لبنان کی مشکلات کی وجوہات

لبنانی عوام مزاحمت کو اپنی فتح ، آزادی اور فخر کا ایک عنصر سمجھتے ہیں۔ نتیجے کے طور پر، مزاحمت لبنانیوں کے لیے ایک قومی علامت ہے، اور عوام کسی بھی طرح اس کے خلاف نہیں کھڑے ہوں گے۔

فاران؛ لبنانی عوام ایک سال سے زائد عرصے سے کئی معاشی بحرانوں سے نبرد آزما ہیں۔ تاہم، اس ملک میں ہر گروہ اور جماعتیں ایک دوسرے پر نا اہلی کا الزام لگا رہی ہیں۔
اس ضرورت کے پیش نظر لبنان کی مشکلات کی وجوہات کے زیر عنوان ڈاکٹر احمد دستمالچیان جو لبنان اور اردن میں ایران کے سفیر کی حیثیت سے کام کرتے رہے ہیں کے ساتھ ہوئی گفتگو کو قارئین کے لیے پیش کرتے ہیں؛

فاران؛ ڈاکٹر صاحب! آپ کی نظر میں لبنان میں موجودہ مسائل کی بنیادی وجوہات کیا ہیں؟
۔ لبنان کے موجودہ مسائل کی بنیاد ملک کے نوآبادیاتی قبائل کا ساختی نظام ہے ، جسے فرانس نے سائیکس پیکوٹ معاہدے کے بعد ڈیزائن کیا تھا۔ یہ ڈھانچہ اس انداز میں بنایا گیا تھا جو فرانس میں عیسائیوں کے مفاد میں زیادہ تھا۔ یہ قبائلی ساختی نظام کسی بھی طرح لبنان کے حالات سے مطابقت نہیں رکھتا۔ اس لیے اس ڈھانچے کے ذریعے مختلف کرپشن ، گپھلے اور لوٹ مار ہوتی ہے۔
کیونکہ قبائلی نظام میں کبھی بھی کوئی ذمہ دار اپنے سر نہیں لیتا، اس وجہ سے مالی فساد اور افسوسناک معاشی بدحالی کے سامنے کوئی جوابدہ نہیں ہوتا۔ لبنان اس ڈھانچے کی وجہ سے بحرانی حالت سے دوچار ہے۔ چاہے عوامی خدمات کے میدان میں ہو، یا بنیادی ڈھانچے اور بنیادی ڈھانچے کے کاموں کے میدان میں ہو۔ یہ سب کچھ قبائلی نجی تنظیموں کی کوتاہیوں کے ساتھ ساتھ حکومتی بے راہ روی کی وجہ سے ہے۔

فاران: آپ کی نظر میں ان مسائل کو پیدا کرنے میں امریکہ ، خطے کے رجعتی ممالک اور صہیونی حکومت نے کیا کردار ادا کیا ہے؟
۔ سیاسی جہت میں ، امریکہ ، خطے کے رجعتی ممالک اور صیہونی حکومت ، مختلف دباؤ جیسے پابندیوں وغیرہ کے ذریعے، لبنانی عوام کے معیار زندگی کو نچلی ترین سطح پر لانے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ امریکہ اور اسرائیل لبنانی عوام پر اپنی مرضی مسلط کرنا چاہتے ہیں۔ درحقیقت ان کا مطالبہ حزب اللہ کی مقبولیت کو کم کرنا اور مزاحمت کے لیے عوامی حمایت کو ختم کرنا ہے۔
البتہ صیہونی حکومت کی یہ فکر کہ مزاحمت کے تئیں عوامی حمایت کو کمزور کر سکے ایک خام خیالی اور غلط تصور ہے۔ کیونکہ مزاحمت اور عوام ایک دوسرے سے الگ نہیں ہیں اور ان کے درمیان ایک ختم نہ ہونے والا تعلق اور رشتہ پایا جاتا ہے یہ وہ مزاحمت ہے جو خود عوام کے اندر سے وجود میں آئی ہے اور خود عوام ہی اس کا حصہ ہیں لہذا مزاحمت یا دوسرے لفظوں میں حزب اللہ کو عوام سے الگ نہیں کیا جا سکتا۔

فاران: لبنان کے موجودہ حالات میں مزاحمتی محاذ کی صورت حال کا آپ کیسے جائزہ لے سکتے ہیں؟
۔ لبنانی مزاحمتی محاذ میں ، سنی ، شیعہ ، عیسائی ، سرکیشین اور دیگر نسلیں اور مذاہب ایک ساتھ ہیں۔ اگر ان قوموں اور ادیان کے ماننے والوں میں سے کوئی حزب اللہ کے خلاف بات کرتا ہے تو وہ ایک فرد ہے نہ کہ ایک قوم۔ دوسری طرف ، لبنانی عوام مزاحمت کو اپنی فتح ، آزادی اور فخر کا ایک عنصر سمجھتے ہیں۔ نتیجے کے طور پر، مزاحمت لبنانیوں کے لیے ایک قومی علامت ہے، اور عوام کسی بھی طرح اس کے خلاف نہیں کھڑے ہوں گے۔

فاران: کیا آپ سمجھتے ہیں کہ پابندیوں کا ہتھیار لبنانی عوام کی مزاحمت کو توڑ سکتا ہے؟
۔ امریکہ اور صیہونی حکومت کی پابندیوں کا ہتھیار ایران اور عراق میں ناکام ہو گیا۔ لہذا پابندیاں امریکہ کا ایک سست اور ناکارہ ہتھیار ہے جو مزاحمت کے ساتھ مقابلہ کرنے سے قاصر ہے۔ اب چونکہ لبنانی عوام نے اتنا صبر اور انتظار کیا ہے اور لبنان کے لیے ایرانی پٹرول کی برآمد کا دروازہ بھی کھل گیا ہے لہذا امید ہے کہ اب اس ملک میں اچھے دن دیکھنے کو ملیں گے۔ اور یہ بھی امید ہےکہ عوام کے صبر و مزاحمت کے جاری رہنے کی صورت میں لبنان کا مستقبل روشن ہو گا۔

فاران: ہم دیکھ رہے ہیں کہ ایران نے اپنا پٹرول لبنان برآمد کرنا شروع کر دیا ہے کیا اس دوران صہیونی ریاست کی شرارتیں ممکن ہو سکتی ہیں؟
۔ لبنان کے لیے ایرانی پٹرول کی برآمدات کا آغاز مزاحمتی محاذ کے حق میں ایک پیچیدہ معاملے کا آغاز ہے۔ لبنانی آئل ٹینکر کے ساتھ اسرائیلی فوجی تصادم کا امکان بہت کم ہے۔ کیونکہ حزب اللہ نے 33 روزہ جنگ اور صہیونی حکومت کے ساتھ حالیہ فائرنگ کے تبادلے میں بہت زیادہ طاقت دکھائی ہے۔ اسرائیل کی غزہ کے ساتھ حالیہ جنگ نے اسرائیلی رہنماؤں کو خبردار کیا کہ وہ مزاحمت نہیں کر سکتے۔ سید حسن نصر اللہ نے اس بات پر بھی زور دیا کہ شیطنت کی صورت میں اسرائیل کو سخت اور منہ توڑ جواب دیا جائے گا۔