مادیت کا طوفان اور مہدویت کی کشتی نجات
فااران تجزیاتی ویب سائٹ: آپ نے اکثر بڑی بڑی عمارتوں کو پانی کے ساتھ ڈہتے اور بڑی بڑی گاڑیوں کو کاغذ کی ناو کی طرح پانی کے بہاو کے ساتھ بہتے دیکھا ہوگا ، جب کبھی سمندر میں طغیانی ہو اور اس کی موجیں بپھر جائیں تو بڑی مشکل سے ٹہراو پیدا ہوتا ہے اور سمندر کے پرسکون ہونے تک نہ جانے کتنی بستیاں اجڑ چکی ہوتی ہیں نہ جانے کتنے علاقے ویران ہو چکے ہوتے ہیں ، ساحلوں پر لاشے ہی لاشے بکھرا سامان مرے ہوئے مویشی تباہی کے مناظر کو پیش کرتے ہیں ، طوفان کے تھم جانے کے کافی دنوں بعد تک لوگ ساحل کی طرف جانے سے ڈرتے ہیں ، اس کے باوجود دور گہرے سمندر میں ہمیں ایسے جہاز ضرور ملتے ہیں جو گہرے سمندر میں ہونے کے باوجود ساحل سے زیادہ محفوظ نظر آتے ہیں اس لئے کہ ان کے پاس ایسا قطب نما ہوتا ہے جسکی مدد سے نا خدا ئے کشتی جوخطرے کو بھانپ کر کشتی کا رخ اس طرف کر دیتا ہے جہاں طوفان کی تباہ کاریاں نہ ہوں یا ایسے ساحل کے نزدیک کشتی کو لنگر انداز کر دیتا ہے کہ جہاں کوئی خطرہ نہ ہو ، اور اگر ناخدائے کشتی اناڑی ہو تو بڑی سے بڑی کشتی پانی کی بھپری موجوں کا شکار بن جاتی ہیں ۔
آج ہم اپنے چاروں طرف نظر ڈالیں گے تو احساس ہوگا کں طرف سے ایک طوفان نے ہمیں گھیر لیا ہے اور یہ پوری نوع بشر سرگرداں و حیران اپنے ہی وجود کے ارد گرد چکر کاٹ رہی ہے ، جسکو دیکھیں وہ دنیا کے سمندر میں اس کی لہروں کے ساتھ ہچکولے کھا رہا ہے کسی کو دنیا کا سمندر غرق کر رہا ہے تو کسی کومادیت کے لہریں کہیں سے کہیں پھینک دے رہی ہیں ، کوئی خونی رشتوں کو ڈھونڈ رہا ہے کوئی اپنوں کو تلاش کر رہا ہے کوئی رشتہ دا جروں اور احباب کو ڈھونڈ رہا ہے لیکن ہر طرف اندھیرا ہے ، ہر رشتہ اندر سے کھوکھلا نظر آ رہا ہے اور ان کھوکھلے رشتوں میں بعض لوگ مادیت کا رنگ بھر کر سکون تلاش کرنے کے درپے ہیں جو ممکن نہیں ہے ۔ ایسے میں ہمیں ضرورت ہے خود کو اس کشتی تک پہنچائیں جو کشتی نجات ہے ۔
عصر غیبت اور بحران کا شکار دنیا :
عصر حاضر میں جسے عصر غیبت کہا جاتا ہے معاشرے کے لوگ مختلف قسم کی بیماریوں اور ثقافتی و مذہبی یلغاروں کا سامنا کر رہے ہیں ، شناخت کا بحران اپنے مختلف زاویوں سے معاشرے کو بے کل کر رہا ہے انسانی خواہشات کا غیر منطقی انداز میں پورا ہونا درونی میلانات کی نا جائز طریقے سے تسکین ، غلط عقائد و نادرست افکار ،روحانی آشفتگی کے مسائل انسان کی سرگردانی نفسیاتی مسائل ڈش و ٹی وی کی تخریبکاریاں ،منشیات کی معاشرے میں بہتات ،دنیاوی زرق برق ، رفاہی و مادی اور اقتصادی ارتقاء پر منحصر سوچ یہ سب کے سب ایسے محرکات ہیں جن سے لوگ جوجھ رہے ہیں ، ان تمام انحرافات نے انسان کو اس مقام پر پہنچا دیا ہے جہاں پر زندگی کی لائن نظر ہی نہیں آتی ہے حقیقی زندگی کا خط محو ہوتا جا رہا ہے اور انسان زندگی کو لیکر ادھر ادھر سرگرداں ہے ، جہاں تک انحراف کی بات ہے تو انحراف عام معنوں انحراف کا ہر قسم کی ایسی کارروائی اور عمل کوشامل ہے جو معاشرے کے قبول شدہ اصولوں کے مطابق نہیں ہیں ، بلکہ ان اصولوں اور قدروں کے ٹوٹنے کا سبب ہیں جنہیں معاشرے میں اعتبار حاصل ہے ۔ سماجی انحرافات کی روک تھام ان حلوں میں سے ایک ہے جو اس میدان میں بنیادی کردار کا حامل ۔ ایسے معاشرے میں دو طرح کے لوگوں سے سامنا ہوتا ہے
پہلی قسم کے لوگ :
پہلی قسم کے لوگ وہ ہیں جو اس راستے پر چل رہے ہیں جس پر مسلسل ثقافتی یلغار ہو رہی ہے یہ وہ لوگ ہیں جو شناخت کے بحران کا شکار ہیں، ان سب کے لئے ضروری ہے کہ انہیں حقیقی حیات کے اصول سکھا ئے جائیں انہیں بتایا جائے کہ پاکیزہ زندگی کیسے گزاری جاتی ہے تاکہ یہ لوگ توحید کی مرکزیت کے ساتھ اعمال صالحہ کی انجام دہی سے اس زندگی کو سجا سکیں اور انکی فکر و انکے کردار کی اصلاح ہو سکے نتیجہ میں انہیں چین و سکون میسر ہو سکے اور یہ لوگ امام زمانہ عجل اللہ تعالی فرجہ الشریف کے سپاہی کہلائے جا سکیں ۔
دوسری قسم :
ان مذہبی لوگوں کی ہے جو توحید پر یقین بھی رکھتے ہیں عمل صالح بھی انجام دیتے ہیں لیکن ان کی زندگی میں ثبات نہیں ہے مستقل مزاجی نہیں ہے پل میں ماشہ پل میں تولہ ہیں ان لوگوں کو یاد دہانی کراتے رہنے کی ضرورت ہے کہ دین برحق احکام کے سلسلہ سے پابند رہیں ثابت قدم رہیں اور ظہور امام زمانہ عجل اللہ تعالی فرجہ الشریف کی فضا کو فراہم کریں ۔
اسلام میں حوصلہ افزائی کے وسائل تنبیہ ، بشارت و انذار یہ سب کے سب وہ چیزیں ہیں جن سے ان انحرافات کے مقابلے میں مدد لی جا سکتی ہے علامہ مجلسی نے بحار الانوار میں نقل کیا ہے کہ جناب عیسی نے فرمایا: وہ شخص ملکوت تک نہیں پہنچتا ہے جو دو بار نہ جنا گیا ہو اس روایت سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ حیات طیبہ کا لازمہ یہی ہے کہ انسان زندگی میں دو بار اس دنیا میں قدم رکھے ، انسان کے لئے ضروری ہے کہ دنیاوی زندگی میں پہلے اس جہان فانی میں آنکھ کھولے اس پر معنوی گوشت و پوست چڑھے تاکہ مطلوبہ حیات تک پہنچ سکے مطلوبہ حیات بھی ہر حیات نہیں وہ حیات جو انسان کے لئے رکھی گئی ہے جسے حیات طیبہ کہا جاتا ہے ، حیات طیبہ انسان کو تمام انحرافات سے نجات دینے کا سبب ہے اور یہ ایسی زندگی ہے جو انسان کی اتار چڑھاو والی زندگی کو چین و سکون سے سرشار زندگی میں بدل دیتی ہے
تفاسیر کے مطابق حیات طیبہ اسی دنیا میں ظہور پذیر ہو جاتی ہے اس بات کو ثابت کرنے کے لئے جو دلیل مفسرین نے پیش کی ہے وہ یہ ہے حیات طیبہ کا جس آیت میں تذکرہ ہے اس کے دوسرے حصے میں ارشاد ہوتا ہے «وَ لَنَجْزِیَنَهُمْ أَجْرَهُمْ بِأَحْسَنِ ما کانُوا یَعْمَلُونَ»
اسکا مفہوم یہ ہے کہ جو بھی صاحب ایمان ہو اور عمل صالح انجام دے خدا دنیا میں اسے حیات طیبہ عطا کرے گا اور آخرت میں جو کچھ بھی اس نے کیا ہے اس کی بہترین جزا سے نوازے گا قرآنی آ یات کے مطابق لقاء پروردگار حیات طیبہ کا سب سے بڑا مصداق ہے
سوره مبارکه کهف آیه 110: «فَمَن کاَنَ یَرْجُواْ لِقَاءَ رَبِهِ فَلْیَعْمَلْ عَمَلًا صَالِحًا وَ لَا یُشْرِکْ بِعِبَادَةِ رَبِهِ أَحَدَا». ، کے ذٰیل میں علامہ طبا طبائی لکھتے ہیں : لیکن اس بات پر توجہ کرتے ہوئے کہ اس سے قبل اللہ کی بنحو احسن و بہترین جزا کی بات ہوئی ہے تو اسی سے یہ نتیجہ اخذ ہوتا ہے کہ یہ دنیا کی پاکیزہ زندگی سے جڑی ہوئی بات ہے یعنی یہ پاکیزہ زندگی وہ ہوگی جو دنیا میں عطا ہوگی جبکہ جزائے احسن آخرت سے متعلق ہے اب جسے بھی لقاء پروردگار کی امید ہو اس کے لئے ضروری ہے کہ نیک و شایستہ عمل انجام دے اور پروردگار کی عبادت میں کسی کو شریک قرار نہ دے۔
یہ جو ہمارا دور ہے ایک طرف تو یہ دنیاوی لذتوں کے دلدل میں دھنستے جانے کا دور ہے تو دوسری طرف میڈیا کے انحراف کا ایسے میں حیات طیبہ کی تلاش و جستجو انسان کو زمانے کی پلیدگیوں سے بچاتی ہے اس زندگی نے زمانے کی آلودگیوں کو مٹا کر بشریت کے لئے ایسی زندگی رقم کی ہے جس میں چین ہی چین ہے سکون ہی سکون ہے ۔
امام زمانہ عجل اللہ تعالی فرجہ الشریف کے ظہور کا عقیدہ فرد و معاشرے کو سالم بنانے کے لئے ہے حتی فریقین کی روائی اور اعتقادی مآخذ میں بہت سی ایسی روایات ہیں جو اسی بات کی ترجمانی کرتی ہیں کہ ظہور کے بعد معاشرے میں وہ بیماریاں نہیں رہیں گی جو ظہور سے پہلے تھیں اور عصر ظہور میں معاشرہ ایک صحت مند و سالم معاشرہ ہوگا ان روایات کے مطابق عصر ظہور میں ایسے واقعات رونما ہوں گے جو شدید ترین فتنوں کو اپنے دامن میں لئے ہوں گے لیکن امام زمانہ عجل اللہ تعالی فرجہ الشریف کی حکومت کے بعد یہ فتنے برطرف ہو جائیں گے اور کائنات میں انسانیت اپنے پورے وجود کے ساتھ نکھر کر سامنے آئے گی اور زمین پر انسان کی زندگی میں ایک انقلاب آ جائے گا۔
اب یہ ہماری ذمہ داری ہے کہ عصر ظہور سے پہلے پہلے ہم کوشش کریں اپنے معاشرے کی رائج بیماریوں کو جتنا ہو سکے دور کر سکیں ، زندگی کو مقصد کا جامہ پہنا سکیں ہوا کے رخ پر زندگی کی ناو کو نہ چلنے دیں بلکہ کوشش کریں دین کی پتوار باندھ کر دینی نقطہ نظر کو اختیار کرتے ہوئے آگے بڑھیں کہ ظہور امام زمانہ عجل اللہ تعالی فرجہ الشریف سے قبل ہم خود کو یہ سوچ کر تباہ نہ کر بیٹھیں کہ جو کرنا ہے وہ امام عجل اللہ تعالی فرجہ الشریف آکر خود ہی کریں گے ہم کیا کر سکتے ہیں ، مسلسل دشمن کے حملے ہم پر ہو رہے ہیں کیا ہم اپنی نسل کو دشمن کے حملوں کی زد پر چھوڑ دیں کہ امام ع آکر خود ہی دیکھیں گے جو ہم سے ہو سکتا ہے تو ہم اتنا تو کریں گے تاکہ جس قدر ہو فساد کو روکا جا سکے ۔
دوسرے لوگ آج اس مادیت کے طوفان میں سرگرداں ہیں بشریت حیران و پریشان ہے یہ حقیقت ہے کسی کو منزل نظر نہیں آ رہی ہر ایک اپنے ہی وجود کا چکر لگاتا نظر آ رہا ہے لیکن ذرا ہم سوچیں کہ ہم میں اور دوسروں میں کوئی فرق ہے یا نہیں ہے ہمارے سامنے کیا اتنی ہی تاریکی ہے جتنی اور لوگوں کے سامنے ہے ہرگز نہیں ایک طرف تصور مہدویت کا اجالا ہے جو ہمیں کشتی نجات میں سوار ہونے کی دعوت دے رہا ہے تو دوسری طرف قرآنی تعلیمات کے رہ گشا اصول اب یہ ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم خود اپنے وجود کو انجماد سے نکال کر آگے بڑھیں اور اپنے دینی بھائیوں کو بھی آگے بڑھنے کی ترغیب دلائیں جتنا ہو سکے معاشرے میں سدھار لانے کی کوشش کریں جتنا ہو سکے اصلاح معاشرہ میں حصہ لیں یقینا ہمارا یہ کام اپنے امام عج کے ظہور کی فضا کے ہموار بنانے کا سبب ہوگا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تبصرہ کریں