لبنان میں پیجر دھماکوں کا مقصد کیا تھا؟

حالیہ واقعات اور لبنان کے حالات کے مطابق ایسا لگ رہا ہے کہ حزب اللہ کی کارروائیوں میں مزید اضافہ دیکھا جائے گا اور شدت بھی۔ تاہم سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ غاصب اسرائیل معصوم شہریوں کو زخمی کرنے اور نقصان پہنچا کر اپنے ناپاک عزائم کا حاصل کرنے میں بری طرح ناکام رہا ہے۔
فاران: لبنان میں سترہ ستمبر کو یکایک سینکڑوں چھوٹے چھوٹے دھماکے ہوئے اور چند ہی لمحات میں ہزاروں افراد زخمی ہوگئے۔ یہ دھماکے کیا تھے؟ کس نے کئے اور ان دھماکوں سے کیا مقاصد حاصل کرنے تھے۔؟ لبنان میں ہونے والے ان دھماکوں کو پیجر دھماکے کہا جا رہا ہے۔ پیجر ایک ایسی ڈیوائس ہے، جس کو میسجز اور آڈیو میسجز بھیجنے یا حاصل کرنے کے لئے استعمال کیا جاتا ہے۔ لبنان میں پیجر کا استعمال بہت زیادہ ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ آلہ موبائل فون کی نسبت زیادہ محفوظ بھی ہوتا ہے اور اس کے ریکارڈ کو حاصل کرنا مشکل ترین کاموں میں سے ایک ہوتا ہے۔ لبنان میں شہریوں کی بڑی تعداد اس آلہ کا استعمال کرتی ہے۔ یہاں تک کہ لبنان کی مزاحمتی تنظیم حزب اللہ کے جوان بھی اپنے پیغام کو پہنچانے کے لئے پیجر کا ہی استعمال کرتے ہیں۔
حزب اللہ گذشتہ ایک سال سے یعنی سات اکتوبر سے غزہ کی حمایت میں غاصب صیہونی ریاست اسرائیل کی فوج سے حالت جنگ میں ہے اور مسلسل اسرائیلی فوج کو نقصان پہنچا رہی ہے۔ گذشتہ دنوں حزب اللہ نے اپنے شہید کمانڈر فواد شکر کا بدلہ لیتے ہوئے پہلے مرحلہ میں اسرائیل کے اندر ستر کلو میٹر تک کارروائی کی تھی اور اسرائیل کا سب سے بڑا انٹیلی جنس یونٹ نشانہ بنا کر اسرائیل کو شدید جانی و فوجی نقصان سے گزرنا پڑا تھا۔ بہرحال لبنانی صحافیوں اور تجزیہ کاروں کے مطابق لبنان میں پیجر دھماکوں کے پیچھے دراصل سائبر حملہ ہے، جو غاصب صیہونی حکومت اسرائیل نے انجام دیا ہے۔ سوال یہ ہے کہ پیجر کس طرح اچانک دھماکہ کی طرف چلا گیا۔؟ اس عنوان سے جب لبنان ہی کے صحافیوں کی گفتگو اور رپورٹس ملاحظہ کی گئی تو اندازہ ہوتا ہے کہ گذشتہ چند ماہ میں پیجر امپورٹ کرنے والی کمپنیوں نے جو پیجر امپورٹ کئے تھے، ان میں پہلے سے ہی کمپنیوں نے پانچ گرام بارود فکس کرکے بھیجا تھا۔
جیسا کہ غاصب صیہونی حکومت یہ بات اچھی طرح جانتی تھی کہ لبنان میں شہریوں کے ساتھ ساتھ حزب اللہ کے جوانوں اور مجاہدین کی بڑی تعداد پیجر کا استعمال کر رہی ہے، تاہم اس ناپاک منصوبہ کو عملی جامہ پہنایا گیا اور پہلے سے پانچ گرام بارود کو ان آلہ جات میں نصب کرکے لبنان کو فروخت کئے گئے۔ کچھ عرصہ تک شہریوں نے ایک بڑی تعداد میں جب یہ آلہ جات خرید لئے تو غاصب اسرائیل نے اس منصوبہ بندی کے ساتھ پیجر حملہ کیا کہ حزب اللہ کے جوانوں کی ایک بڑی تعداد اس حملہ میں زخمی اور شہید ہو جائے گی اور اس طرح حزب اللہ وقتی طور پر مشکل حالات کا سامنا کرے گی، تاہم اسرائیل لبنان پر ایک بڑی جنگ مسلط کرے گا اور جواب میں دفاعی قوت موجود نہیں ہوگی۔
غاصب صیہونی حکومت اسرائیل نے اپنے ناپاک منصوبہ کے تحت پیجر حملہ تو کر لیا، لیکن منصوبہ اس طرح سے ناکام ہوا کہ زخمی ہونے والوں میں ایک بہت بڑی تعداد عام شہریوں کی ہے۔ یہاں تک کہ ایک دس سالہ بچی بھی اس دھماکہ کی وجہ سے شہید ہوگئی ہے۔ البتہ حزب اللہ نے اپنے آٹھ جوانوں کی شہادت کی خبر دی ہے، جبکہ تین ہزار لوگ جو کہ لبنان کے عام شہری ہیں، وہ ان دھماکوں سے زخمی ہوئے ہیں۔ لبنانی صحافیوں اور تجزیہ کاروں کے مطابق اسرائیل کا منصوبہ بری طرح ناکام ہوا ہے اور حزب اللہ کو ایک فیصد کے قریب بھی نقصان نہیں پہنچا، لیکن اسرائیل نے یہ اوچھی حرکت انجام دے کر غاصب صیہونی آباد کاروں کے لئے نئی مشکلات پیدا کر دی ہیں، کیونکہ شمال فلسطین میں پہلے ہی غاصب صیہونی آباد کاروں کو جنوبی لبنان سے جاری مزاحمت کی وجہ سے کئی بستیاں خالی کرنا پڑی ہیں اور عنقریب اب حزب اللہ کی جوابی کارروائیوں کی وجہ سے مزید صیہونی آباد کار بھی شمال فلسطین سے رخصت ہو جائیں گے۔
دوسری جانب حزب اللہ لبنان نے غاصب صیہونی حکومت کی بزدلانہ اور دہشتگردانہ کارروائی کی مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ حزب اللہ اپنے مقصد میں گامزن رہے گی اور غزہ کی حمایت میں کمی نہیں آئے گی۔ حزب اللہ لبنان کے شہریوں کے خلاف ہونے والی اسرائیلی جارحیت کا بدلہ ضرور لے گی اور اس کا وقت اور طریقہ بھی حزب اللہ ہی طے کرے گی۔ خلاصہ یہ ہے کہ غاصب صیہونی حکومت اسرائیل نے لبنان میں پیجر حملوں کے ذریعہ کوشش کی تھی کہ حزب اللہ کو شمال فلسطین میں صیہونی فوج کے خلاف کارروائیوں سے روک دے یا کم سے کم حزب اللہ کو ان کارروائیوں کو روکنے پر مجبور کرے، لیکن اب حالیہ واقعات اور لبنان کے حالات کے مطابق ایسا لگ رہا ہے کہ حزب اللہ کی کارروائیوں میں مزید اضافہ دیکھا جائے گا اور شدت بھی۔ تاہم سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ غاصب اسرائیل معصوم شہریوں کو زخمی کرنے اور نقصان پہنچا کر اپنے ناپاک عزائم کا حاصل کرنے میں بری طرح ناکام رہا ہے۔