فلسطین اتھارٹی کا مجاہدین کی پشت میں خنجر
فاران تجزیاتی ویب سائٹ: مقبوضہ فلسطین خاص طور پر مغربی کنارے میں غاصب صیہونی مظالم کی شدت میں اضافے کے باوجود محمود عباس کی سربراہی میں فلسطین اتھارٹی نے اردن کے شہر العقبہ میں صیہونی حکام کے ساتھ سازباز شروع کر رکھی ہے۔ فلسطین میں سرگرام مجاہدین اور اسلامی مزاحمتی گروہوں نے ان مذاکرات کی شدید مذمت کی ہے اور اسے مظلوم فلسطینی قوم، اس کی قربانیوں اور شہداء کے خون سے غداری قرار دیا ہے۔ مقبوضہ فلسطین میں بنجمن نیتن یاہو کی سربراہی میں انتہاپسند صیہونی کابینہ برسراقتدار آنے کے بعد سے فلسطینیوں کے خلاف صیہونی مظالم میں بھی شدت آ گئی ہے۔ اس مشکل اور سخت وقت میں جب صیہونی رژیم غزہ اور مغربی کنارے میں مجرمانہ اقدامات انجام دینے میں مصروف ہے، فلسطین کو ہر وقت سے زیادہ باہمی اتحاد کی ضرورت ہے لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ ماضی کی طرح اس بار بھی فلسطین اتھارٹی کے سربراہان قوم سے جدا ہو گئے ہیں۔
فلسطین اتھارٹی کے سربراہ محمود عباس نے گذشتہ ماہ اعلان کیا تھا کہ وہ عارضی طور پر اسرائیل کے ساتھ سکیورٹی تعاون ختم کر رہے ہیں۔ لیکن اب وہ صیہونی حکمرانوں کے ساتھ اردن کے شہر العقبہ میں ایک میز پر بیٹھ کر سازباز کرنے میں مصروف ہیں۔ صیہونی اخبار یدیعوت آحارنوٹ نے اعلان کیا ہے کہ کل اتوار 26 فروری 2023ء کے دن اردن، امریکہ اور مصر کی نظارت میں اردن کے شہر العقبہ میں اسرائیل اور فلسطین اتھارٹی کے درمیان مذاکرات انجام پائے ہیں۔ اس رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ ان مذاکرات کا بنیادی مقصد رمضان کے قریب آنے پر تناو کم کرنے کیلئے ضروری سکیورٹی اقدامات انجام دینے کیلئے لائحہ عمل وضع کرنا ہے۔ صیہونی ذرائع ابلاغ کا کہنا ہے کہ العقبہ مذاکرات درحقیقت امریکہ کے اشارے پر انجام پائے ہیں جن کا مقصد مغربی کنارے میں مسلح مزاحمت کو ختم کرنا ہے۔
یوں امریکہ کی کوشش ہے کہ وہ فلسطین اتھارٹی کو غاصب صیہونی رژیم کی جانب سے مغربی کنارے میں غیر قانونی طور پر یہودی بستیوں کی تعمیر روک دینے کے بدلے اقوام متحدہ اور سلامتی کونسل میں اس کے خلاف کسی قسم کی قانونی چارہ جوئی نہ کرنے پر راضی کر لے۔ اخبار رای الیوم نے العقبہ میں اس مذاکراتی نشست کے پس پردہ عوامل کے بارے میں لکھا: “یوں دکھائی دیتا ہے کہ اس نشست کے بعض ایسے خفیہ اہداف تھے جن کا اعلان نہیں کیا گیا۔ ان اہداف میں مغربی کنارے میں مسلح جہادی گروہوں کی سرگرمیاں روکنا اور جہادی سرگرمیوں کو مغربی کنارے کے دیگر شہروں تک پھیل جانے سے روکنا شامل ہے۔” اردن کے شہر عقبہ میں یہ مذاکرات فلسطینی قوم کے شدید احتجاج کے باوجود جاری ہے۔ کل ہزاروں فلسطینیوں نے سڑکوں پر آ کر فلسطین اتھارٹی اور صیہونی حکمرانوں کے درمیان ان مذاکرات کی مخالفت کا اعلان کیا ہے۔
یہ مذاکرات ایسے وقت انجام پا رہے ہیں جب گذشتہ ہفتے بدھ کے روز صیہونی فورسز نے مغربی کنارے کے شہر نابلس میں بربریت کا مظاہرہ کرتے ہوئے 11 فلسطینی جوانوں کو شہید کر دیا اور 100 سے زیادہ فلسطینیوں کو زخمی کر دیا ہے۔ عجیب بات یہ ہے کہ محمود عباس نے صیہونی رژیم کے اس مجرمانہ اقدام پر کوئی ردعمل ظاہر نہیں کیا۔ العقبہ میں مذاکراتی نشست ایسے وقت انجام پا رہی ہے جب غاصب صیہونی حکمران ماہ مبارک رمضان میں ممکنہ انتفاضہ اور مزاحمتی کاروائیوں میں شدت آ جانے سے شدید خوفزدہ اور پریشان ہیں۔ اس خوف کے باعث انہوں نے ابھی سے ہی مغربی کنارے میں ریڈ ہائی الرٹ کا اعلان کر دیا ہے۔ گذشتہ چند ماہ کے دوران فلسطینی جوانوں نے غاصب صیہونیوں کے خلاف متعدد جرات مندانہ فدائی حملے انجام دیے ہیں جن میں دسیوں صیہونی ہلاک ہو چکے ہیں۔
امریکہ، بنجمن نیتن یاہو کی سربراہی میں موجودہ انتہاپسند کابینہ کی متنازعہ پالیسیوں کی مخالفت کا اعلان کر چکا ہے۔ اسی طرح امریکی حکمران مقبوضہ فلسطین میں تناو میں اضافے کو اپنے مفادات کیلئے نقصان دہ سمجھتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ امریکہ، فلسطین اتھارٹی کے تعاون سے مغربی کنارے میں سکیورٹی صورتحال معمول پر لانے کیلئے کوشاں ہے۔ دوسری طرف فلسطین میں سرگرم اسلامی مزاحمتی گروہوں نے اردن کے شہر العقبہ میں جاری حالیہ مذاکرات کی شدید مذمت کرتے ہوئے انہیں فلسطینی قوم کی مصلحت کے خلاف قرار دیا ہے۔ المیادین چینل کی رپورٹ کے مطابق فلسطین کے اسلامی مزاحمتی گروہوں نے العقبہ کی مذاکراتی نشست میں فلسطین اتھارٹی کے بااثر افراد کی موجودگی کی مذمت کی ہے اور اسے فلسطینی قوم کی پشت میں خنجر اور شہداء کے خون سے غداری قرار دیا ہے۔
فلسطین کے اسلامی مزاحمتی گروہ بارہا فلسطین اتھارٹی کے سربراہ محمود عباس سے اس بات کا مطالبہ کر چکے ہیں کہ وہ تل ابیب کا ساتھ دینا ختم کر دے۔ لیکن محمود عباس نہ صرف اسلامی مزاحمت کا ساتھ نہیں دیتا بلکہ ہمیشہ ان کی پشت میں خنجر مارتا ہے۔ گذشتہ چند سالوں کے دوران محمود عباس کی سربراہی میں فلسطین اتھارٹی کے گماشتے، اسلامی مزاحمتی تنظیم حماس کے دسیوں مجاہدین کو گرفتار کر کے صیہونی فورسز کے سپرد کر چکے ہیں۔ ان کے اس اقدام کا مقصد اپنے صیہونی آقاوں کو یہ ثابت کرنا تھا وہ بہت اچھے اور وفادار نوکر ہیں لیکن صیہونی آقاوں نے ان کی اس نوکری کے بدلے فلسطین اتھارٹی کے خلاف پابندیاں عائد کر ڈالیں۔ فلسطین اتھارٹی ایسے وقت غاصب صیہونی رژیم سے سازباز کرنے میں مصروف ہے جب مغربی کنارے میں بسنے والے فلسطینی شہری محمود عباس کو اپنا نمائندہ نہیں سمجھتے۔ محمود عباس صیہونی حکمرانوں کی کاسہ لیسی کی وجہ سے فلسطینیوں کا اعتماد کھو بیٹھا ہے اور عوامی مینڈیٹ سے محروم ہو چکا ہے۔
تبصرہ کریں