فلسطین کے غاصب پیشواؤں کا تعارف/ ہربرٹ اسپنسر

یہی وہ شخص تھا جس نے برطانیہ پر دباؤ ڈالا کہ دنیا کے مختلف ملکوں میں پراگندہ تیس چالیس لاکھ یہودیوں کو فلسطین میں بود و باش دی جائے ۔

فلسطین پر استعمار کی نظر اچانک نہیں پڑی بلکہ قلب مملکت اسلامی ہونے کی وجہ سے سینکڑوں سال قبل سے استعمار اپنی پیہم صلیبی جنگوں کا بدلہ لینے کیلئے طرح طرح کی سازش اور ترکیبیں بنا رہا تھا ، کبھی منہ کی کھائی تو کبھی دو چار حربے کامیاب ہوئے ، بیسویں صدی کے آغاز سے چند یہودی ’’ وطن یہود ‘‘کی اپنی دیرینہ آرزو کو عملی جامہ پہنانے کیلئے سامنے آئے ، حالات نے بھی ساتھ دیا برطانیہ نے دست دوستی بڑھایا،’’ اسلام دشمنی‘‘ کی مشترک فکر کے ساتھ یہودی و عیسائی ہر طرح کے مکر و فریب سے آراستہ ہو کر اٹھ کھڑے ہوئے ۔ فلسطین کو غصب کرنے اور تحریک اسرائیل کو آگے بڑھانے میں جن افراد کا اہم کردار تھا ان میں سے ایک ہربرٹ اسپنسر تھا:
ہربرٹ ( Herbert)
یہ شخص پکا یہودی تھا ، برطانیہ نے مقبوضہ فلسطین پراپنی سپاہ کا افسر اعلیٰ ’’Commissioner‘‘بنا کر بھیجا تھا ۔
یہی وہ شخص ہے جس نے برطانیہ پردباؤ ڈالا تھا کہ اس کی (برطانیہ) نگرانی میں فلسطین کے اندر یہودی حکومت قائم کی جائے اور دنیا کے مختلف ملکوں میں پراگندہ تیس چالیس لاکھ یہودیوں کو فلسطین میں بود و باش دی جائے ۔
اسی نے کہا تھا کہ یہودی مملکت کے وجود میں آ جانے کے بعد مصر و نہر سوئز کے قریب برطانیہ کے مفاد کی حفاظت ہو سکے گی ۔
اسی نے اُس خفیہ مسودے کو آشکار کیا تھا جسے وزیر خارجۂ برطانیہ بالفور (Balfour)نے تہیہ کیا تھا جس میں فلسطین میں یہودیوں کے بسائے جانے کا منصوبہ طے پایا تھا۔