مقبوضہ جنین فلسطینی انقلاب کا منطقۃ الرأس
فاران تجزیاتی ویب سائٹ: گذشتہ روز سوموار ـ (مورخہ 3 جولائی 2023ع) کو صہیونیوں نے جنین شہر اور جنین کیمپ پر حملہ کیا جو اپنی نوعیت کے لحاظ سے بہت اہم تھا اور طفل کُش غاصب ریاست اور فسطینیوں کے درمیان جھڑپوں کے حوالے سے ایک اہم پیش رفت سمجھا جاتا ہے۔ گوکہ جنین گذشتہ کئی برسوں سے کئی بار اس طرح کے حملوں کا نشنہ بنتا رہا ہے۔ لیکن مجرم صہیونی ریاست کے گذشتہ ہفتے کے حملے کی وسعتیں اور وسیع پیمانے پر مجرمامہ ہونے والے مختلف اقدامات ان اقدامات سے قابل قیاس نہیں ہے جو جون 2003ع سے لے کر اس حملے سے پہلے تک، ہوتے رہے ہیں۔
صہیونیوں نے ایک ہزار فوجی نفری اور 150 بکتربند گاڑیوں اور ٹینکوں کی مدد سے اس محدود خطے پر حملہ کیا جو کہ ایک نیا اقدام سھجا جاتا تھا اسی بنا پر اس حملے پر عالمی سطح پر وسیع رد عمل بھی سامنے آیا۔
اس حوالے سے مختلف قسم کے سوالات اٹھتے ہیں، کہ صہیونیوں کے اس حملے کا سبب کیا تھا؟ صہیونیوں نے اس حملے میں کیا کھویا کیا پایا؟ اور اس تبدیلی کا افق کیا ہے؟
1۔ جنین کا علامہ دریائے اردن کے مغربی کنارے کا منطقۂ الرأس سمجھا جاتا ہے (اور مغربی کنارے کے انتہائی شمال مین واقع ہے)، اور 1967ع اور 1948ع کی حدبندیوں کے علاقوں میں سب سے زیادہ حساس علاقہ ہے اور اس کا رقبہ 1880 ہیکٹر (18 مربع کلومیٹر) ہے اور حیقا، ناصرہ، نابلس اور قدس شریف کا نقطۂ اتصال ہے۔ یہاں تین لاکھ فلسطینی رہتے ہیں اور یوں قدس کے بعد، مغربی کنارے کے 16 شہروں کے درمیان، سب سے گنجان آباد فلسطینی شہر ہے۔ علاوہ ازیں جنین سابقہ دو انتفاضہ تحریکوں ـ بالخصوص سنہ 2002ع کی انتفاضہ تحریک المسمٰی بہ “انتفاضۃ الاقصٰی” ـ فلسطینیوں کی جدوجہد میں مرکزی حیثیت رکھتا تھا۔
سنہ 2002ع میں جعلی یہودی ریاست نے جنین پر حملہ کیا تو فلسطینی نوجوانوں نے اس معرکے میں شاندار کارنامہ سرانجام دیتے ہوئے 23 جارح صہیونی فوجیوں کو ہلاک کر ڈالا جس کے بعد غاصبوں کو دو مہینوں تک اس شہر میں کرفیو نافذ کرنا پڑا۔ گذشتہ ہفتے کی صہیونی یلغار 2002ع والی یلغار کی یادآوری کر رہی تھی؛ سنہ 2002ع میں صہیونی ان فلسطینیوں کو پسپا کرنے پر مجبور کرنے کی غرضء سے حملہ آور ہوئے تھے جو سمجھتے تھے کہ “اوسلو سمجھوتہ ان کے لئے بالکل غیر مفید اور یکسر صہیونیوں کے مفاد میں ہے۔ یہ وہ وقت تھا جب یاسر عرفات مرحوم نام نہاد خودمختار (!) فلسطینی اتھارٹی کے سربراہ تھے جو صہیونیوں اور امریکیوں کی طرف سے اوسلو سمجھوتے پر عمل درآمد نہ ہونے کی وجہ سے نا امید ہو چکے تھے؛ اور غاصب ریاست انہیں [سمجھوتوں کے باوجود] محاذ مقاومت (یا محاذ مزاحمت) کا جزو سمجھتی تھی۔
واضح رہے کہ جعلی ریاست نے 2002ع کے حملے کے تقریباً بیس سال بعد اس بہانے سے جنین پر یلغار کی ہے کہ “جنین اسلحے کی تیاری کا مرکز بن چکا ہے!”، حالانکہ مغربی کنارے کی حساسیت کے ناطے، صہیونی ریاست کبھی بھی اس علاقے پر اپنی کڑی نگرانی سے غافل نہیں ہوئی ہے۔
2۔ غاصب صہیونی فوج مغربی کنارے کے حوالے سے بہت فکرمند ہے اور اس کو بارود کا گودام اور دھماکے کے لئے تیار، علاقہ سمجھتی ہے، اور اسے یقین ہے کہ جنین بارود کے اس گودام میں ڈیٹونیٹر کی حیثیت رکھتا ہے۔ صہیونی غاصب سنہ 2002ع کی انتفاضہ تحریک سے لے کر اب تک مغربی کنارے ـ خصوصاً جنین ـ میں ریڈ الرٹ کی حالت میں ہے۔ حالیہ مہینوں کے دوران بھی مقاومت کے مجاہدین کی چھوٹی سی نقل و حرکت بھی صہیونیوں کی آنکھوں سے دور نہیں رہ سکی ہے۔ مغربی کنارے کے چھوٹے سے علاقے میں صہیونی فوج کے تین لاکھ پندرہ ہزار افراد مغربی کنارے میں تعینات ہیں اور ان کے دو ذمہ داریاں سونپ دی گئی ہیں؛ ایک ذمہ داری یہ ہے کہ مغربی کنارے کے حالات کو پرسکون رکھیں، جو فلسطینیوں کی رہائش کا اصل مرکز ہے؛ اور دوسری ذمہ داری یہ ہے کہ فوجی اور سیکورٹی بنیاد فراہم کرکے علاقے میں صہیونیوں کی نوآبادیاں تعمیر کرنے کے لئے ماحول سازی کریں۔
مغربی کنارے کے فلسطینیوں کی سرکوبی کا عمل ـ جو تقریباً سنہ 2000ع سے شروغ ہؤا ہے، – غاصب ریاست کا مسئلہ نہیں حل کر سکا ہے، جبکہ اس 24 سالہ دور میں لاتعداد فلسطینی مجاہدین شہید ہو چکے ہیں اور دسوں ہزار افراد پابند سلاسل ہوئے ہیں، لیکن اسرائیل اس علاقے پر قابو نہیں پا سکا ہے، چنانچہ اسے اس علاقے میں اپنی فوجی نفری میں اضافہ کرنا پڑا ہے؛ مثال کے طور پر گذشتہ ایک ہفتے میں مزید آٹھ ہزار صہیونی فوجی نفری یہاں متعین افواج سے آملی ہے۔ یہ کہ صہیونیوں نے سنہ 2002ع میں فلسطینیوں کے ساتھ شدید جھڑپوں کے 22 سال پورے ہونے پر ایک ہزار فوجی نفری اور 150 بکتربند گاڑیاں جنین بھجوائی ہیں، جنہوں نے نہ صرف فلسطینیوں کے گھروں اور گلی کوچوں اور سڑکوں، نیز جنین کیمپ کے ایک بڑے حصے کو تباہ کر دیا ہے، اس کا مطلب یہ ہے کہ فلسطینیوں کے غیظ و غضب میں مسلسل اضافہ ہؤا ہے اور صہیونی بھی اپنی 24 سالہ سازشوں اور جبر و ظلم سے مطلوبہ نتائج حاصل نہیں کر سکے ہیں۔
3۔ جنین پر صہیونی حملے سے ظاہر ہوتا ہے کہ صہیونی اس نتیجے پر پہنچ چکے ہیں کہ فلسطینی ایک عمومی تحریک کے لئے تیار ہو رہے ہیں، چنانچہ انہوں نے مبینہ طور پر، اس تحریک کا راستہ روکنے کے لئے، حفظ ما تقدم کے طور پر، مغربی کنارے میں مقاومت کے مرکزی نقطے پر حملہ کیا ہے۔ صہیونی سمجھ چکے ہیں کہ اگر جنین متحرک ہو جائے تو یہ حرکت مغربی کنارے کے بقیہ 15 کلومیٹر کے علاقے تک بھی سرایت کرے گی۔ جنین وہ علاقہ ہے جس میں قائم کردہ اقوام متحدہ کے کیمپ میں 1948ع کی جنگ سے بے گھر ہونے والے سب سے زیادہ فلسطینی پناہ گزین رہائش پذیر ہوئے ہیں۔ ان کی تعداد آج کے زمانے میں تقریبا 15000 ہے اور ان کا تعلق فلسطین کے مختلف شمالی، جنوبی اور مرکزی شہروں سے ہے، چنانچہ اگر اس کیمپ کے رہائشی کوئی بھی حرکت شروع کریں، تو یہ حرکت شمال میں الجلیل سے لے کر جنوب میں النقب تک کے علاقوں کو متأثر کرے گی اور پورا مقبوضہ فلسطین وسیع پیمانے پر فلسطینیوں اور غاصبوں کے درمیان جنگ کا میدان بن جائے گا۔ جیسا کہ حالیہ برسوں میں جنین پر صہیونی دباؤ کی وجہ سے صفد، کربات شمونہ، حیفا، تل ابیب اور نقب میں مختلف قسم کے حادثات و واقعات رونما ہوئے جو 150 صہیونیوں کی ہلاکت کا سبب بن گئے۔
اسرائیل کا تصور یہ ہے کہ اگر وہ جنین کے خلاف قدام کرے تو البیرہ، بیت اللحم، الخلیل، اریحا، قدس، نابلس، قلقیلیہ، رام اللہ، طولکرم اور مغربی کنارے کے دوسرے شہروں کے نوجوان ان کے خلاف میدان میں آنے کی جرئت کھو جائیں گے! اور اس نے اسی تصور کی بنیاد پر ہی، جنین پر حالیہ حملے سے پسپا ہونے کے بعد فلسطین کے دوسرے شہروں کے فلسطینی باشندوں کو خبردار کیا کہ وہ بھی جنین کی طرح، حملوں کا نشانہ بن سکتے ہیں۔
جنین پر 3 جولائی 2023ع کے صہیونی حملہ، اگرچہ بہت سوں کے خیال میں ایک احمقانہ اقدام تھا، کیونکہ احمقوں کے سوا کوئی بھی اس گھر کو دیاسلائی نہیں دکھا، لیکن اس کے باوجود یہ اقدام یہ حملہ مغربی کنارے میں جنگوں کے ایک نئے سلسلے کا آغاز بھی ہو سکتا ہے۔ شاید عارضی اسرائیلی ریاست اور بن یامین نیتن یاہو بذات خود، اس نتیجے پر پہنچے ہوں کہ انہیں فلسطینیوں کے خلاف شدید فوجی کاروائی کا امکان، آزمائش کی کسوٹی پر پرکھنا چاہئے، اور انہوں نے اس ٹیسٹ آپریشن کے اچھے برے نتائج کو پہلے سے قبول کرلیا ہے۔
جعلی اسرائیلی ریاست محسوس کرتی ہے کہ وہ فرصتیں کھو چکی ہے، گوکہ فرصتیں کھونے اور وقت گذرنے کا یہ مطلب نہیں ہے کہ صہیونی غفلت یا جمود کا شکار ہوئے ہیں، مسئلہ یہ ہے کہ اسرائیلی، علاقے کے بدلتے حالات کے پیش نظر، اس کے سوا کچھ کر ہی نہیں سکتے تھے، چنانچہ وقت گذر چکا ہے اور جو اقدامات صہیونی عمل میں لاتے رہے ہیں وہ حالات کے تقاضوں سے ہم آہنگ نہیں تھے۔ بہرحال یہ حقیقت ہے کہ اسرائیل نامی جعلی ریاست کے لئے وقت گذر چکا ہے، 75 سال بعد بھی اپنے مقبوضہ علاقوں پر فضائی بمباریوں کا سیدھا مطلب یہ ہے کہ یہ ریاست ابھی تشکیل کے مرحلے تک بھی نہیں پہنچ سکی ہے۔ چنانچہ اب اسے عجلت زدگی میں احمقانہ اقدامات کرنا پڑ رہے ہیں، اور انہیں ایسے اقدامات کے لئے اپنی ساکھ نیلام کرنا پڑ رہی ہے جس کے نتائج سے وہ خود بھی مطمئن نہیں ہیں، انہوں نے جنین پر حملہ کرکے خوفناک خطرہ مول لیا ہے اچھے نتائج کی کمزور سی امید کے ساتھ! جو حاصل نہیں ہو سکے!
4۔ دریائے اردن کا مغربی کنارہ مجاہد قوتوں کا مرکز ہے۔ مغربی کنارہ غزہ کی پٹی سے تین گنا بڑا ہے؛ نئی اور پرانی جہادی تنظیمیں مغربی کنارے کے زیادہ تر فلسطینیوں کے گھروں کے مکین جنگ اور مقاومت کے گروں سے واقف ہیں، اور اب تو انہیں ہتھیاروں تک رسائی بھی حاصل ہے اور صہیونیوں کی اپنی رپورٹوں کے مطابق جنین اور مغربی کنارے کے دوسرے علاقوں کے فلسطینی نیم بھاری ہتھیاروں، اور دیسی ساختہ میزائلوں، نیز کندھے سے مار کرنے والے میزائلوں سے لیس ہو چکے ہیں۔
مغربی کنارے کے محدود سے علاقے میں تین لاکھ سے زیادہ صہیونی فوجی تعینات ہیں جس کا مطلب یہ ہے کہ فلسطینی جس طرف بھی گولی چلائیں، کسی صہیونی فوجی کو لگ سکتی ہے۔ آشفتہ حال مغربی پٹی کے حالات ان صہیونی فوجیوں کو صرف جنگ کا چارہ (bait) بنا رہے ہیں؛ چنانچہ اس علاقے میں بے چینی پھیلانے سے صہیونیوں کو نہیں بلکہ فلسطینی مجاہد تنظیموں کو فائدہ پہنچتا ہے۔ جو اقدامات اسرائیلی ایک جنگ کا خیر مقدم کرنے کے لئے عمل میں لا رہے ہیں، وہ مغربی کنارے کو آشفتہ حالی کے مرحلے کی طرف لے جاتے ہیں، جس کا مطلب یہ ہے کہ صہیونیوں نے عجلت سے کام لے کر اپنے خلاف فلسطینیوں کی جنگ کے کو آگے ڈال دیا ہے۔
غزہ کے قلعہ بند علاقے کے برعکس، مغربی کنارہ زیادہ تر یہودی نوآبادیوں کا ہمسایہ ہے، اور یہاں کی آشفتہ حالی تیزی کے ساتھ، حیفا جیسے حساس علاقوں تک سرایت کرتی ہے۔ جنین کا علاقہ درہ اردن کے راستے سے، اردن کے ساتھ متصل ہے اور اس درے کے اس پار لاکھوں فلسطینی رہتے ہیں، جن کی حتمی آبادی پچاس لاکھ نفوس پر مشتمل ہے۔ چنانچہ مغربی کنارے کے ساتھ کھیلنا جعلی ریاست کے لئے بہت خطرناک ہے۔
آج اگر مغربی کنارے میں موجودہ اسلحہ غزہ میں موجودہ ہتھیاروں سے زیادہ نہ ہو تو کم بھی نہیں ہے اور دوسری طرف سے جتنی آزادی عمل مغربی کنارے کے عوام کو حاصل ہے، غزہ کے گھرے ہوئے علاقے کو حاصل نہیں ہے۔ یہ صحیح ہے کہ مغربی کنارہ بہت تیزرفتاری سے، صہیونی ریاست کے ساتھ جنگ کی طرف بڑھ رہا ہے، لیکن جو نسخہ جرائم پیشہ یہودی ریاست نے اس علاقے پے غلبہ پانے کے لئے تجویز کیا ہے، مؤثر نہیں ہے۔ اگر جبر و استبداد اور آہنی مٹھی لہرانا، چارہ کار ہوتا، تو اس روش کو صہیونیوں نے 2002ع میں آزما لیا؛ جب مغربی کنارہ غیر مسلح تھا اور یہاں کے مجاہدین کے پاس موجودہ ہتھیاروں کی تعداد ایک ہاتھ کی انگلیوں سے بھی کم تھی؛ جبکہ آج مغربی کنارہ ایک آتشفشاں میں بن گیا ہے اور کم ہی کوئی نوجوان ملے گا جو ہتھیاروں سے مسلح نہ ہو۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ڈاکٹر سعد اللہ زارعی، استاد جامعہ
تبصرہ کریں