مقبوضہ فلسطین کا جنین کیمپ اور انقلابی نسل

جنین میں دو روزہ صیہونی جارحیت کے جواب میں دوہرے خودکش حملے تل ابیب میں کئے گئے ہیں۔ غاصب صیہونی حکومت کا امن دن بہ دن کمزور اور تباہ کاری کی طرف گامزن ہے۔ غاصب صیہونی حکومت کا سامنا ایسے نوجوانوں سے ہے جو جنگ کے میدان میں جوان ہوئے ہیں۔

فاران تجزیاتی ویب سائٹ: غاصب صیہونی ریاست اسرائیل نے تین جولائی بروز سوموار کو فلسطین کے مغربی کنارہ میں واقع جنین کیمپ میں ایک بڑے فوجی آپریشن کا آغاز کیا۔ جنین کیمپ مغربی کنارے کا ایک ایسا علاقہ ہے کہ جہاں پہلے ہی غاصب صیہونی فوجیوں کی بہت بڑی تعداد تعینات رہتی ہے۔ اسرائیل نے جنین کیمپ پر اپنے فوجی آپریشن کا جواز فراہم کرتے ہوئے دعویٰ کیا کہ اس آپریشن کا مقصد فلسطینی نہیں بلکہ مزاحمت کار نوجوان ہیں جو مسلسل اسرائیل کے خلاف مزاحمتی کاروائیوں میں ملوث ہیں۔ دوسری طرف فلسطینی وزیر اعظم کا کہنا ہے کہ صیہونی فوج کا یہ آپریشن دراصل صیہونی آباد کاری کے منصوبہ کی کڑی ہے جس کا مقصد کیمپ کو ختم کرنا ہے لیکن فلسطینی عوام غاصب صیہونی ریاست اسرائیل کے مجرمانہ اور ناجائز قبضہ کے خلاف کبھی ہتھیار نہیں ڈالیں گے۔ ایک اور رپورٹ یہ کہتی ہے کہ غاصب صیہونی حکومت میں موجود دائیں بازو کی جماعتیں مسلسل کئی ماہ سے اسرائیلی حکومت پر دباؤ ڈال رہی تھیں کہ جنین کیمپ پر کاروائی کی جائے جبکہ صیہونی حکومت کے کچھ دھڑوں کا یہ بھی ماننا تھا کہ اس قسم کی کاروائی سے فلسطینی مزاحمت کو ختم نہیں کیا جاسکتا بلکہ مزاحمت کا سلسلہ مزید جاری و ساری رہنے کا امکان ہے۔ بہرحال در بالا گفتگو دو مختلف موقف کو سمجھنے کے لئے تحریر کی گئی ہے۔ حقیقت کیا ہے؟ اس تحریر میں پیش کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔

جنین فلسطین کے مغربی کنارے کا ایک ایسا انقلابی علاقہ ہے کہ جہاں آج نوجوان نسل مزاحمت کے راستے پر موجود ہے۔ بطور بین الاقوامی تعلقات اور سیاسیات کا طالب علم ہونے کی حیثیت سے میں سمجھتا ہوں کہ جنین کیمپ میں پرورش پانے والی یہ نئی نسل جو مزاحمت کے راستے پر گامزن ہے، یہ ایک ایسی نسل ہے کہ جس نے پیدائش سے اب تک غاصب صیہونی حکومت کا ناجائز تسلط ہی دیکھا ہے۔ یہ نسل اچھی طرح جانتی ہے کہ غاصب صیہونی حکومت کے ساتھ مزاکرات یا امن سب جھوٹ پر مبنی دعوے ہیں لہٰذا مزاحمت ہی واحد حل ہے جو عزت اور کرامت کے ساتھ فلسطین کے عوام کو آزادی کی طرف لے جا سکتی ہے۔ فلسطینی تاریخ میں دوسری انتفاضہ کی تحریک کے دوران ماؤں کی گود میں کھیلنے والی نسل آج جوان ہو چکی ہے۔ ٹھیک بیس سال بعد یہ نسل اس قابل ہو چکی ہے کہ غاصب صیہونی تسلط کے خلاف نبر آزما ہوجائے۔ یہ وہ نسل ہے کہ جب دنیا میں قدم رکھا تو اپنے والدین اور آباؤ اجداد کو دوسری تحریک انتفاضہ میں جدوجہد کرتے دیکھا اور پھر اپنی جوانی تک کا سفر انہوں نے صیہونی قبضہ کی شکل میں گزارا ہے۔ گذشتہ دو سالوں میں جنین میں نوجوان انقلابی مجاہدین کی تعداد درجنوں نہیں بلکہ سینکڑوں تک پہنچ چکی ہے۔ مغربی ذرائع ابلاغ مسلسل فلسطین کے مغربی کنارے میں شروع ہونے والی نئی مزاحمت کو رپورٹ کرتے آئے ہیں اور ان واقعات کو حیرت انگیز قرار دے رہے ہیں۔

یہ نئی نسل کیا چاہتی ہے؟ جنین کیمپ میں پرورش پانے والی یہ نسل چاہتی ہے کہ غاصب صیہونی حکومت صیہونی بستیوں کی آبادکاری سے باز آ جائے۔ فلسطینی زمینوں پر مسلسل قبضہ کو روک دیا جائے۔ یہ نوجوان دیکھ رہے ہیں کہ عالمی برادری خاموش تماشائی ہے۔ فلسطینی عوام پر روزانہ ظلم اور مصائب کی زیادتی کا صیہونی عمل جاری ہے۔ کوئی نہیں ہے جو اسرائیل کو روکے، لہذا نوجوان یہ بات جانتے ہیں کہ مزاحمت ہی ہے جو غاصب اسرائیل کو روک سکتی ہے۔ حال ہی میں جاری رہنے والیل دو روزہ صیہونی جارحیت کے جواب میں انہی جنین کے جوانوں نے غاصب صیہونی حکومت کو دوہرے خودکش حملہ کے ذریعہ جواب دیا ہے۔ یہ حملہ فقط ایک حملہ نہیں تھا بلکہ غاصب صیہونی حکومت کو واضح پیغام بھی تھا کہ چاہے جتنا ظلم اور بربریت انجام دو لیکن مزاحمت اپنا کام کرکے ہی دم لے گی۔ اس وقت غاصب صیہونی حکومت کے ایوانوں نے کھلبلی ہے۔ جہاں ایک طرف دائیں بازو کی جماعتوں نے صیہونی حکومت کو جنین کیمپ پر قبضہ کرنے کے لئے اکسایا تھا وہاں اب صیہونی فوج کی صفوں میں ماتم ہی ماتم ہے۔ گذشتہ دو برس سے مغربی کنارے میں شروع ہونے والی فلسطینی مزاحمت نے تحریک آزادی فلسطین کو ایک نئے رخ پر لا کھڑا کیا ہے۔ غاصب اسرائیل جو پہلے غزہ میں ہی حماس اور جہاد اسلامی کے مجاہدین کا مقابلہ کرنے سے قاصر تھا اب تک ابیب بھی ان انقلابی نوجوانوں کے نشانہ پر ہے۔

جنین میں دو روزہ صیہونی جارحیت کے جواب میں دوہرے خودکش حملے تل ابیب میں کئے گئے ہیں۔ غاصب صیہونی حکومت کا امن دن بہ دن کمزور اور تباہ کاری کی طرف گامزن ہے۔ غاصب صیہونی حکومت کا سامنا ایسے نوجوانوں سے ہے جو جنگ کے میدان میں جوان ہوئے ہیں۔ جو یہ بات اچھی طرح جانتے ہیں کہ ان کا مستقبل مزاحمت کے راستے میں ہے۔ یہ جوان شہادت کا شوق رکھنے والی جماعت سے تعلق رکھتے ہیں۔ غاصب صیہونی حکومت ان نوجوانوں سے نبرد آزما ہے جو اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر وطن اور عوام کا دفاع کرنے نکلے ہیں۔ یہ فلسطین کی نئی انقلابی نسل ہے جو غزہ سے مغربی کنارہ تک پھیلی ہوئی ہے۔ اقوام عالم ان نوجوانوں کو نظر انداز نہیں کر سکتی، یہ اپنے حق کا دفاع کر ہے ہیں، یہ انقلابی نسل فلسطینی عوام کے حقوق کا دفاع کر رہے ہیں۔ اپنی جان اور مال سمیت آبرو کا دفاع کرنے نکلے ہیں۔ دنیا کا کوئی قانون ان نوجوانوں کی مزاحمت کو نہیں روک سکتا کیونکہ مزاحمت ہر قوم کا بنیادی حق ہے۔ چند عرب تجزیہ نگارجنین کی ا س نسل میں رونما ہونے والی تبدیلی اور مزاحمت کاری کو مایوسی کا نتیجہ قرار دے رہے ہیں جو کہ سراسر ان کی خدمات اور قربانیوں کو فراموش کرنے کے مترادف ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ فلسطین کے مغربی کنارے میں پرورش پانے والی یہ انقلابی نسل کسی قسم کی مایوسی نہیں بلکہ دانستہ طور پر اپنے وطن اور آبرو کے دفاع کے لئے شعوری طور پر مزاحمت کے راستے پر گامزن ہے۔