فلسطینی نوجوانوں کی کنکریاں ایران کی مدد سے میزائلوں میں بدل گئیں: اسامہ حمدان
فاران تجزیاتی ویب سائٹ: حرکۃ المقاومۃ الاسلامیہ “حماس” کے ایک راہنما اسامہ بن حمدان نے العالم کے ساتھ بات چیت کرتے ہوئے کہا: صہیونی دشمن سنہ 1948ع سے فلسطینیوں سے یہی کہتا رہا کہ “تم میدان جنگ میں تنہا ہو” لیکن اب دشمن دیکھ رہا ہے کہ فلسطینی قوم میدان میں تنہا نہیں ہے۔
اسلامی انقلاب کی کامیابی کے ساتھ ہی “نئے مستقبل” کے آغاز کے لئے الٹی گنتی شروع ہوئی۔ وہ مستقبل جس میں اسلامی ایران نے امام خمینی (قُدِّسَ سِرُّه) کی قیادت میں ظلم و استبداد اور تسلط پسند قوتوں کے طوق سے آزادی کی تحریک شروع کرکے مستضعفین کے دفاع اور حمایت کا آغاز کیا اور فلسطین اور صہیونی ریاست کے خلاف اسلامی مقاومت، ایران کے عوام اور قائدین کی اسلامی تحریک کی دھڑکتی نبض بن گیا۔ اسلامی انقلاب نے کس طرح فلسطینی مقاومت (مزاحمت) کی جان میں جان ڈالی اور اس انقلاب نے علاقے کی وسعتوں میں مقاومت کی ہمہ جہت حمایت میں کیا کردار ادا کیا؟ اور ماضی کے ایران کی نسبت آج کے ایران کی پوزیشن کیا ہے؟
انقلاب اسلامی کی کامیابی کی تینتالیسویں سالگرہ کے موقع پر حماس کی مقاومتی تنظیم حرکۃ المقاومۃ الاسلامیہ “حماس” کے ایک راہنما آسامہ حمدان کے ساتھ ہونے والے مکالمے میں ان سوالات کے جوابات تلاش کریں گے۔
مکالمے کے اہم ترین نکات:
1۔ اسلامی انقلاب کی کامیابی سے پہلے خطہ غاصب صہیونی ریاست کے ساتھ سازباز کی ڈھلان پر پہنچایا گیا تھا؛
2۔ اسلامی انقلاب کی کامیابی نے خطے میں جدوجہد کے جذبے میں اہم تبدیلی پیدا کی اور کامیابی کی امید میں زبردست اضافہ کیا؛
3۔ اگرچہ ہم [مصر کے سابق آمر انور سادات اور یہودی ریاست کے سابق وزیر اعظم میناحم بیگن کے درمیان] کیمپ ڈیوڈ معاہدے کی وجہ سے مصر کو کھو چکے تھے لیکن صہیونی ریاست بھی اسلامی انقلاب کی کامیابی کی وجہ سے ایک بڑے حلیف سے معروف ہوئی؛
4۔ اسلامی انقلاب کی کامیابی کے بموجب، امریکہ اور یہودی ریاست کا ایک بڑا اڈہ ظالمین اور مستکبرین کے مقابلے میں مقاومت اسلامیہ کے حمایتی مرکز اور اسلام کے بڑے مورچے میں تبدیل ہوگیا؛
5۔ ایران اپنے تمام تر سرمایوں اور بے پناہ وسائل کے باوجود ایک وابستہ ملک تھا جس نے اسلامی انقلاب کے بعد ایک ترقی یافتہ ملک اور ایک قائد و زعیم کی حیثیت اختیار کی ہے؛
6۔ امام خمینی (قُدِّسَ سِرُّه) کی ایران واپسی نے اسلامی انقلاب کی کامیابی میں بنیادی کردار ادا کیا اور اگر آپ وطن نہ آتے تو حالات مختلف ہو سکتے تھے؛
7۔ امام کی مطلوبہ جنگ ظلم و ستم کے خلاف ایک عمومی اور کُلّی جنگ تھی؛
8۔ اس کے باوجود کہ ایران کے خلاف شدید دشمنی پائی جاتی تھی اور آج بھی پائی جاتی ہے لیکن اس نے تمام شعبوں میں لاجواب ترقی کی ہے؛
9۔ امام خامنہ ای نے اسلامی جمہوریت کے ارتقاء اور نشوونما کے اسباب فراہم کئے؛
10۔ مقاومت کے تئیں ایران کی حمایت نے فلسطینی عوام کی مقاومت اور استقامت میں بنیادی کردار ادا کیا اور مقاومت کی طاقت کو مضبوط بنانے اور اس کی صلاحیتوں اور وسائل کو تقویت پہنچانے میں بنیادی کردار ادا کر رہا ہے؛
11۔ مقاومت کے تئیں ایران کی حمایت غاصب ریاست سے نمٹنے پر گہرے اثرات مرتب کررہی ہے اور غاصب ریاست کے ساتھ جنگ کے انتظام و انصرام میں اپنے قواعد دشمن پر مسلط کر سکتا ہے۔ ایران کے ان ہی مسلط کردہ قواعد نے فلسطینیوں کو پتھروں کی جنگ کے مرحلے سے نکال کر میزائلوں کے جنگ کے مرحلے میں داخل کر دیا ہے؛
12۔ صہیونی دشمن کے خلاف فلسطینی مزاحمت کی بروقت کارروائی کی رو سے – جیسا کہ آپریشن سیف القدس کے ثابت ہؤا – فلسطینی اپنے دفاع کے مرحلے سے، ملک کی آزادی کے مرحلے میں داخل ہوئے؛
13۔ یہ سب اسلامی جمہوریہ ایران کی بےلوث حمایت کا ثمرہ ہے؛
14۔ صہیونی اور امریکی علاقے پر حکم فرما قواعد کو اس طرح سے مرتب کرنا چاہتے ہیں کہ فلسطینی کاز مکمل طور پر نابود ہو اور مٹ جائے؛
15۔ آج علاقے پر نئے قواعد کی حکمرانی ہے جن سے معلوم ہوتا ہے کہ خطے کی بعض طاقتیں فلسطینی مقاومت کے ساتھ کھڑی ہیں، چنانچہ فلسطینی کاز کا خاتمہ ممکن ہی نہیں ہے؛
16۔ آج فلسطینی قوم اور فلسطینی مقاومت میدان میں تنہا نہیں ہیں۔
نوٹ: تفصیلی مکالمہ دوسرے حصے میں آئے گا
تبصرہ کریں