مزاحمت کا منفرد کردار، سیدہ زینب سلام اللہ علیہا
فاران تجزیاتی ویب سائٹ: مزاحمت، مقاومت، حریت بنو ہاشم کا ورثہ ہے، جو ان کے ہر فرد میں کمال اوج تک ملتا ہے۔ وقت کے ظالموں، فرعونوں، غاصبوں، سفیانوں، یزیدوں سے ان کی جنگ تاریخ کے ہر ورق پر کہانیوں میں ملتی ہے۔ امام حسین ؑ نے یزید کے خلاف جو قیام فرمایا، اسے رہتی دنیا تک یاد رکھا جائے گا۔ اس قیام کا سب سے خوبصورت پہلو یہ ہے کہ اس میں شامل ہر کردار اپنے تئیں ایک منفرد مثال اور عمل رکھتا ہے، جسے اس کی انفرادیت اور خصوصیت سے یاد رکھا جاتا ہے، مگر سالار شہداء کا کردار ایسا ہے، جو سب پر حاوی ہے اور امام حسینؑ اس تپتے صحرا میں ایسے چمکے ہیں، ایسی تابناکی دکھائی ہے کہ انہیں سید الشہداء ہونے کا اعزاز حاصل ہوا۔ دوسری طرف دیکھیں تو امام حسین ؑ یعنی بھائی کے بعد اگر اس میدان میں عصر عاشور سے لیکر شام غریباں اور پھر کوفہ و دمشق کے بازاروں و درباروں میں مزاحمت و مقاومت کے اگلے تاریخی مرحلے میں اہم ترین کردار عقیلہ بنو ہاشم سیدہ زینب بنت علی ہیں، جنہیں تاریخ ایک شیر دل خاتون کے طور پہ بھی یاد رکھے ہوئے ہے۔
بچپن سے ہی بھائی کیساتھ گہری محبت رکھنے کے باعث ان کی شادی جب عبداللہ ابن جعفر سے ہوئی تو لکھا ملتا ہے کہ دیگر کچھ شرائط تو نہ تھیں، بس یہ شرط تھی کہ بھائی بہن کو چوبیس گھنٹے میں ایک بار ملنے دینا ہے اور جب امام حسین ؑ کبھی سیدہ کو سفر پہ لے جانا چاہیں تو روکیں گے نہیں، لہذا مدینہ چھوڑتے وقت اس وعدے کی تکمیل ہوئی۔ ثانیء زہراء کا کردار اس طرح کا ہے کہ ہم فقط ان کے مصائب اور مصیبتوں کو ہی ذکر کرتے ہیں، ورنہ ان کی سفر کربلا سے قبل بھی ایک زندگی ہے، بالخصوص ان کی زندگی زمانہ رسول ؐاور زمانہ امیر المومنینؑ کہ جب مولا ؑ نے کوفہ کو دارالخلافہ بنایا۔ ہمیں سیدہ کی زندگی کے ہر پہلو کو سامنے لانا چاہیئے، حضرت زینب (سلام اللہ علیہا) کی تاریخ ولادت کے بارے میں مختلف روایات پائی جاتی ہیں۔ ان میں سے معتبر ترین روایت کے مطابق آپ کی ولادت 5 جمادی الاول سن 6 ہجری کو مدینہ میں ہوئی۔
روایات کے مطابق جب پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سیدہ زینب سلام اللہ علیہا کی ولادت کے موقع پر علی علیہ السلام و سیدہ فاطمہ سلام اللہ علیہا کے گھر تشریف لائے تو آپ نے نومولود بچی کو اپنی آغوش میں لیا۔ اس کو پیار کیا اور سینے سے لگایا۔ اس دوران علی علیہ السلام و سیدہ فاطمہ سلام اللہ علیہا نے دیکھا کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اونچی آواز سے گریہ کر رہے ہیں۔ جناب فاطمہ س نے آپ (ص) سے رونے کی وجہ پوچھی تو آپ (ص) نے فرمایا: ”بیٹی، میری اور تمہاری وفات کے بعد اس پر بہت زیادہ مصیبتیں آئیں گی۔” روایات میں ملتا ہے کہ جب حضرت سیدہ زینب سلام اللہ علیہا کی ولادت مبارک ہوئی تو پیغمبر اعظم (ص) مدینہ میں نہیں تھے۔ لہذا حضرت سیدہ فاطمہ سلام اللہ علیہا نے حضرت امام علی علیہ السلام کو کہا کہ آپ اس بچی کیلئے کوئی نام انتخاب کریں۔ آپ نے جواب دیا کہ رسول خدا (ص) کے واپس آنے کا انتظار کر لیا جائے۔
جب پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سفر سے واپس آئے تو حضرت علی علیہ السلام نے انہیں یہ خوشخبری سناتے ہوئے کہا کہ اس بچی کا نام آپ انتخاب کریں۔ آپ (ص) نے فرمایا کہ اس کا نام خدا انتخاب کرے گا۔ اسی وقت جبرئیل نازل ہوئے اور خدا کی طرف سے یہ پیغام پہنچایا کہ ”خدا نے اس بچی کا نام ”زینب” رکھا ہے، جس کا مطلب ہے باپ کی زینت۔ تاریخ و سیرت کی کتب میں آئمہ طاہرین کی طرح آپ کے کچھ القابات بھی نقل ہوئے ہیں، جن میں معروف ثانیِ زہرا، عالمہ غیر معلمہ، نائبۃ الزھراء، عقیلہ بنی ہاشم، نائبۃ الحسین، صدیقہ صغریٰ، محدثہ، زاہدہ، فاضلہ، شریکۃ الحسین، راضیہ بالقدر والقضاء۔
روایات کے مطابق آپ اپنے ہمسر عبد اللہ ابن جعفر کے ہمراہ ؑ سفر شام کے دوران یکشنبہ 63ہجری کو شہادت سے ہمکنار ہوئیں اور وہیں دفن ہوئیں۔ ان کا مزار آج دنیا بھر کے عشاقان اہلبیت ؑ کیلئے مرکز رشد و ہدایت ہے، جو ایک ایسے کردار کی یاد دلاتا ہے، جسے ان کے بعد شاید ہی کوئی نبھا سکے، ہاں ان کا اسوہ و سیرت آج چودہ صدیاں گزر جانے کے بعد بھی نمونہ عمل ہیں۔ سب سے بڑھ کر سیدہ کے خطبات جنہیں تاریخ نے سنہرے حروف میں لکھا ہے، ان کو بار بار پڑھنے اور ان پر دقت و غور کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ خطبات قصر یزیدیت کو ہلا کر رکھ سکتے ہیں، وہ یزیدیت چودہ صدیوں پہلے کی ہو یا آج کے دور کی، بس ان پر دقت کرنا ہوگی۔
حضرت زینب سلام اللہ کے خطبات سے چند اقتباس
حضرت زینب سلام اللہ عبید اللہ بن زیاد کے دربار میں یوں گویا ہوئیں: “خدا کا شکر ہے کہ اس نے اپنے رسول ؐکے ذریعے ہمیں عزت بخشی اور گناہ سے دور رکھا، رسوا تو صرف فاسق ہوتے ہیں، جھوٹ تو صرف (تجھ جیسے ابن زیاد کو منہ توڑ جواب دیتے ہوئے اپنی دلیری کا یوں مظاہرہ کیا:) بدکار بولتے ہیں۔ الحمد للہ کہ ہم بدکار نہیں ہیں۔” بازار کوفہ میں کوفیوں سے خطاب کرتے ہوئے کیا کہا: “اے مکار، غدار، خائن کوفیوں! خدا کبھی تمہارے آنسوؤں کو خشک نہ کرے، تمہاری قسمت میں سوائے خدا کی ناراضگی اور عذاب دوزخ کے سوا کچھ نہیں، رؤو اور خوب رؤو چونکہ تمہارے نصیب میں صرف رونا ہی لکھا ہے، ذلت و خواری تمہارا مقدر بن چکی ہے، تم نے کام ہی ایسا کیا ہے کہ قریب ہے آسمان زمین پر آجائے، زمین پھٹ جائے، پہاڑ ٹکڑے ٹکڑے ہو جائیں، اگر خدا کا عذاب ابھی تم پر نہیں آیا اس کا یہ مطلب نہیں کہ تم محفوظ ہو، خدا عذاب کو (ہمیشہ) فوراً نہیں بھیجتا، لیکن ایسا بھی نہیں ہے کہ مظلوموں کو انصاف نہ دلائے۔” سیدہ کی فصاحت و بلاغت اور لب و لہجہ کا یہ حال تھا کہ ہر کوفی حیران تھا کہ کیا علی پھر دوبارہ آگئے ہیں۔ باپ اور بیٹی کے درمیان ایسی فکری اور لسانی شباہت تاریخ پیش کرنے سے قاصر ہے۔
خطبہ حضرت زینب یزید کے دربار میں:
خدا نے سچ فرمایا: کہ جن لوگوں نے برے اور گھناؤنے کام کئے، ان کی سزا ان لوگوں جیسی ہے، جنھوں نے الٰہی آیات کی تکذیب کی اور اس کا مذاق اڑایا۔ اے یزید کیا تو الٰہی فرمان کو بھول گیا (کہ خدا نے فرمایا) کافر خوش فہمی میں مبتلا نہ ہو جائیں، اگر ہم نے مہلت دے دی ہے تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ ہم ان کی بھلائی چاہتے ہیں؟ نہیں ہرگز ایسا نہیں ہے بلکہ ہم نے اس لئے انھیں مہلت دی ہے، تاکہ زیادہ سے زیادہ گناہ کرسکیں (اور آخر کار) سخت ترین عذاب میں گرفتار ہوں (اور ان کی بخشش کا کوئی راستہ نہ رہ جائے)، اے اس آدمی کے بیٹے جسے میرے جد پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اسیر کرنے کے بعد آزاد کر دیا، کیا یہی عدل و انصاف ہے کہ تو اپنی عورتوں اور کنیزوں کو پس پردہ بٹھائے اور رسول کی بیٹیوں کو اسیر کرکے در بدر پھرائے۔ اے یزید تو نے ابھی اپنے آبا ؤ اجداد کو یاد کیا ہے (چونکہ ہمارے جوانوں کو شہید کر دیا ہے)، گھبراؤ نہیں تم بھی جلد انھیں کے پاس پہنچنے والے ہو اور پھر تمنا کرو گے، اے کاش تمہاری زبان گونگی ہوگئی ہوتی (اور اہل بیت ؑ کو برا بھلا نہ کہتے)۔
اے کاش تمہارا ہاتھ شل ہوگیا ہوتا (چونکہ تم نے بھائی حسین ؑکے دندان مبارک کی چھڑی سے بے حرمتی کی) جو لوگ راہ خدا میں قتل کر دیئے گئے ہیں، انھیں ہرگز مردہ نہ سمجھنا (بلکہ) وہ زندہ ہیں اور اللہ کی طرف سے رزق پاتے ہیں۔ ((ہمارے لئے تو اتنا ہی کافی ہے کہ خدا حاکم ہے اور محمد (تمہارے) دشمن، اور جبرئیل مددگار۔ یزید تیری حیثیت میری نگاہ میں نہایت پست و حقیر ہے اور میں بے پناہ تیری ملامت کرتی ہوں اور تجھے بہت ذلیل اور خوار سمجھتی ہوں۔ یزید تمہیں ہرگز یہ گمان نہ ہو کہ تمہاری حشمت و جلالت اور حکومت سے میں مرعوب ہو جاؤں گی۔ کتنی عجیب بات ہے کہ لشکر خدا طلقاء (آزاد کردہ غلام اور غلام زادوں) اور لشکر شیطان کے ہاتھوں تہ تیغ کر دیا جائے اور ہمارے خون سے اپنے ہاتھوں کو رنگین کر لے۔ خدا اپنے بندوں پر ظلم روا نہیں کرتا، ہم تو بس اسی سے شکوہ کرتے ہیں اور اسی پر اعتماد کرتے ہیں۔ لہذا جو فریب و حیلہ چاہے کر لے اور جتنی طاقت ہے آزما لے اور کوشش کرکے دیکھ لے خدا کی قسم ہمیں اور ہماری یادوں کو (مومنین کے دل سے) نہ مٹا سکے گا اور ہمارے (گھر میں) نزول وحی کو کبھی جھٹلا نہ سکے گا۔ خدا کا شکر ہے کہ اس نے ہمارے بزرگوں کو سعادت و مغفرت کے ساتھ اس دنیا سے اٹھایا اور ان کے بعد والوں کو مقام شہادت اور حجت پر فائز کیا۔”
سیدہ کے ان خطبات نے انقلاب کا آغاز کر دیا، ایسا انقلاب جس نے یزیدیت کے ارادوں کو خاک میں ملا دیا۔ شاعر نے اسی لئے کہا ہے کہ
کربلا دو باب است کربلا و دمشق
یکے حسین رقم کرد دیگرے زینب
حضرت امام ؑ نے اگر لق و دق صحرا میں کربلا کے نام سے اسلام کی بنیادوں کو قائم و دائم کیا تو بہن نے اس بنیاد پر کوفہ شام کے درباروں و بازاروں میں خطبات دیکر اسلام کی ایسی پختہ عمارت بنا دی کہ پھر کسی کو ہمت نہ ہوئی کہ اس انداز میں اسلام پر وار کرے۔ امامؑ نے اگر شہر کربلا کو آباد کیا۔ امام ؑ نے اگر کربلا کے گمنام گوشہ و صحرا میں عالم انسانیت کیلئے اپنا لہو بہایا تو ان کی شریکہ و سوگوار بہن نے ان خون کے قطروں کی سرخیوں کو کربلا سے کوفہ، کوفہ سے دمشق تک پہنچایا۔ نواسہ رسول، سید الشہداء کی اسیر بہن نے حالت اسیری میں رہ کر بھائی کی آواز استغاثہ کو شہر بہ شہر یعنی عالم انسانیت کی بستی بستی میں پہنچا دیا۔ سیدہ زینب سلام اللہ کی تبلیغ کا اثر کوفہ و شام کے ان چلتے پھرتے لاشوں اور مردہ ضمیر انسانوں پر ضرور ہوا۔ انہی میں سے بعد ازاں توابین پیدا ہوئے اور انتقام کا نعرہ لگاتے ہوئے اس وقت کی حکومت کے مقابلہ میں سامنے آگئے۔
آج بھی آزادی و حریت کی تحریکوں کو اگر دیکھیں تو ان میں خواتین کا کردار بہت نمایاں اور اہمیت کا حامل ہوتا ہے، خواتین کی شمولیت اور قربانیوں کے بغیر کسی بھی تحریک کو مکمل نہیں کہہ سکتے، نہ ہی کوئی تحریک اپنے مقاصد و اہداف کو حاصل کرسکتی ہے، موجودہ دور کی مزاحمت و مقاومت کی تمام تحریکیں بھی اپنے ساتھ خواتین کی شرکت اور عملی شمولیت کا یہ درس کربلا سے لئے ہوئے ہیں اور ان میں بھی قربانیاں پیش کرنے کیلئے مائیں، بہنیں، بیٹیاں سامنے آتی ہیں۔
تبصرہ کریں