قتل عام کا جنون
فاران: غاصب صیہونی رژیم کے اعلی سطحی حکمرانوں کے درمیان شدید اختلافات پیدا ہو چکے ہیں۔ گذشتہ چند دنوں سے مختلف ذرائع ابلاغ کے مطابق صیہونی وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو اور صیہونی رژیم کے جاسوسی اداروں موساد اور شاباک کے سربراہان ڈیوڈ بارنیا اور رون بار کے درمیان اختلافات شدت اختیار کر گئے ہیں جس کی وجہ سے اسرائیل اور حماس کے درمیان جنگ بندی کا معاہدہ طے پانے کا امکان بھی کمزور پڑ گیا ہے۔ صیہونی جاسوسی ایجنسیوں کے سربراہان نے بنجمن نیتن یاہو پر الزام عائد کیا ہے کہ وہ غزہ میں جنگ بندی کیلئے سنجیدہ نہیں ہے۔ اصل مسئلہ یہ ہے کہ صیہونی وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو اس وقت ایسے حالات میں جب غزہ جنگ کے اعلان شدہ فوجی مقاصد میں سے حتی ایک بھی حاصل نہیں ہوا، کسی بھی قسم کی جنگ بندی کو اپنی اور اپنی حکومت کی سیاسی موت سمجھتا ہے۔
لہذا وہ اس قبل از وقت موت سے بچنے کیلئے جس طرح بھی ممکن ہو جنگ جاری رکھنے کے درپے ہے۔ غزہ کے شہر خان یونس میں غاصب صیہونی رژیم کی جانب سے مظلوم فلسطینی شہریوں کا تازہ ترین قتل عام جس میں سو کے قریب فلسطینی شہری شہید جبکہ تین سو کے قریب فلسطینی زخمی ہو گئے ہیں اسی پالیسی کا نتیجہ ہے۔ شہید اور زخمی ہونے والے فلسطینیوں میں بڑی تعداد بچوں اور خواتین کی بھی ہے۔ اب تک شائع ہونے والی خبروں کے مطابق غاصب صیہونی رژیم کے جنگی طیاروں نے غزہ کے شہر خان یونس کے علاقے “المواصی” میں فلسطینی پناہ گزینوں کی خیمہ بستی کو شدید بمباری کا نشانہ بنایا۔ اسی طرح شہری دفاع اور امدادی گروہوں کو بھی نشانہ بنایا گیا ہے۔
غزہ میں فلسطین کی ریسکیو تنظیم نے اعلان کیا ہے کہ خان یونس میں رہائشی عمارات پر صیہونی جنگی طیاروں کی بمباری کے نتیجے میں فائر بریگیڈ کے ڈپٹی محمد اسامہ حمد بھی شہید ہو گئے اور ان کے ہمراہ 8 دیگر امدادی کارکن بھی زخمی ہو گئے ہیں۔ غزہ میں شہری دفاع کی تنظیم کے مطابق یہ افراد اس وقت شہید ہوئے جب صیہونی جنگی طیاروں نے اس رہائشی عمارت کو دوسری مرتبہ ایسے وقت فضائی بمباری کا نشانہ بنایا جب امدادی کارکن پہلے حملے کے نتیجے میں شہید اور زخمی ہونے والے فلسطینی شہریوں کو ملبے سے نکالنے میں مصروف تھے۔ دوسری طرف صیہونی فوج نے اعلان کیا ہے کہ خان یونس پر یہ شدید فضائی بمباری حماس کے ملٹری ونگ القسام بریگیڈز کے مرکزی کمانڈر محمد الضیف کی ٹارگٹ کلنگ کیلئے انجام پائی تھی۔
صیہونی فوج کے مطابق انہیں خفیہ اطلاع ملی تھی کہ خان یونس میں القسام بریگیڈز کے مرکزی کمانڈر محمد الضیف اور خان یونس بٹالینز کے سربراہ رافع سلامہ موجود ہیں۔ لیکن حماس نے اس خبر کی تردید کی ہے اور اعلان کیا ہے کہ دونوں رہنما وہاں موجود نہیں تھے۔ بے گناہ فلسطینیوں کا قتل عام اور بنجمن نیتن یاہو کی جانب سے جنگ جاری رکھنے پر ضد نے حتی صیہونی رژیم کے اندرونی حلقوں کو حکومت کا مخالف بنا دیا ہے۔ مقبوضہ فلسطین میں حماس کے ہاتھوں یرغمال بنائے گئے صیہونیوں کے اہلخانہ کی بڑی تعداد گذشتہ چند ماہ سے جنگ بندی کا مطالبہ کرتی چلی آ رہی ہے۔ وہ حتی بنجمن نیتن یاہو کے استعفی کا مطالبہ بھی کر رہے ہیں۔ حماس کے ہاتھوں صیہونی یرغمالیوں کے اہلخانہ سمجھتے ہیں کہ یرغمالیوں کی بحفاظت واپسی کا واحد راستہ حماس سے جنگ بندی ہے۔
بنجمن نیتن یاہو بھی اس نتیجے پر پہنچ چکا ہے کہ غزہ جنگ جاری رکھنے کا واحد نتیجہ مزید نقصان کی صورت میں ظاہر ہو گا لہذا وہ اپنے مخالفین کا منہ بند کرنے کیلئے اس قسم کی جنون آمیز کاروائیوں کا سہارا لے رہا ہے۔ غزہ میں وسیع مجرمانہ اقدامات انجام دینے کے باوجود نہ صرف حماس کا فوجی سیٹ اپ ختم نہیں ہوا بلکہ حماس کا غزہ سے باہر دیگر اسلامی مزاحمتی گروہوں سے رابطہ بھی منقطع نہیں ہوا۔ اس بات کی سب سے بڑی دلیل یحیی السنوار جیسے افراد کا جنگ بندی کیلئے جاری مذاکرات پر موثر واقع ہونا ہے۔ نیتن یاہو کو جلدی یا دیر سے گھٹنے ٹیکنے پر مجبور ہونا ہی پڑے گا لیکن وہ اس ذلت آمیز شکست کو اتنی آسانی سے قبول کرنے پر تیار نہیں ہے۔ لہذا غزہ میں بے گناہ اور معصوم شہریوں کا قتل عام درحقیقت زوال کا شکار مجرم صیہونی رژیم کے آخری ہاتھ پاوں مارنے کے طور پر دیکھنے کی ضرورت ہے۔
صیہونی فوج طوفان الاقصی کے آغاز سے اب تک 860 فوجی گنوا چکی ہے اور اب وہ اس شدید نقصان کا ازالہ بے گناہ انسانوں کا قتل عام کر کے کرنا چاہتی ہے۔ اسکولوں، اسپتالوں اور سویلین مراکز پر وحشیانہ حملے ہر جنگ میں ناقابل قبول ہوتے ہیں لیکن صیہونی فوج اب تک بارہا ایسے حملے انجام دے چکی ہے جن میں سے تازہ ترین اقوام متحدہ سے وابستہ اسکول پر حملہ تھا جہاں سینکڑوں پناہ گزینوں نے پناہ حاصل کر رکھی تھی۔ غاصب صیہونی رژیم کی 76 سالہ منحوس تاریخ بے گناہ فلسطینی انسانوں کے خلاف غیر انسانی مجرمانہ اقدامات سے بھری پڑی ہے۔ اب بھی غزہ جنگ کے دوران غاصب صیہونی رژیم اب تک تقریباً 40 ہزار بے گناہ فلسطینیوں کا قتل عام کر چکی ہے۔ غزہ جنگ ابھی ختم نہیں ہوئی اور جاری ہے اور نجانے کتنے مزید فلسطینی شہری صیہونی جرائم کا نشانہ بنیں گے۔
تبصرہ کریں