ماہ محرم، تقدس، تقاضے اور ذمہ داریاں

فاران تجزیاتی ویب سائٹ: امام خمینیؒ نے فرمایا تھا کہ “میں سلام کرتا ہوں ان ہاتھوں کو جو غم حسین ؑ میں اُٹھتے ہیں، یہ ہاتھ (ماتمی) جوانوں کے سینوں پر نہیں بلکہ استعمار کے منہ پر طمانچہ ہیں۔” پوری دنیا کی طرح اسلامی جمہوریہ پاکستان میں بھی “ہر ظالم کے دشمن اور مظلوم کے مددگار […]

فاران تجزیاتی ویب سائٹ: امام خمینیؒ نے فرمایا تھا کہ “میں سلام کرتا ہوں ان ہاتھوں کو جو غم حسین ؑ میں اُٹھتے ہیں، یہ ہاتھ (ماتمی) جوانوں کے سینوں پر نہیں بلکہ استعمار کے منہ پر طمانچہ ہیں۔” پوری دنیا کی طرح اسلامی جمہوریہ پاکستان میں بھی “ہر ظالم کے دشمن اور مظلوم کے مددگار بنو” کا درس اپنے امام اول اور عدالت علوی کا طرۂ امتیاز رکھنے والے امیر المومنین حضرت علی ؑ سے حاصل کرنے والے شیعیان علی ابن ابی طالب ؑ بالخصوص اور محبان اہلبیت علیہم السلام بالعموم عزاداری کی مجالس و محافل اور جلوس ہائے عزاداری کا انعقاد جاری رکھے ہوئے ہیں اور یہ مجالس اور جلوس، جہاں 61 ہجری کے یزید کے مظالم اور اس کی اسلام کے خلاف ناپاک سازش کا پردہ چاک کرتے ہیں کہ جس نے قتل امام حسین علیہ السلام کے بعد واشگاف الفاظ میں یہ اعلان کیا کہ “نہ کوئی وحی نازل ہوئی اور نہ کوئی رسول آیا” اور مختلف غزوات میں لشکرِ رسول خدا ؐ خصوصاً امیر المومنین علی ابن ابی طالب کے ہاتھوں جہنم رسید ہونے والے اپنے آباء و اجداد کو مخاطب کرکے کہا کہ کاش وہ زندہ ہوتے اور دیکھتے کہ کیسے میں نے ان کا بدلہ لے لیا۔

یزید جب تخت نشین ہوا تو اس کا کردار اور اس کے جرائم ڈھکے چھپے نہیں تھے، لیکن اس کے باوجود مختلف وجوہات کی بنیاد پر رفتہ رفتہ ملت اسلامیہ ایسے بے حسی کا شکار ہوتی گئی کہ اب یزید جیسے فاسق و فاجر کے برسر “خلافت” آنے کے باوجود وہ ٹَس سے مس نہ ہوئے بلکہ بے چوں و چرا اس کی بیعت کرتے چلے گئے۔ یہاں کسی شک و شبہ کی گنجائش نہیں رہتی کہ اگر تمام عالم اسلام بالخصوص فرزند رسول اور سردار جوانان جنت امام حسین ؑ نعوذ باللہ، یزید کی بیعت کر لیتے یا حتیٰ بیعت نہ کرتے بلکہ صرف خاموشی ہی اختیار کر لیتے تو تخت نشین بنو امیہ کا یہ ناپاک منصوبہ اگلے چند برسوں میں کامیاب ہو جاتا کہ اسلام اور کلمۂ محمد کا شاید نام و نشان بھی نہ رہتا، لیکن “وہ شمع کیا بجھے جسے روشن خدا کرے” کے مصداق امام حریت و آزادی امام حسین علیہ السلام نے اول روز جب انہیں کسی بھی طرف سے بھی نہ خط آئے تھے اور نہ ہی حمایت کا یقین دلایا گیا تھا “مثلی لا یبایع مثلہ”، “مجھ جیسا، اس جیسے کی بیعت نہیں کرسکتا” کا نعرہ بلند کر دیا۔

اگلے ہی لمحے اپنے اہلبیتؑ کے ساتھ عملی طور پر “خلافتِ یزید” کے خلاف جدوجہد کا آغاز کرتے ہوئے عازم مکہ ہوئے اور فرمایا “میں شر و فساد کیلئے نہیں نکل رہا، میں امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کرنا چاہتا ہوں، میں اپنے جدِ رسول خدا ؐ اور اپنے بابا امیر المومنین ؑ کی سیرت کا احیاء کرنا چاہتا ہوں” اور ساتھ ہی اس تحریک میں شرکت کی دعوت عام بھی دے دی۔ بعد کے حالات نے ثابت کیا کہ وسیع و عریض عالم اسلام میں سے صرف اہل کوفہ میں کچھ جنبش پیدا ہوئی اور انہوں نے 12 ہزار سے 18 ہزار کے درمیان خطوط امام عالی مقام کو لکھ کر اپنی طرف بلایا۔ اگرچہ یہ الگ بات ہے کہ اہل کوفہ کی اکثریت اپنے خطوط اور اپنے عہد و پیمان کا پاس نہ رکھ سکے بلکہ قتل امام حسین ؑ میں بھی شریک ہوئے۔ امام مظلوم کی مظلومانہ مگر شجاعانہ و دلیرانہ شہادت اور بعد ازاں حضرات امام زین العابدینؑ، زینب بنت علیؑ، اُم کلثوم بنت علی علیہم السلام کے خطبات اور حتیٰ ان کی اسارت اس بات کا باعث بنی کہ عالم اسلام میں جنبش بھی پیدا ہوئی اور یزید کے مکروہ چہرے کی کراہت مزید عیاں ہوگئی۔ پس وہ اپنے ناپاک ارادوں میں بری طرح ناکام ہوگیا۔ بقول شاعر
قتل حسین ؑ ، اصل میں مرگ یزید ہے
اسلام زندہ ہوتا ہے ہر کربلا کے بعد

حضرت زینب بنت علی علیہما السلام نے دربار یزید میں کہا تھا کہ “کوئی ہماری یاد، دلوں سے محو نہیں کرسکتا” واقعہ کربلا کے دلخراش، دلسوز اور ظاہراً یزیدی حکومت کی عظیم فتح کے بعد کے یہ جملے بنت زہرا ؑ کے اس ملکوتی اور الہیٰ مقام و بصیرت کا پتہ دیتے ہیں اور اس کی حقانیت آج پوری دنیا دیکھ رہی ہے۔ یہ عزاداری، واقعہ کربلا کی برسی نہیں ہے، یہ جلوسہائے عزا صرف 10 محرم 61 ہجری کو ہونے والے عظیم سانحے کا نوحہ نہیں ہیں، ہاں اس واقعہ نے اہلبیت علیہم السلام کے چاہنے والوں کے دل خون کر دیئے ہیں اور نام حسین ؑ، کربلا، شام اور زینبؑ عاشقان و محبان اہلبیتؑ کے آنسو رواں کرنے کیلئے کافی ہیں، لیکن کربلا کی وراثت صرف غم حسین ؑ نہیں ہے بلکہ عزم حسینؑ بھی ہے۔ پیغام حسین ؑ بھی ہے، انقلاب حسین ؑ بھی ہے، جس کی روح بندوں کو، بندوں کی غلامی سے نکال کر صرف خدائے واحد کی بندگی میں لے جانا ہے کہ جہاں سب کچھ لٹانے کے بعد بھی “راضیً برضائہ و تسلیماً لامرہ” اس کی رضا میں راضی اور حکم خدا کے آگے تسلیم کا جذبہ اور حوصلہ ملتا ہے۔

یہ مجالس اور جلوس ہائے عزا اسی عزم و مشن اور انقلاب حسین ؑ کو آگے لے جانے کا نام ہے۔ اس کے ساتھ تمسک کرکے ہر دور کی یزیدی اور ظالم طاقتوں کو للکارنے کا نام ہے۔ عظمت انسان کو بحال کرنے کا اعلان ہے، خدا کی زمین پر خدا کا نظام نافذ کرنے کا عزم و ارادہ ہے۔ ہمارا یہ دعویٰ، صرف زبانی جمع خرچ نہیں ہے بلکہ بانیٔ انقلاب اسلامی ایران امام خمینی کے وہ الفاظ زندہ و تابندہ ہیں کہ “ہمارے پاس جو کچھ بھی ہے، وہ محرم و صفر کی بدولت ہے۔” پتہ چلا کہ محرم و صفر کی مجالس و جلوس و ماتم و نوحہ خوانی کے اندر اتنی طاقت اور اتنا پوٹینشل موجود ہے کہ وہ وقت کی بڑی سے بڑی شیطانی طاقت اور اس کے پٹھو حکمرانوں کا تختہ بھی اُلٹ سکتی ہے اور دنیا کی تمام مخالفتوں اور پابندیوں کے باوجود ترقی و استحکام کے راستے پر چلتے ہوئے اپنے پیغام کو دنیا کی تمام مستضعف اقوام تک پہنچا سکتی ہے۔ پتہ چلا کہ عزاداری کربلا بپا کرنے کا نام ہے، صرف کربلا کی یاد آوری نہیں ہے۔

عزاداری امام حسین علیہ السلام میں موجود اس قوت و طاقت کا مشاہدہ کرتے ہوئے اگر آج اسلام کے نام پر قائم ہونے والی سرزمین پر کونے کھدروں سے عزاداری کے جلوسوں پر پابندی لگانے کی باتیں ہو رہی ہیں تو یہ امر باعث تشویش ضرور ہے، باعث حیرت نہیں۔ پوری دنیا میں امریکہ اور استعماری طاقتوں کی بی ٹیم بن کر اسلام کے نام پر دہشت گردی و فرقہ واریت اور تکفیریت پھیلاتے میں مشغول ٹولہ چاہے القاعدہ کے نام سے ہو یا طالبان تحریک یا کالعدم سپاہ یزید کے نام سے، ان کی طرف سے ایسے مطالبات بعید نہیں ہیں۔ البتہ ضرورت اس امر کی ہے کہ محبان و پیروان اہلبیت علیہم السلام، شیعہ اور سنی اپنے اتحاد و یکجہتی کو مزید مضبوط کرتے ہوئے پہلے کی طرح بلکہ اس سے بڑھ کر عزاداری کا انعقاد بھی کریں اور اس میں جوق در جوق شریک بھی ہوں۔ اس کے ساتھ ساتھ عزاداری کے حقیقی پیغام کو بھی سمجھیں اور دوسروں تک پہنچائیں۔ عزاداری کے اسی پیغام حقیقی میں صرف مسلمانوں کی نہیں بلکہ پوری انسانیت کی فلاح پوشیدہ ہے۔

ہم یہاں پر وفاقی اور خصوصاً پنجاب سمیت تمام صوبائی حکومتوں پر بھی یہ واضح کر دینا چاہتے ہیں کہ دہشت گرد ٹولے، کالعدم گروہوں کے آگے بزدلوں کی طرح پسپائی اختیار کرنے کے بجائے اپنے فرائض منصبی و آئین کی پاسداری کریں اور جلوس ہائے عزاداری ہمارا آئینی حق ہے۔ تکفیریت اس ملک کے خلاف ایک بڑی سازش ہے، تکفیر جس کی بھی کی جائے، جس طرف سے بھی ہو، اس کی مذمت کی جائے اور ایسا کرنے والوں کو قانون کے مطابق کٹہرے میں لایا جائے، یہ اسلام، پاکستان اور عمومی سماج کیلئے زہر قاتل کی حیثیت رکھتی ہے۔ شیعہ اور سنی مل کر اس عفریت کے سامنے کھڑے ہو جائیں، جو مسلمانوں کے درمیان مسلکی بنیادوں پر تفریق پیدا کرنے اور امن و امان خراب کرنے کیلئے عرصہ سے سرگرداں ہیں۔ ان کی سازشوں کو ناکام بنانے کیلئے معتدل علماء اپنا مثبت کردار ادا کر رہے ہیں۔ عام عوام کو تکفیری نظریات رکھنے والوں کی بجائے معتدل، ہر ایک کیلئے قابل قبول نظریات پیش کرنے والوں کی راہ کو اپنانا چاہیئے۔

پاکستان شیعہ و سنی مکاتیب نے مل کے بڑی قربانیوں کے بعد حاصل کیا، جس کی حفاظت کی ذمہ داری بھی ایسے ہی نبھانے کی ضرورت ہے۔ اس پاک سرزمین کی حفاظت چاہے نظریاتی ہو یا جغرافیائی، اس کیلئے ذمہ دارانہ کردار ادا کرکے ہی محفوظ و مثالی مملکت بنائی جا سکتی ہے۔ قائد اعظم محمد علی جناح جو بانی پاکستان ہیں، ان کے نظریات، اقوال اور تقاریر نیز ان کا عمل و کردار روز روشن کی طرح عیاں ہے، جسے اختیار کرکے ہی اس ملک کی حفاظت کی جا سکتی ہے۔ اس ملک کو پچھتر برس ہوچکے ہیں، ہمیں اس ملک سے پیار ہے، چونکہ ہم نے اس کی بقا، سلامتی، استحکام، ترقی اور مضبوطی کیلئے بے حد زیادہ قربانیاں دی ہیں اور دے رہے ہیں تو ہم یہی چاہتے ہیں کہ سب طبقات، سنجیدہ جماعتیں، گروہ اور شخصیات مل کر اس کی حفاظت کیلئے میدان میں ہمارے ساتھ کھڑے ہوں۔

دشمنوں کی ہر سازش چاہے وہ قومیت کے نام پر ہو، علاقائیت کے نام پر، صوبائیت کے نام پر یا فرقہ واریت کے نام پر، قائد کے فرامین کی روشنی میں اسے جڑ سے اکھاڑ پھینکنا ہوگا، ہم یقین رکھتے ہیں کہ محبت و پیروی محمدؐ و آل محمدؐ اور ان کے مخلص و جان نثار اصحاب سے تمسک کی بدولت پاکستان امن و آشتی کا گہوارہ بن سکتا ہے، محرم الحرام وحدت و اخوت یکجہتی اور متحد ہونے کا بہترین موقع ہے، وہیں دنیا کے سامنے اس یکجہتی اور وحدت و اخوت کی طاقت دکھانے کا بھی بہترین موقع ہے۔ نواسہ رسول ؑ کے ذکر کی مجالس و محافل میں سب ہی کو شریک ہو کر تکفیریت کو شکست دینی چاہیئے، ان شاء اللہ تعالیٰ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

242