خطبات نماز جمعہ
حجۃ الاسلام و المسلمین سید جواد نقوی
پرنسپل جامعۃ العروۃ الوثقیٰ
بمقام مسجد بیت العتیق
لاہور پاکستان
انسانی زندگی کا دائرہ، حیات دنیوی سے وسیع تر ہے اور اخروی اور ابدی حیات تک پھیلا ہوا ہے اور اس ابدی زندگی کا سرمایہ اسی دنیوی زندگی میں فراہم کرنا ہے جو تقویٰ کے زیر سایہ ہونا چاہیے۔
دنیا میں اللہ کی جانب سے حیات کا موقع غنیمت موقع ہے چونکہ اخروی زندگی کا سارا سامان اور اہتمام انسان کو اسی دنیوی زندگی میں کرنا ہے۔
اسی دنیوی زندگی کا ایک مرحلہ حیات طیبہ ہے حیات طیبہ کے لیے ضروری ہے کہ انسان حیات خبیثہ سے خود کو محفوظ رکھے حیات طیبہ اور حیات خبیثہ کو آپس میں مخلوط ہونے سے بچانے کے لیے اللہ تعالی نے یہ رہنمائی دی ہیں کہ حیات طیبہ کو محفوظ رکھنے کے لیے حیات خبیثہ سے دوری اختیار کرنا پڑے گی۔
وہ تمام دنیوی زندگی کے امور چاہے وہ سماجی زندگی سے متعلق ہوں یا نجی زندگی سے، معاشی زندگی سے متعلق ہوں یا عائلی زندگی سے، سب میں خباثت کے اسباب کا پایا جانا ممکن ہے۔ خبیث اور طیب زندگی کا معنیٰ و مفہوم قرآن کریم کی رو سے یہ ہے کہ طیب زندگی وہ ہوتی ہے جس میں رشد و نمو پائی جاتی ہے اور اس کی زندگی نتیجہ بخش اور ثمرآور ہوتی ہے۔ لیکن حیات خبیثہ وہ ہے جس میں جتنی کاشت کی جائے جتنا بیج بویا جائے اس کا کوئی مفید نتیجہ نہیں نکلتا وہ بنجر زمین کی طرح بے سود ہوتی ہے۔ یہ ارض خبیثہ اور بلد خبیثہ جو قرآن میں ہے جس سے مراد حیات خبیثہ ہے۔ اور یہ خباثت کثرت سے انسانوں میں پائی جاتی ہے۔
اگر ہم غور کریں کہ خداوند عالم نے اتنے انبیاء کے ذریعے انسانی زندگی کی کتنی آبیاری کی لیکن آپ دیکھیں خاص طور پر ہمارے دور میں کہ اس آبیاری کا کوئی نتیجہ نہیں نکل رہا ہے، نہ تعلیم کا کوئی نتیجہ ہے نہ تربیت کا کوئی اثر ہے۔ ہر محنت رایگان ثابت ہو رہی ہے، یہ سماج اور یہ نسل خبیث ہے اور ان کی زندگیاں حیات خبیثہ پر مبنی ہیں۔
اس کے خلاف حیات طیبہ ہے جس کی مثال قرآن کریم نے شجرہ طیبہ کی مثال دی ہے جس کی پہلی خصوصیت یہ ہے کہ اس کی جڑیں پائیدار ہیں اور کوئی آندھی اور کوئی طوفان اسے اکھاڑ نہیں سکتا، اس کی دوسری خصوصیت یہ ہے کہ اس کی شاخیں آسمان میں ہیں یعنی اس کی شاخیں بلند ہیں زمین گیر نہیں ہیں، اس کی تیسری خصوصیت یہ ہے کہ وہ مسلسل اور ہرآن پھل دیتا ہے یہ موسمی درخت نہیں ہے جو موسم کے آنے پر پھل دیتا ہے بلکہ ہر موسم میں اس کا پھل ملتا ہے۔
حیات طیبہ کے مقابلہ میں قرآن نے جو حیات خبیثہ کی مثال دی ہے اس کی خصوصیت یہ ہے کہ اس جڑیں نہیں ہیں اس کو استقرار، پائیداری اور ثبات حاصل نہیں ہے۔
ان مثالوں کا ایک ممثل بھی ذکر کر دیا ہے وہ اگلی آیت میں ہے وہ یہ ہے کہ جو حیات طیبہ کے مالک ہیں اور مومن ہیں انہیں اللہ تعالیٰ قول ثابت کے ذریعے استحاکم اور پائیداری عطا کرتا ہے۔
ان چند آئتوں میں اللہ تعالیٰ نے یہ بیان فرمایا ہے کہ حیات طیبہ کلمہ طیبہ ہے اور کلمہ طیبہ کا دوسرا نام قول ثابت ہے کلمہ طیبہ کی خصوصیات ہیں جو اوپر بیان ہوئیں۔ اگر ان میں سے کوئی ایک خصوصیت اس میں نہ ہو تو وہ کلمہ طیبہ کا مصداق نہیں ہو گا۔ اور پھر یہ کلمہ طیبہ جو خود بھی ثابت اور پائیدار ہے مومنین کی ثبات قدمی اور پائیداری کا سبب بھی ہے۔
کلمہ طیبہ یا قول ثابت کے مصادیق متعدد ہیں۔ خود لفظ قول کیا ہے ضروری نہیں ہے کہ جو بات الفاظ کی صورت میں منہ سے نکلے وہی قول ہو، بلکہ قرآن میں قول لفظ بھی ہے اور غیر لفظ بھی ہے جو انسان نیت کرتا ہے جو انسان سوچتا ہے جو انسان بولتا ہے حتیٰ کہ جو انسان کرتا ہے وہ بھی قول ہے۔ جیسے آپ کہتے ہو میرے ذہن میں ایک بات آ رہی ہے جبکہ آپ ذہن میں سوچتے ہو، لہذا قرآن میں قول اسی وسیع معنیٰ میں استعمال ہوا ہے یعنی اللہ کے ارادہ اور علم کو بھی قول کہا گیا ہے۔
قول ثابت کے ذریعے اللہ تعالیٰ مومنوں کو ثبات عطا کرتا ہے قول ثابت یعنی احکام الہیہ، یعنی جو بھی اللہ نے ایمان کے لیے ضروری قرار دیا ہے وہ قول ثابت ہے اس کے بعد زندگی بسر کرنے کے لیے جو احکامات جاری کئے ہیں وہ سب قول ثابت ہیں۔
اس موضوع کو بہترین انداز میں سمجھنے کے لیے میں تاکید کرتا ہوں کہ شہید مطہری کی کتابوں کا مطالعہ کریں اس لیے کہ شہید مطہری وہ شخصیت ہیں جنہوں نے دین کو اچھے طریقے سے سمجھا بھی اور اچھے مدلل اور آسان انداز میں سمجھایا بھی، چونکہ وہ بہترین عالم بھی تھے اور بہترین معلم بھی۔
انہوں نے اپنی کتاب ’مقدمہ ای بر جھان بینی اسلامی‘ کے اندر نظام دین کو اس آیت: يُثَبِّتُ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا بِالْقَوْلِ الثَّابِتِ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَفِي الْآخِرَةِ ۖ، کے ذیل میں قول ثابت بنا کر پیش کیا ہے۔
شہید مطہری نے اس قول ثابت کو آئیڈیالوجی سے تعبیر کیا۔ یہ آئیڈیالوجی کی اصطلاح جو اصل میں فرانسیسی زبان کی ہے کافی عرصے سے ہمارے درمیان بھی رائج ہے، فرانسیسی انقلاب اور نشاۃ ثانیہ نے جمہوریت، سیکولرازم، لبرل ازم اور صنعتی انقلاب کو جنم دیا، جس کے بعد آئیڈیالوجی کا تصور بھی ابھرا۔ کارل مارکس نے بعد میں کمیونزم کو ایک آئیڈیالوجی کے طور پر پیش کیا۔ ابتدا میں، آئیڈیالوجی اپنی جدید تشریح سے مختلف تھی، آج آئیڈیالوجی کو انسانی زندگی کے تمام پہلوؤں کو منظم کرنے والے ایک جامع نظام کے طور پر سمجھا جاتا ہے۔ یہ منظم وژن یا باصطلاح آئیڈیالوجی جس کو فارسی یا عربی میں “مکتب” کہا جا سکتا ہے، ایک ایسے مدون نظریہ کو کہا جاتا ہے جو انسانی زندگی کے ہر پہلو بشمول سماجی تعلقات، تعلیم، معیشت، صحت اور سلامتی سے متعلق آگاہی اور ان کی رہنمائی کرتا ہے۔ اپنی قرآنی تفسیر میں، ہم نے بیان کیا کہ ’ذالک الکتاب لا ریب فیہ‘ میں”الکتاب” کا مطلب محض کتاب یا تحریر نہیں ہے بلکہ زندگی کے بکھرے ہوئے عناصر کو ہم آہنگی کے ساتھ جمع کرنے اور محفوظ کرنے کے عمل کو ظاہر کرتا ہے۔ اس طرح، جب اللہ تعالیٰ الہٰی صحیفوں کو “کتاب” کے طور پر بیان کرتا ہے، تو اس کا مطلب زندگی کے معاملات کی ایک تالیف ہے، جو علیحدگی کو روکنے کے لیے احتیاط سے ترتیب دی گئی ہے۔ یہ کتاب آئیڈیالوجی اور “قولِ ثابت” کی علامت ہے، جو لوگوں کو ایک امت میں تبدیل کرتی ہے۔ اور اللہ تعالیٰ جب مومنوں کو ثبات اور استحکام عطا کرتا ہے تو انہیں آئیڈیالوجی اور قول ثابت دیتا ہے۔
شہید مطہری نے اس حوالے سے ایک بےنظیر مثال پیش کی ہے میں شہید مطہری کی بات اس لیے کرتا ہوں کہ انہوں نے ہمیشہ ایک مقصد کے تحت بات کی ہے۔ انہوں نے ذکر کیا کہ دینی تعلیم کے دوران، انہوں نے محسوس کیا کہ جو دین کتابوں میں بیان ہوا ہے اور جس دین پر لوگ عمل پیرا ہیں ان دونوں کے درمیان بڑا فرق ہے۔ اس کے بعد انہوں نے دین کی معاشرتی تشریح اور قرآن و حدیث میں پائی جانے والی تعلیمات دونوں کا مطالعہ کرنے کا فیصلہ کیا۔ جتنا وہ اس میں ڈوبتے گیے، یہ فاصلہ اتنا ہی واضح ہوتا گیا۔ چنانچہ انہوں نے دین کے علمی فہم کو عوام کے سامنے پیش کرنے کا عزم کیا۔ ان کے دور میں علماء نے دین کی علمی تشریح کو عوام تک پہنچانے سے پرہیز کیا، یہ مانتے ہوئے کہ یہ صرف اور صرف مدرسے کے لیے ہے۔ لہذا انہوں نے دین کو صحیح سمجھ کو اسے لوگوں کا پہنچایا۔ مزید برآں، یہ نوٹ کرنا ضروری ہے کہ ہر نسل کا زندگی کا اپنا نظریہ ہوتا ہے، جو بدلتے ہوئے معاشرتی نظام کی وجہ سے بدلتا ہے۔ جیسے جیسے طرز زندگی بدلتا ہے نظام زندگی کو اس کے مطابق ڈھالنا چاہیے۔ اگر نظام، عصری تقاضوں سے ہم آہنگ نہ ہو تو معاشرہ کے پٹری سے اترنے کا خطرہ ہے۔ اس طرح، ہمیں ایسے نظاموں کی ضرورت ہے جو موجودہ ذرائع اور زندگی کے طریقوں کی عکاسی کریں۔ پچاس سال پہلے کے نظام زندگی کو عملی جامہ پہنانا اور اسے واپس آج کی زندگی میں لانا غیر ممکن ہے۔ اس کے بجائے، نظام حیات کو جدید تقاضوں کے مطابق تیار کرنا ہو گا۔ پچھلی نسل کے طرز حیات کو موجودہ زندگی پر مسلط کرنا افراتفری کا باعث بنے گا۔ جب کہ دین کا جوہر غیر تبدیل شدہ رہتا ہے، اس کے فہم کو اپنانا ضروری ہے۔ ہمیں غیر متزلزل عالمی نظریہ پر مبنی زندگی کا ایک مستحکم وژن درکار ہے۔ اور وہ ہے قول ثابت۔ یہ قول ثابت آئے گا کہاں سے؟ اسے شہید مطہری نے بڑے اچھے انداز میں بیان کیا ہے کہ آئیڈیالوجی اور مکتب جہان بینی کی پیداوار ہے ۔ جہان بینی سے آئیڈیالوجی جنم لیتی ہے۔ جہان بینی یعنی نظریہ کائنات اور آئیڈیالوجی یعنی نظریہ حیات۔ اور ہمارے لیے جو چیز ضروری ہے وہ نظریہ حیات ہے۔
کیا ہر کسی کے بنائے ہوئے نظریہ حیات کو اپنا لینا چاہیے، اگر ایسا ہوا تو یہ قول ثابت نہیں ہو گا چونکہ قول ثابت وہ ہے جس کی جڑیں بہت راسخ ہوں۔ جڑیں کہاں راسخ ہوں؟ نظام ہستی میں اس کی جڑیں راسخ ہوں۔ نظام کائنات سے نکلا ہوا نظریہ حیات، مومنین کے ثبات کی بنیاد بن سکتا ہے۔ جو نظام ہستی اور نظام کائنات کے عین مطابق ہو بلکہ اسی کی رگوں سے باہر آیا ہو۔ ایسا نظریہ انسان کی زندگی کی بنیاد بن سکتا ہے۔ یہ انسانی معاشرے کی اصلی ضرورت ہے۔ اگر یہ نہ ہو تو پھر انسانی معاشرہ میں خرافات، افسانے، کہانیاں یہ سب چیزیں آ جاتی ہیں۔ جس میں آج ہمارا معاشرہ مبتلا ہے۔ اور قرآن بھی یہی دو چیزیں پیش کر رہا ہے نظام ہستی اور نظام حیات۔ یہی دین ہے جو انسانی زندگی کے ساتھ مطابق رکھتا ہے۔ حیات طیبہ یہاں جا کر انسان کو نصیب ہوتی ہے۔
خطبہ 2
آج ساری دنیا گواہ ہے کہ انسانیت کے فقدان کی وجہ سے انسان کے اندر بربریت اور حیوانیت آگئی ہے۔ آج جو لوگ انسانوں کی طرح نظر آتے ہیں وہ اس زمین پر سب سے زیادہ درندے ہیں۔ آج انسانیت کا ایک اور زوال یہ ہے کہ اسرائیل، امریکہ اور یورپ سے زیادہ وحشی اور درندہ وہ ہیں جو خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں۔ وہ بہت کچھ کر سکتے ہیں لیکن کچھ نہیں کرتے۔ ان مظالم کو ایک سال گزر گیا اور صہیونیت کی بربریت جاری ہے لیکن کوئی ایکشن نہیں لیا جا رہا۔ جو بربریت کر رہے ہیں وہ کوئی پارسا لوگ نہیں ہیں وہ ہیں ہی درندہ جانور۔ لیکن جو لوگ خاموش بیٹھے ہیں یہ انسانیت کے بڑے دعوے دار ہیں۔ مسلمان ہیں، اسلامی حکمران ہیں، سیاست دان ہیں، مذہبی رہنما ہیں، اولیاء اللہ ہیں، بزرگ شخصیات ہیں اتنے بڑے بڑے دعوے دار ہیں لیکن وہ اتنے ظلم و بربریت کو اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں اور بالکل خاموش ہیں۔ عوام عام طور پر ایسے نہیں ہوتے لیکن یہاں اس معاملے میں عوام نے بھی ان خواص کی طرح انسانیت سے خود کو دور کر لیا ہے۔ عام طور پر عوام کا مزاج یہ ہوتا ہے کہ بعض چیزوں کے لیے کبھی کبھی انہیں ابھارا اور اکسایا جاتا ہے، وہ کبھی بھی اپنے طور پر کچھ نہیں کرتے۔ انہیں گائڈ لائن دی جاتی ہے۔ لیکن کچھ چیزیں ایسی ہیں جو عوام کے لیے قدرتی ردعمل ہیں۔ یہاں پر تو نہ مشتعل ہونے کے رد عمل نظر آتے ہیں اور نہ ہی قدرتی۔ یوں تو کوئی ان کو بیدار نہیں کر رہا لیکن تصویروں، ویڈیوز اور خبروں کو دیکھ کر فطرت کا فطری ردعمل بھی نظر نہیں آتا۔ ہم اپنے ذاتی معاملات میں دیکھ سکتے ہیں کہ جب کوئی چیز ہمیں تکلیف دیتی ہے تو ہم اکیلے ہی ردعمل ظاہر کرتے ہیں لیکن یہاں وہ بھی نہیں دکھائی دیتا۔ اس کا مطلب ہے کہ ان کی فطری حالت بھی مسخ ہو چکی ہے۔ اسے دقیق مطالعہ کی ضرورت ہے۔
ہم نے سوشل پیتھالوجی کا موضوع یونیورسٹیوں، طلباء اور اداروں کے سامنے پیش کیا لیکن چونکہ اس موضوع میں مادیت پسندانہ فائدے نہیں ہیں، کسی کو دلچسپی نہیں ہے۔ جب بچہ پیدا ہوتا ہے تو اسے رونا چاہیے جو زندگی کی علامت ہے۔ آج کا معاشرہ بول نہیں رہا، رو نہیں رہا ہے جس کا مطلب ہے کہ وہ مر چکا ہے۔ احتجاج نہیں کر رہے، مطالبہ نہیں کر رہے ہیں، کوئی دباؤ نہیں بڑھا رہے ہیں۔ آج جب لبنان میں حملے ہو رہے ہیں تو خود لبنانی بھی کوئی ردعمل ظاہر نہیں کر رہے لبنانی صرف ضاحیہ والے تو نہیں ہیں دوسرے علاقوں والے بھی خاموش ہیں۔ وہ سب یہ سوچ رہے ہیں کہ انہیں نشانہ نہیں بنایا جا رہا۔ اگر پاکستان آواز اٹھاتا، کوئی اور ملک بھی اس ظلم کو رکاونے کے لیے آواز اٹھاتا، تو یہ کام رک سکتا تھا لیکن سب مر چکے ہیں۔ بقول اس فلسطینی بچی کے، کہ تم مر چکے ہو، ہم نہیں مرے ہم قتل ہوئے ہیں لیکن قتل ہو کر زندہ ہیں لیکن تم مر گئے ہو۔ تم بے حس، بے شرم اور لاشے ہو اور تم سے مدد مانگنا ہمارے شایان شان نہیں ہے مردوں سے کیا مدد مانگیں ہم، وہ عربوں کو خطاب کر کے یہ کہہ رہی تھی۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ یہ لوگ زندہ ہیں جب ہم ان کی استقامت کو دیکھتے ہیں کہ ایک سال انہوں نے کیسے گزارا ہے، اور ہم نے کیسے گزارا ہے، اور مجاہدین نے کیسے گزارا؟ ان علماء نے کیسے گزارا ہے، بڑے بڑے مفتیوں نے کیسے گزارا ہے؟ قرآن نے علمائے یہود پر لعنت کی ہے کیونکہ وہ ظلم پر خاموش تھے۔ یہ لعنت صرف یہودی علماء تک ہی محدود نہیں ہے یہ سب پر لاگو ہوتی ہے۔ یہ ایک سال اس امتحان کا تھا جس نے طیب اور خبیث کو بے نقاب کر دیا۔ ہمارے ملک میں 7 اکتوبر کو ایک آل پارٹی کانفرنس ہوئی جس میں صرف بیانات دیے گئے اور کچھ نہیں، اور پھر 7 اکتوبر 2025 کو دوبارہ ملیں گے۔ ایک سال تک یہ جانوروں کی بربریت، بچوں کے کٹے ہوئے ٹکڑے، بھوک، پیاس یہ سب ظلم دیکھتے رہیں گے اور کوئی ردعمل ظاہر نہیں کریں گے۔ ترکی میں ایک بلی کے ساتھ ناانصافی ہوئی تو اردوگان سمیت پورا ترکی نکل کر آگیا اور بلی کے قاتل کو سزا دلوائی جبکہ یہی اردوگان اپنی امت سمیت اس قدر آسودہ ہے اسرائیل کے ساتھ اپنا سارا لین دین جاری رکھے ہوئے ہے اور یہی حال باقی دنیا کا بھی ہے۔
سید حسن نصراللہ کتنے باعظمت اور محترم تھے۔ امام حسین (ع) کی زبان سے کسی شاعر نے نقل کرتے ہوئے کہا تھا: ’ان کان دین محمد لم یبقیٰ الا بقتلی فیا سیوف خذینی‘ کہ اگر میرے خون کے بغیر دین محمد (ص) کی حفاظت نہیں ہوسکتی تو میرا سینہ اور خون تیروں اور نیزوں کے لیے تیار ہے۔ سید نصر اللہ نے یہی کر کے دکھایا کہ اگر اقصیٰ میرے خون اور میرے قتل کے بغیر نہیں بچ سکتا تو اے میزائلوں آؤ نصر اللہ کا سینہ حاضر ہے۔ اقصیٰ کے لیے انہوں نے اپنا خون دیا لیکن پھر بھی دنیا خاموش ہے۔ یہ طیبین ایک باوقار مقام حاصل کریں گے اور آنے والی نسلوں کے لیے نمونہ بنیں گے۔ وہ مجاہد جو غزہ اور لبنان میں مسلسل شہید ہو رہے ہیں لیکن ایک قدم پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں ہیں یہ طیبین ہیں اور اللہ تعالیٰ نے ان کو ممتاز بنانا ہے۔ ہم خوش نہ ہوں کہ ہم بچ گئے ہیں اور وہ شہید ہو گئے ہیں، در اصل وہ ہم سے ممتاز کر کے الگ کر دئے گئے ہیں تاکہ یہ بتا دیا جائے کہ یہ طیبین ہیں جو اللہ نے چن لیے ہیں۔ یہ کربلا پر رونے والوں کا طریقہ کار نہیں ہونا چاہیے اگر کربلائے بیروت اور کربلائے غزہ پر چپ رہیں اور کربلا عراق پر روتے رہیں تو یہ ظلم کے خلاف رونا نہ ہوا۔ اگر ظلم کے خلاف رونا ہے تو ہر ظلم کے خلاف رویا جائے۔ اگر مظلوم کی حمایت دین ہے تو ہر مظلوم کی حمایت کی جانا چاہیے۔ کربلا کا دن ایک دن میں ختم ہو گیا، اسیروں پر ظلم بھی ایک دن ختم ہو گیا لیکن جنہوں نے ساتھ نہ دیا وہ مر مٹ گئے ملعون قرار پائے، کربلا والے آج بھی زندہ ہیں اور ہمیشہ زندہ رہیں گے۔ یہ حال ہو گا آج بھی، یہ ظلم کی شام ختم ہو جائے گی لیکن جو سربلندی ہو گی وہ مجاہدین کے حق میں ہو گی اور جو رسوائی ہو گی وہ خاموش رہنے والوں کو نصیب ہو گی۔
تبصرہ کریں