مسجد اقصی کی بے حرمتی کے بڑھتے واقعات اور وجوہات
فاران تجزیاتی ویب سائٹ: بنجمن نیتن یاہو کی سربراہی میں نئی صیہونی کابینہ برسراقتدار آنے کے بعد مسجد اقصی کی بے حرمتی اور اس پر جارحانہ اقدامات میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ بے حرمتی پر مبنی ان جارحانہ اقدامات میں غاصب صیہونی آبادکار بھی شامل تھے اور صیہونی فوج بھی شامل رہی ہے۔ نئی صیہونی حکومت کی سرپرستی میں انجام پانے والے یہ افسوسناک واقعات تعداد اور نوعیت دونوں لحاظ سے ماضی میں انجام پانے والے واقعات کی نسبت زیادہ شدید ہیں۔ تعداد کے لحاظ سے دیکھا جائے تو صیہونی آبادکاروں اور صیہونی فوج دونوں کی جانب سے مسجد اقصی پر جارحانہ اقدامات میں اضافہ ہوا ہے جبکہ یہ اقدامات دن کے تمام حصوں اور تمام اہم مواقع پر انجام پائے ہیں۔ اسی طرح حملہ ور ہونے والے صیہونی آبادکاروں اور فوجیوں کی تعداد میں بھی اضافہ دیکھا گیا ہے۔ حتی بعض اوقات مسجد اقصی کا صحن اور اردگرد کے مقامات صیہونیوں سے بھر جاتے تھے۔
نوعیت کے لحاظ سے بھی دیکھا جائے تو ماضی میں یہ بے حرمتی عارضی مظاہروں اور بعض اوقات تلمودی تقریبات تک محدود ہوتی تھی جبکہ گذشتہ چھ ماہ کے دوران صیہونی شدت پسند تنظیموں نے مسجد اقصی میں قربانی کیلئے باقاعدہ کال تک دے رکھی تھی۔ اسی طرح صیہونی پولیس مسجد اقصی کے صحن میں مسلسل موجود رہتی ہے اور اب صرف گشت لگانے پر اکتفا نہیں کرتی۔ مزید برآں، صیہونی پولیس مسجد اقصی کے صحن میں رہتے ہوئے فلسطینی نمازیوں کو چیکنگ کے بہانے تنگ بھی کرتی ہے۔ صحن کے اردگرد مقامات پر بھی صیہونی جارحانہ اقدامات کا مشاہدہ کیا گیا ہے جس کی ایک مثال باب الرحمہ میں بجلی کاٹ دینا ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ حالیہ چھ ماہ کے دوران بے حرمتی پر مبنی جارحانہ اقدامات میں اضافے کی کیا وجوہات ہیں؟ دو قسم کی وجوہات، مختصر مدت کی وجوہات اور طویل المیعاد وجوہات قابل بیان ہیں۔
مختصر مدت کی وجوہات
گذشتہ پانچ برس کے دوران مقبوضہ فلسطین کے علاقے مغربی کنارے میں اسلامی مزاحمتی کاروائیوں کی تعداد اور نوعیت میں شدت آئی ہے۔ تعداد کے لحاظ سے ان کاروائیوں میں بہت زیادہ اضافہ ہوا ہے اور حتی ایک دن میں مقبوضہ فلسطین اور مغربی کنارے میں متعدد مزاحمتی کاروائیاں انجام پائی ہیں۔ دوسری طرف جغرافیائی لحاظ سے بھی ان مزاحمتی کاروائیوں کا دائرہ بڑھ گیا ہے۔ ماضی میں یہ کاروائیاں انتہائی محدود علاقے میں انجام پاتی تھیں لیکن اب مقبوضہ بیت المقدس، نابلس، جنین اور الخلیل سمیت مقبوضہ فلسطین کے دیگر علاقوں تک پھیل گئی ہیں اور حتی تل ابیب میں بھی اسلامی مزاحمتی کاروائیاں انجام پا چکی ہیں۔ دوسری طرف ان مزاحمتی کاروائیوں کی نوعیت اور پیچیدگی میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ گذشتہ تین برس کے دوران، خاص طور پر شمشیر القدس معرکے کے بعد، زیادہ تر مزاحمتی کاروائیاں مسلحانہ انجام پائی ہیں۔
اسی طرح فلسطینی مجاہدین کی جانب سے بروئے کار لانے والے ہتھیاروں میں دھماکہ خیز مواد کا اضافہ ہوا ہے۔ غاصب صیہونی رژیم کے سکیورٹی ذرائع کا خیال تھا کہ ان مسلحانہ جہادی اقدامات کے پیچھے نیٹ ورکس کا ہاتھ ہے لیکن جب انہوں نے گرفتار شدہ مجاہدین سے پوچھ گچھ کی تو معلوم ہوا کہ یہ پیچیدہ کاروائیاں شخصی طور پر انجام پائی ہیں۔ مغربی کنارے میں مزاحمتی کاروائیوں میں اضافے اور ان کا 1948ء کی مقبوضہ سرزمینوں تک پھیل جانے نے غاصب صیہونی رژیم کو عاجز کر دیا ہے۔ شمشیر القدس معرکے کے بعد صیہونی رژیم نے فلسطینی مسلمانوں کا مقابلہ کرنے کیلئے صیہونی آبادکاروں پر مشتمل شدت پسند مسلح جتھے تشکیل دینے کی پالیسی اختیار کر رکھی ہے۔ اس کا مقصد 1948ء کی مقبوضہ سرزمینوں میں سکیورٹی برقرار کرنا ہے۔ لہذا مسجد اقصی پر جارحانہ اقدامات کی شدت کی ایک وجہ مزاحمتی کاروائیوں کو روکنا ہے۔
طویل المیعاد وجوہات
جب 2017ء میں امریکہ میں سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ برسراقتدار آیا تو غاصب صیہونی رژیم نے بھی فلسطین میں اپنی پالیسی اور حکمت عملی میں تبدیلی کی۔ صیہونی حکمرانوں نے ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے اپنی الیکشن مہم کے دوران دیے گئے وعدوں کی بنیاد پر “دو ریاستی” حکمت عملی تبدیل کر کے “ایک یہودی ریاست” نامی حکمت عملی اختیار کر لی تھی۔ اس حکمت عملی کا مطلب یہ تھا کہ اب وہ گذشتہ 30 برس سے امریکہ اور یورپ کی جانب سے پیش کردہ منصوبوں پر عمل پیرا نہیں ہونا چاہتے تھے اور پورے فلسطین میں صرف ایک عبری حکومت کے قیام کا فیصلہ کر چکے تھے۔ صیہونی حکمت عملی میں تبدیلی کے چند اہم نتائج امریکی سفارتخانہ قدس شریف منتقل ہونے، نیویارک میں پی ایل او کا دفتر بند ہو جانے، صیہونی پارلیمنٹ میں “قومیت” کا قانون منظور ہونے، عرب ممالک سے دوستانہ تعلقات استوار کرنے کی کوشش اور مغربی کنارے کو 1948ء والی مقبوضہ سرزمینوں سے ملحق کرنے کا منصوبہ شروع کرنے کی صورت میں ظاہر ہوئے۔
مغربی کنارے کو 1948ء والی مقبوضہ فلسطینی سرزمینوں سے ملحق کرنے پر مبنی منصوبے کا اہم ترین حصہ قدس شریف ہے اور قدس شریف میں بھی بنیادی مرکزیت کا حامل مقام مسجد اقصی ہے۔ لہذا مسجد اقصی کی بے حرمتی اور اس پر جارحانہ اقدامات کی شدت میں اضافے کی اہم ترین وجہ اس منحوس منصوبے کو پایہ تکمیل تک پہنچانا ہے۔ نیتن یاہو کی سربراہی میں موجود صیہونی حکومت اس منصوبے کو مکمل کر کے اپنے لئے بڑی سیاسی کامیابی حاصل کرنے کے درپے ہے۔ صیہونی رژیم مسجد اقصی پر جارحانہ اقدامات کے ذریعے ایک طرف مزاحمتی کاروائیاں روکنا چاہتی ہے جبکہ دوسری طرف مسجد اقصی پر اپنا مکمل کنٹرول قائم کرنے کی خواہاں ہے۔ یہ وہی مقصد ہے جس کا اعلان سوئٹزرلینڈ کے شہر باسل میں پہلی صیہونزم کانفرنس میں کیا گیا تھا اور اب نیتن یاہو کی شدت پسند کابینہ انتہاپسند یہودیوں کی مدد سے اسے حاصل کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔
تبصرہ کریں