ماہ شعبان المعظم اور ہم

یقینا ہم اس مبارک مہینے میں جہاں اس بات کی کوشش کریں گے کہ اللہ سے خود کو نزدیک کریں وہیں یہ کوشش بھی ہونا چاہیے کہ اللہ کی مخلوق کے کام بھی آ سکیں اس لئے کہ خلق خدا کی خدمت کے بغیر خلق خدا کو فائدہ پہنچائے بغیر ہم خدا تک نہیں پہنچ سکتے ہیں ۔

فاران تجزیاتی ویب سائٹ: آپ نے اکثر ایسے ساحلوں کو دیکھا ہوگا جہاں بڑی کشتیاں لنگر انداز نہیں ہو پاتی ہیں بڑی کشتیوں کے پورٹ ہر جگہ نہیں ہوتے انہیں گہرے پانی کی ضرورت ہوتی ہے وہ ہر ساحل پر لنگر انداز نہیں ہو سکتیں اس لئے کچھ سمندروں کے ساحلوں پرچھوٹی چھوٹی کشتیاں ہوتی ہیں چھوٹی چھوٹی بوٹس ہوتی ہیں جن میں سوار ہو کر لوگ سمندر کے اندر گہرے پانی میں کھڑے بڑے بڑے جہازوں میں سوار ہوتے ہیں یہ جہاز پھر انسان کو اس کی منزل تک پہنچاتے ہیں ، انسان جہاز تک پہنچتا ہے تاکہ یہ جہاز منزل تک پہنچا دے ان جہازوں تک پہنچنے کے لئے بھی اسے چھوٹی کشتیوں کی ضرورت ہوتی ہے جو انسان کو خیریت کے ساتھ اس بڑے جہاز تک پہنچا دیتی ہیں ان کے رول کو کسی منزل پر پہنچنے کے بعد بھلایا نہیں جا سکتاہے ، عبودیت کے سمندر میں ماہ مبارک رمضان کی کشتی لنگر انداز ہے لیکن اس کشتی تک پہنچنے کے لئے ہمیں ضرورت ہے کہ شعبان کی کشتی میں پہلے سوار ہوں تاکہ ماہ رمضان کے بندگی کے عظیم المرتبت جہاز میں سوار ہو سکیں خدا کا شکر ہے کہ ہم ماہ مبارک رمضان کی دہلیز پر بیٹھے ہیں، ماہ شعبان مقدمہ ماہ مبارک رمضان ہے، یہ بہت ہی عظیم المرتبت مہینہ ہے واحد وہ مہینہ ہے جس میں ہمارے ائمہ طاہرین علیھم السلام میں سے کسی کی شہادت واقع نہیں ہوئی ہے ، صرف اتنا ہی نہیں یہ وہ مہینہ ہے جس میں ایسی شخصیتوں نے اس دنیا میں ظاہری آنکھیں کھولی ہیں جو قافلہ انسانیت کا افتخار ہیں جو آبروئے انسانیت ہیں ۔ یہ وہ مہینہ ہے جو پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے منسوب ہے ، وہ تمام مومنین کرام جو ماہ مبارک رمضان کا انتظار کر رہے ہیں ان سب کے لئے یہ مہینہ تیاری کا مہینہ ہے اسی لئے اس مہینہ کو ہم مقدمہ ماہ رمضان کہہ سکتے ہیں ماہ مبارک رمضان کی برکتوں سے استفادہ کے لئے اللہ کے خاص بندے ماہ شعبان سے ہی بلکہ اس سے پہلے سے تیاری شروع کر دیتے ہیں چونکہ یہ وہ مہینہ ہے جو ماہ مبارک رمضان کی دہلیز ہے انسان بغیر دہلیز کو عبور کئے گھر میں قدم نہیں رکھ سکتا ، اب جس نے دہلیز کو اچھی طرح عبور کیا اس کے لئے عظیم معنوی ضیافت کا اہتمام ہے ۔ اگر کسی نے محض روزہ رکھنے پر ہی اکتفا کیا تو اس نے اللہ کے عظیم معنوی سمندر سے کچھ بہت کم پر اکتفا کیا ہے ، حقیقت میں ماہ مبارک کے کمالات سے استفادہ تو اس نے کیا ہے جس نے روزے کے ساتھ ساتھ خود کو غفلت سے بچایا ہے ۔
اہل فکر و شعور اور خدا کی طرف بازگشت :
جو لوگ فکر و شعور کےحامل ہیں ہر وقت اس فکر میں رہتے ہیں کہ ایک پل کے لئے بھی ان کا رابطہ انکے مالک سے منقطع نہ ہو اگر غفلت کی وجہ سے کہیں ایسا ہو بھی جائے تو انکا ہم و غم یہی رہتا ہے کیسے اپنے رب کی طرف پلٹ آئیں وہ کبھی اپنے مقصد حیات سے غافل نہیں رہتے
پروردگار نے قرآن کریم میں جہاں اس بات کو پیش کیا ہے کہ نادان اور دانا ایک جیسے نہیں اور صاحبان فکر و نظر کو ٹہوکا دیا ہے انہیں مقصد حیات کی طرف متوجہ کیا ہے تو صرف پڑھے لکھے یا جاہلوں کا تقابل نہیں کیا ہے بلکہ علم کو عمل سے جوڑ کر اس بات کو بیان کیا ہے کہ جو صاحبان فکر و دانش ہیں وہ کس طرح اللہ کی عبادت میں مشغول رہتے ہیں ۔
امیر المومنین علی ابن ابی طالب علیہ السلام نے بھی اللہ کے ایسے بندے کو جو اپنے علم کو اپنے فہم کو اپنی فکر کو اللہ کی عبادت کی راہ میں استعمال کرتا ہے دنیا وی تعلقات سے خود کو رہا کر کے خدا تک پہنچتا ہے اس طرح پیش کیا ہے ’’ مالک میں تیری طرف بھاگ آیا اور تیرے سامنے بے چارگی و تضرع کے عالم میں کھڑا ہوں ‘‘
مناجات شعبانیہ اور عبد و معبود کے درمیان گفتگو:
بہت خوبصورت انداز میں مولا مناجات شعبانیہ میں ایک بندے کی جانب سے معبود کے سامنے اس کے عشق کا اظہار کرتے ہیں :
’’مالک اگر تو مجھے جہنم میں بھی ڈال دے گا تو وہاں بھی میں چیخ کر کہوں گا میں تجھ سے محبت کرتا ہوں‘‘ اپنی کوتاہی کے اعتراف کے ساتھ اس بندے کا کیا کہنا جو رب کے حضور آواز دیتا ہے ’’ پروردگار اگر میری غلطیوں نے مجھے تیری نظر میں گرا دیا اور کہیں کا نہیں رکھا ہے تو تو میرے حسن اعتماد وتوکل کی بنیاد پر ان غلطیوں سے صرف نظر فرما جو میں نے انجام دی ہیں ‘‘
یہ انداز دعاء دیکھیں یہ تضرع زاری دیکھیں خوشابحال جو اس انداز سے مناجات پڑھ کر خود کو ماہ رمضان کے لئے آمادہ کرتے ہیں اب ہم سوچیں اگر ہم نے ابھی تک اپنے آپ کو تیار نہیں کیا تو ہم کہاں ہیں ؟ رجب گزر گیا اپنا محاسبہ کریں رجب کے مہینے سے ہم نے کیا حاصل کیا ؟
ہم سوچیں رجب گزر گیا تو ہمارے سروں پر کوئی جوں بھی رینگیں یا نہیں ؟ اب تک ہم نے رجب سے کچھ حاصل نہیں کیا تو اب جاگ جائیں ہمارے سامنے ماہ شعبان کی برکتیں ہیں یہ مہینہ استغفار کا مہینہ ہے پیغمبرص کا مہینہ ہے روایت میں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا: یہ مہینہ میرا مہینہ ہے جو اس مہینہ میں میری مدد کرے خدا اس کی مدد کرے گا اس پر رحم کرے گا ، اب اگر کسی نے کوتاہی کی ہے اور دل سے پشیمان ہے رنجیدہ ہے اسے اپنے کئے پر پچھتاوا ہے تو کریم پروردگار اس کے گناہوں کو دھونے کے لئے اسے دریای رحمت کا حصہ بنانے کے لئے آمادہ ہے بس ہم سے اس کا مطالبہ یہی ہے کہ استغفار کے ذریعہ توبہ کے ذریعہ اس کی مدد کریں۔
یقینا اگر کوئی اپنے وجودکو آمادہ کرے گا شعبان کی معنویت سے بہر مند ہونے کے لئے تو اسکا انداز بھی مولائے کائنات ع کی طرح ہوگا کہ آپ نے فرمایا:’’ خدا کی قسم جب سے منادی نے دیا دی شعبان کے روزے کے سلسلہ سے مجھ سے کوئی روزہ ترک نہیں ہوا اور جب تک زندہ ہوں یہ روزہ مجھ سے چھوٹے گا بھی نہیں‘‘
مناجات شعبانیہ کے سلسلہ سے امام خمینی رضوان اللہ تعالی علیہ کا یہ فکر انگیز بیان قابل غور ہے جس میں آ پ نے فرمایا:
ماہ شعبان میں جس انداز سے مناجات ہے مجھے نہیں ملا کسی اور جگہ بھی دعاء میں اس انداز سے کہا گیا ہو ، یہ دعاء سب کی دعاء ہے یہ مناجات شعبانیہ تمام ائمہ طاہرین کی دعاء ہے اس میں بہت سے معارف ہیں ا سمیں وہ ادب سکھایا گیا ہے کہ اپنے معبود سے کیسے ہم کلام ہوا جائے ، بتایا گیا ہے کہ اپنے رب سے کیسے مناجات کی جائے ہم اس کے معنی سے غافل ہیں ہو سکتا ہے بعض نادان اور جاہل لوگ سوچیں یہ دعائیں بس یوں ہی بیان ہو گئی ہیں ائمہ نے ہمیں سکھانے کے لئے ایسا انداز اختیار کیا ہے ، نہیں ایسا نہیں ہے بات یہ ہے کہ یہ خدا کے سامنے کھڑے ہیں اور جانتے ہیں کس عظیم ہستی کے سامنے کھڑے ہیں ؟ انہیں پتہ ہے کس طرح رب کے سامنے حاضر ہونا چاہیے ضرورت ہے اس مناجات کی شرح ہو ۔
یہ مناجات یہ عبادتیں یہ دعائیں یہ سب اس لئے ہیں کہ انسان اپنے وجود کی حقیقت تک پہنچے سمجھے کہ وہ اپنے مالک کا بندہ ہے بندہ اسی وقت مطمئن ہو کر جی سکتا ہے جب اس کا معبود اس سے راضی ہو ہم سب کو سوچنے کی ضرورت ہے کہ اس ماہ شعبان میں ہم کس حد تک اپنے رب کی رضا کے حصول میں کوشان ہیں ؟ یہاں پر یہ بات بہت اہم ہے کچھ لوگ اوپری دل سے دعاء تو پڑھ لیتے ہیں کہ انہیں ثواب چاہیے تو دعاء بھی ایک حصول ثواب کا ذریعہ ہے لیکن وہ گہرائی میں نہیں اتر پاتے نتجہ یہ ہوتا ہے کہ حقوق ناس کی منزل میں وہ بڑے مجرم رہتے ہیں ،
ہمارے معاشرے میں ایک بڑی بیماری یہ ہے کہ انسان مسجد میں جا کر بہت بڑا نمازی ہے مصلے پر بہت بڑا اللہ کا نیک بندہ ہے لیکن گھر میں معاشرے میں اللہ کے دوسرے بندوں کے ساتھ بالکل درندہ بھیڑیا ہے ، وہ دعاء ہی کیا جو انسان کے وجود سے درندگی کو ختم نہ کر سکے وہ مناجات ہی کیا جس کے بعد انسان اللہ کے دوسرے بندوں کے درد کو محسوس نہ کر سکے ، وہ عبادت ہی کیا جس کے بعد بھی انسان صرف اپنی ذات کے بارے میں سوچتا رہے ، کیسے اپنا بینک بیلنس بڑھاوں کیسے اپنے گھر کی چہار دیواری چوڑی کروں کیسے اپنا کاروبار پھیلاو ں کیسے اپنے بچوں کی تعلیم کا سامان کروں ، کیسے انہیں اعلی تعلیم اعلی عہدوں تک پہنچاوں ؟ ہر جگہ بس میں اور میں اگر یہی ہے تو انسان نے کیا حاصل کیا ہے وہ شعبان کے مہینے میں ماہ رحمت پروردگار کی دہلیز پر ضرور ہے لیکن ابھی اپنے وجود کی میں سے نہیں نکل سکا تو ایسے انسان کو کیا حاصل ہونے والا ہے ؟۔ آپ ملک کے حالات کو دیکھیں معاشرے کے حالات کو دیکھیں غریبوں کو تڑپتا دیکھیں امیروں کی موج مستیوں کو دیکھیں اس کے بعد آپ کے دل میں مظلوموں کے لیئے کوئی تڑپ پیدا نہ ہو غریبوں کا درد پیدا نہ ہو تو کیا حاصل ہے ؟
ملک میں جو کچھ بھی ہو رہا ہے اس کے تئیں ہر ایک انسان ذمہ دار ہے ، ہر ایک کو سوچنے کی ضرورت ہے کہ ملک کی ترقی میں اس کا کردار کیا ہے ؟ اگر ملک ترقی نہیں کر پارہا ہے تو سبب کیا ہے ؟ ہم کونسی مشکل کو حل کر سکتے ہیں ہر کے لئے ضروری ہے کہ معاشرے پر ایک نظر ڈالے اور سوچے کہ معاشرے کی تنزلی کے اسباب کیا ہیں ؟ کیوں ایک غریب اپنے بچے کی پڑھائی کو لیکر در در کی ٹھوکریں کھانے پر مجبور ہے کیوں ہمارے یہاں روز بروز علمی زوال بڑھتا جا رہا ہے ؟ یہ وہ باتیں ہیں جن پر غور کرنا بھی عبادت ہی ہے ۔ یقینا ہم اس مبارک مہینے میں جہاں اس بات کی کوشش کریں گے کہ اللہ سے خود کو نزدیک کریں وہیں یہ کوشش بھی ہونا چاہیے کہ اللہ کی مخلوق کے کام بھی آ سکیں اس لئے کہ خلق خدا کی خدمت کے بغیر خلق خدا کو فائدہ پہنچائے بغیر ہم خدا تک نہیں پہنچ سکتے ہیں ۔