حماس رہنما کا العالم کے ساتھ مکالمہ؛ دوسرا حصہ

فلسطین کے مسئلے پر عالمی افکار اور رائے عامہ میں تبدیلی آ رہی ہے

آج عالمی رائے عامہ مسئلہ فلسطین کے حق میں بدل رہی ہے اور صہیونی بیانئے کا جھوٹ اور فلسطینی بیانئے کی حقیقت آشکار ہوکر سامنے آئی ہے۔

فاران تجزیاتی ویب سائٹ: حماس کے رہنما اسماعیل رضوان کے ساتھ خصوصی گفتگو کا دوسرا حصہ؛
سوال: کیا آپ سمجھتے ہیں کہ برطانوی فیصلہ علاقے میں صہیو-امریکی پالیسیوں کی اعلانیہ حمایت کی راہ پر گامزن ہوچکی ہے اور دوسری یورپی حکومتوں کو بھی فلسطین کے خلاف اپنے زیر اثر لانے کا ارادہ رکھتی ہے؟
جواب: موجودہ برطانوی وزیر اعظم بورس جانسن (Boris Johnson) نسل پرست اور صہیونیت کا حامی ہے۔ جانسن کابینہ کا وزیر داخلہ سابقہ کابینہ میں بھی وزیر تھا لیکن چونکہ صہیونی ریاست کی نسل پرستانہ حمایت کرتا تھا لہذا اسے کابینہ سے برخاست کیا گیا تھا؛ لیکن اس خاص مرحلے میں اس نسل پرست شخص کا جانسن کابینہ میں شامل کیا گیا ہے تاکہ فلسطینیوں کے حقوق کی قیمت پر غاصب ریاست کی صریح حمایت کا اعلان کرے۔ اور پھر ہم نے دیکھا کہ اس نے امریکہ کے اندر سے اس حمایت کا اعلان کیا جبکہ امریکہ صہیونی ریاست کا ہمہ جہت حامی ہے۔ جس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ یہ اعلان درحقیقت اس امر پر تاکید تھی کہ تمام مغربی اور یورپی حکومتیں بھی اس خاص وقت میں – جبکہ سیف القدس نامی معرکے سے تھوڑا سا عرصہ گذرا ہے – اسی طرح کا فیصلہ کریں۔
ہم دیکھتے ہیں کہ فلسطین کے حوالے سے عالمی رائے عامل میں تبدیل آرہی ہے اور دنیا صہیونیوں کے جرائم کی مذمت کی طرف مائل ہوئی ہے۔ برطانیہ میں دو لاکھ پچاس ہزار افراد نے مظاہرہ کیا اور غزہ اور قدس پر صہیونیوں کی جارحیت کی مذمت کی اور مظاہرین نے شہریوں اور رہائشی عمارتوں، ذرائع ابلاغ کے مراکز اور تعلیم و صحت سے متعلق اداروں کے خلاف یہودی ریاست کے جرائم کے خاتمے کا مطالبہ کیا۔ ایسے ہی مظاہرے امریکہ اور دوسرے یورپی ممالک میں بھی ہوئے۔
عالمی رائے عامہ بدل چکی ہے، چنانچہ آج برطانیہ اپنی صہیونی اولاد کے لئے – جو اس خطے میں سرطان کی گلٹی اور ہماری قوم اور امت مسلمہ کی راہ میں ایک بڑی رکاوٹ اور انسانی آزادیوں کے لیے ایک چیلنج ہے – پریشان ہے، لہٰذا ایسی پوزیشن اختیار کر کے برطانیہ کو اس کی فکر ہے، چنانچہ برطانیہ اس قسم کا موقف اختیار کرکے صہیونی ریاست کو سکون و اطمینان دلانے کا ارادہ رکھتا ہے۔ بالخصوص ایسے حال میں کہ یہودی ریاست معرکۂ سیف القدس کے بعد شدید تنہائی کا شکار ہوچکی ہے۔ اس معرکے میں اسلامی مزاحمت تحریک نے فتح حاصل کی اور غاصب ریاست پر غلبہ حاصل کیا، جس کی وجہ سے آج یہ ناجائز ریاست اپنے آپ کو خطرے میں کے دیکھ رہی ہے۔
آج عالمی رائے عامہ مسئلہ فلسطین کے حق میں بدل رہی ہے اور صہیونی بیانئے کا جھوٹ اور فلسطینی بیانئے کی حقیقت آشکار ہوکر سامنے آئی ہے۔
برطانیہ نے یہ اقدام کرکے در حقیقت اسلامی مزاحمت اور فلسطینی قوم کو مخمصے میں ڈالنے کی کوشش کی ہے لیکن ہم کہتے ہیں کہ ہم اپنی مزاحمت کو جاری رکھیں گے اور برطانوی فیصلے کو ایک کاغذ پر لکھی ایسی تحریر سمجھتے ہیں، جو کسی صورت میں بھی اسلامی مزاحمت کے مقصد اور اقدامات پر اثر انداز نہیں ہوسکتی، کیونکہ مزاحمت فلسطینی سرزمین پر ہو رہی ہے۔ ہم اس سزمین میں قابضوں اور غاصبوں کے خلاف لڑ رہے ہیں اور حماس اور تحریک مزاحمت کا کوئی بھی مفاد برطانیہ سمیت مغربی ممالک میں نہیں ہے۔ اس برطانوی اقدام کا مقصد حماس اور فلسطینی عوام – نیز برطانیہ اور دوسرے مغربی ممالک میں – تحریک مزاحمت کے حامیوں کو تنگ کرنا اور ان پر دباؤ لانا، بھی ہے۔ کیونکہ وہ بھی بیدار ہونے لگے ہیں اور جانتے ہیں کہ فلسطین کے حوالےسے صحیح بیانیہ فلسطینیوں کا بیانیہ ہے۔