متحدہ عرب امارات پر انصاراللہ کا تیسرا حملہ

انصاراللہ یمن اب تک کئی بار سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کو الٹی میٹم دے چکی ہے کہ اگر یہ جارحیت بند نہیں کی گئی تو وہ جوابی کاروائی کا مکمل حق رکھتے ہیں۔

فاران؛ یمن کی مسلح افواج کے ترجمان یحیی سریع نے آج پیر 31 جنوری کی صبح صحافیوں سے بات چیت کرتے ہوئے اعلان کیا کہ یمن آرمی نے سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کی سربراہی میں جارح عرب اتحاد کی یمنی عوام پر مسلسل بمباری کا جواب دیتے ہوئے متحدہ عرب امارات کو تیسری بار ڈرون طیاروں اور بیلسٹک میزائلوں سے فضائی حملوں کا نشانہ بنایا ہے۔ یہ “طوفان یمن 3” آپریشن تھا جس سے پہلے دو بار ایسے آپریشن انجام دیے جا چکے ہیں۔ یحیی سریع نے بتایا کہ اس آپریشن میں ابوظہبی کے اہم مراکز کو بیلسٹک میزائلوں “ذوالفقار” اور ڈرون طیاروں “صمصاد 3” سے نشانہ بنایا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہمارے ڈرون طیارے اور میزائل ٹھیک نشانے پر لگے ہیں اور مطلوبہ اہداف کو نشانہ بنانے میں کامیاب رہے ہیں۔

متحدہ عرب امارات کی وزارت دفاع نے ہمیشہ کی طرح پہلے تو ان حملوں کا انکار کر دیا لیکن جب خود اماراتی شہریوں نے ہی ان حملوں کی ویڈیوز شائع کرنا شروع کیں تو اس کی تصدیق کرنے پر مجبور ہو گئی۔ اس کے باوجود اماراتی وزارت دفاع نے دعوی کیا ہے کہ انصاراللہ یمن کی جانب سے صرف ایک بیلسٹک میزائل فائر کیا گیا تھا جسے ہوا ہی میں مار گرانے میں کامیاب رہے ہیں۔ اسی طرح یہ دعوی بھی کیا گیا کہ اس میں کوئی مالی نقصان نہیں ہوا ہے اور فضا میں تباہ ہونے والے میزائل کا ملبہ آبادی سے باہر صحرائی علاقے میں گرا ہے۔ اس سے پہلے انصاراللہ یمن کے گذشتہ فضائی حملے کے ردعمل میں امارات نے دعوی کیا کہ اس نے انصاراللہ کے راکٹ لانچر تباہ کر دیے ہیں لیکن بعد میں معلوم ہوا کہ نشانہ بننے والی چیز کچھ اور تھی۔

میڈیا ذرائع کے مطابق انصاراللہ یمن کے فضائی حملوں کے بعد ابوظہبی ایئرپورٹ کی تمام فلائٹس معطل ہو گئیں۔ اسی طرح میڈیا ذرائع نے ابوظہبی میں کئی دھماکے سنے جانے کی تصدیق کی ہے۔ ابوظہبی پر انصاراللہ یمن کے حالیہ فضائی حملے کی اہم بات یہ ہے کہ یہ حملہ ایسے وقت انجام پایا ہے جب اسرائیل کی غاصب صہیونی رژیم کا صدر اسحاق ہرتزوگ متحدہ عرب امارات کے دورے پر آیا ہوا ہے۔ وہ کل ہی امارات آیا اور ابوظہبی کے ولیعہد محمد بن زاید اور مسلح افواج کے سربراہ سے ملاقات کی۔ ایک صہیونی اخبار اینٹلی ٹائمز نے اسحاق ہرزوگ کے دورہ ابوظہبی کا اصل مقصد متحدہ عرب امارات پر انصاراللہ یمن کے فضائی حملوں کی روک تھام بتایا ہے۔ اس عبری زبان میں شائع ہونے والے اخبار کے مطابق کل رات ہی دونوں سربراہان نے اس مسئلے پر گفتگو کی ہے۔

اینٹلی ٹائمز کے مطابق صہیونی رژیم اور متحدہ عرب امارات کے سربراہان کے درمیان انصاراللہ یمن کے فضائی حملوں کی روک تھام کیلئے موثر اقدامات انجام دینے کے بارے میں معاہدہ طے پا گیا ہے۔ اخبار نے اس بارے میں مزید تفصیلات بیان کرنے سے گریز کیا ہے۔ کچھ دن پہلے ہی “الخبر الیمنی” نامی نیوز ویب سائٹ نے یمن کی ملٹری انٹیلی جنس سے وابستہ ایک باخبر ذریعے کے بقول اعلان کیا تھا کہ متحدہ عرب امارات پر تباہ کن فضائی حملے کی منصوبہ بندی کی جا رہی ہے۔ نیوز ویب سائٹ نے کہا تھا کہ اس حملے میں امارات کے 50 اہم اور حساس مرکز کو نشانہ بنائے جانے کا امکان پایا جاتا ہے۔ اس رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ “سیل العرم” (العرم سیلاب) نامی اس آپریشن میں 300 کے قریب ڈرون طیارے، 50 بیلسٹک میزائل اور 46 کروز میزائل بروئے کار لائے جائیں گے۔

یاد رہے “العرم کا سیلاب” اس سیلاب کی جانب اشارہ ہے جس کا ذکر قرآن کریم کی سورہ سبا میں کیا گیا ہے اور وہ عذاب الہی کے طور پر قوم سبا میں آیا تھا۔ الخبر الیمنی نیوز ویب سائٹ کی اس رپورٹ میں مزید کہا گیا تھا کہ یمن کے اعلی سطحی سیاسی اور فوجی سربراہان اس آپریشن کی منظوری دے چکے ہیں اور بہت جلد یہ آپریشن “نفسیاتی جنگ” کے مرحلے سے عبور کر کے حقیقت کا روپ دھارنے والا ہے۔ یمن کے وزیر دفاع جنرل محمد العاطفی نے جمعہ کے روز اپنے انٹرویو میں بتایا: “عنقریب شروع ہونے والے نئے مرحلے میں دشمن کے مرکز میں واقع اسٹریٹجک فوجی اور اقتصادی مراکز کو تباہ کن حملوں کا نشانہ بنایا جائے گا۔ ہم ایسے مراکز کو نشانہ بنائیں گے جن کا دشمن تصور بھی نہیں کر سکتا اور یہ اقدام “یمن کے طوفان” آپریشن کے تحت یمنی عوام کا قانونی حق ہے۔”

سعودی عرب کی سربراہی میں جارح عرب اتحاد نے گذشتہ چند ہفتوں سے یمن کے مختلف شہروں میں عام شہریوں کو شدید فضائی حملوں کا نشانہ بنا رکھا ہے۔ انصاراللہ یمن اب تک کئی بار سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کو الٹی میٹم دے چکی ہے کہ اگر یہ جارحیت بند نہیں کی گئی تو وہ جوابی کاروائی کا مکمل حق رکھتے ہیں۔ حال ہی میں سعودی اور اماراتی طیاروں نے یمن کی ایک جیل کو بمباری کا نشانہ بنایا تھا جس کے نتیجے میں سینکڑوں قیدی جاں بحق اور زخمی ہو گئے تھے۔ یمن کے خلاف جارحیت کے دوران جارح سعودی اتحاد بارہا یمن کے انفرااسٹرکچر، اسپتالوں، اسکولوں، بازاروں اور عام شہریوں کو وحشیانہ بمباری کا نشانہ بنا چکا ہے۔ سعودی اتحاد کے ان جنگی جرائم پر اقوام متحدہ اور دیگر عالمی اداروں نے بھی مجرمانہ خاموشی اختیار کر رکھی ہے۔