہ فلسطین میں یہودی بچوں کے لیے اسلحہ کی ٹریننگ کے مراکز قائم کر کے انہیں فلسطینیوں کے خلاف لڑنے کے لیے بچپن سے ہی آمادہ کر رہی ہے۔
تبصرہ کریں