مقبوضہ مغربی دنیا اور آزاد فلسطین

آج فلسطینی حریت اور آزادی کا مظہر بن گئے ہیں جبکہ اسرائیل ایک قابض قوت جانی جاتی ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ مستقبل قریب میں اس تبدیلی کے اثرات نمایاں طور پر دکھائی دیں گے۔

فاران: غزہ پر صیہونی فوجی بربریت بدستور جاری ہے جسے اب تقریباً ایک سال کا عرصہ ہونے والا ہے۔ غزہ کی پٹی اور مغربی کنارے میں انجام پانے والے صیہونی مجرمانہ اقدامات انتہائی افسوسناک اور دل دہلا دینے والے ہیں۔ غاصب صیہونی رژیم نے غزہ جنگ کے ساتھ ساتھ مقبوضہ فلسطین کے دیگر علاقوں میں بھی جارحیت اور بربریت کا سلسلہ شروع کر رکھا ہے جو دراصل اس رژیم کی جانب سے جنگ کا دائرہ پورے خطے تک پھیلا دینے کی حکمت عملی کے تحت انجام پا رہی ہے۔ دوسری طرف دنیا کے اکثر ممالک خاص طور پر خود کو انسانی حقوق اور جمہوریت کے محافظ اور علمبردار کہنے والے مغربی ممالک شدید مجرمانہ خاموشی اختیار کئے بیٹھے ہیں اور گذشتہ تقریباً ایک سال سے جاری غزہ میں فلسطینیوں کی نسل کشی کی نہ صرف مذمت کی ہے بلکہ اس پر افسوس کا اظہار بھی نہیں کر رہے۔

تحریر حاضر میں ہم غزہ جنگ میں غاصب صیہونی رژیم کی حکمت عملی کا جائزہ لینے کا ارادہ نہیں رکھتے اور نہ ہی اس کے بارے میں تجزیہ پیش کرنا چاہتے ہیں لیکن جو کچھ غزہ اور مقبوضہ فلسطین کے دیگر حصوں میں ہو رہا ہے اس سے مربوط ایک ایسی حقیقت پائی جاتی ہے جسے آسانی سے نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔ اس حقیقت کا سرچشمہ غزہ میں فلسطینی شہریوں خاص طور پر بچوں اور خواتین کے وسیع قتل عام اور نسل کشی سے متعلق مغربی دنیا کا طرز عمل ہے اور ان کی طرف سے اس ظالمانہ اور غیر مساوی جنگ میں غاصب صیہونی رژیم کی حمایت کرنا ہے۔ ہم گذشتہ ایک سال سے دیکھ رہے ہیں کہ مغربی حکومتیں خاص طور پر امریکہ کس طرح بھرپور انداز میں غاصب صیہونی حکمرانوں کی ہر ممکنہ فوجی، سیاسی، مالی اور اخلاقی حمایت کرنے میں مصروف ہیں۔ اس بارے میں چند نکات اہمیت کے حامل ہیں:

1)۔ اکثر ذرائع ابلاغ فلسطینی خواتین اور بچوں کی نسل کشی پر مغرب کی خاموشی یا امریکہ اور اس کے اتحادی مغربی ممالک کی جانب سے غزہ میں جنگ بندی کی راہ میں رکاوٹیں ڈالنے پر تنقید تو کرتے ہیں لیکن مغربی ممالک کے اس طرز عمل کی وجوہات کا ذکر نہیں کرتے۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ ماجرا صرف “کلی حمایت” تک محدود نہیں ہے بلکہ ہم مغربی حکمرانی اور ناجائز صیہونی حکمرانی کے باہمی ادغام کا مشاہدہ کر رہے ہیں۔ یہاں دونوں کے درمیان غالب اور مغلوب کا تعلق برقرار ہے اور صیہونی حکمران ہیں جو غزہ جنگ سے متعلق امریکی اور مغربی حکمرانوں کے موقف، پالیسی اور اقدامات کا تعین کر رہے ہیں۔ امریکہ، برطانیہ، جرمنی اور فرانس کے سیکورٹی ادارے غزہ جنگ کے خلاف اٹھنے والی ہر آواز دبا دیتے ہیں جبکہ ان ممالک کی عدلیہ بھی حق کی خاطر اٹھنے والی آواز کو غیر قانونی قرار دے کر اسے جرم ٹھہراتی ہے۔

2)۔ دوسرا نکتہ امریکی اور مغربی سیاست دانوں کی غاصب صیہونی رژیم سے ہمہ جہت اور گہری عقیدت اور وابستگی پر مبنی ہے۔ یہ ایسا مسئلہ ہے جو کسی ایک مغربی حکومت یا ایک مغربی سیاسی جماعت تک محدود نہیں ہے بلکہ مغربی دنیا میں سرگرم صیہونی لابیز نے مغربی سیاست دانوں پر ایسا تسلط اور اثرورسوخ قائم کر رکھا ہے کہ گویا ان پر جادو ہو چکا ہے اور وہ صیہونی مفادات سے ہٹ کر سوچنا بھی پسند نہیں کرتے۔ امریکہ اور یورپی ممالک کے اہم سیاسی رہنما جیسے کنزرویٹوز، سوشل ڈیموکریٹس، ڈیموکریٹس، ریپبلکنز وغیرہ اس نکتہ اشتراک کے حامل ہیں اور حتی صیہونی لابیز اور حکمرانوں کی رضامندی اور خوشنودی کیلئے آپس میں مقابلہ بازی کرتے ہیں۔ یوں ہم دیکھتے ہیں کہ مغربی دنیا عملی طور پر صیہونزم کے زیر قبضہ ہے۔ جیسے ہی امریکہ میں صدارتی الیکشن قریب آتے ہیں ڈیموکریٹس اور ریپبلکنز صیہونی لابیز آئی پیک اور جی اسٹریٹ وغیرہ کے پاوں پکڑنا شروع کر دیتے ہیں۔

3)۔ تیسرا نکتہ غزہ جنگ اور عالمی نظام میں “آزاد فلسطین” نامی تصور ابھر کر سامنے آنے سے متعلق ہے۔ غاصب صیہونی رژیم گذشتہ طویل عرصے سے غیر اعلانیہ طور پر مغربی معاشروں پر اپنا تسلط جمائے ہوئے ہے اور مغربی حکمران درپردہ اس کے غلام بنے ہوئے ہیں۔ لیکن غزہ جنگ کے بعد یہ حقیقت کھل کر سامنے آ چکی ہے اور اب مغربی حکمران اعلانیہ اور سرکاری طور پر غاصب صیہونی رژیم کی غلامی کا اظہار کرنے لگے ہیں۔ شاید غزہ جنگ شروع ہونے سے پہلے اور امریکی اور یورپی حکمرانوں کی جانب سے صیہونی رژیم کی بھرپور اور غیر مشروط حمایت کا اظہار ہو جانے سے پہلے مغربی ممالک کے شہریوں کی اکثریت اس حقیقت کو قبول کرنے کیلئے تیار نہ ہوتی کہ ان کے حکمران درحقیقت صیہونی رژیم اور صیہونی لابیز کے غلام ہیں لیکن گذشتہ 11 ماہ سے زیادہ عرصے کے دوران مغربی رائے عامہ میں بہت بڑی اور اہم تبدیلی رونما ہو چکی ہے۔

صیہونی بربریت اور ظلم و ستم کے باعث مغربی معاشروں سمیت پوری دنیا میں انسانوں کا ضمیر بیدار ہو چکا ہے اور وہ مظلوم فلسطینی عوام کے حق میں اٹھ کھڑے ہوئے ہیں۔ امریکی کی تاریخ میں پہلی بار امریکی یونیورسٹی طلبہ نے اسرائیل کے خلاف اور فلسطینیوں کے حق میں بھرپور طلبہ تحریک چلا رکھی ہے۔ اسی طرح دیگر مغربی ممالک میں بھی فلسطین کے حق میں آواز اٹھنا شروع ہو گئی ہے اور مغربی حکومتیں اپنے تمام تر ہتھکنڈے بروئے کار لانے کے باوجود اس آواز کو پوری طرح دبانے میں ناکام رہے ہیں۔ واشنگٹن، لاس اینجلس، نیویارک، برلن، پیرس اور لندن اسرائیل مخالف اور فلسطین کے حق میں احتجاجی مظاہروں کی لپیٹ میں ہیں۔ عالمی رائے عامہ نے غاصبانہ قبضے اور آزادی کے مغربی تصورات کو مسترد کر دیا ہے۔ آج فلسطینی حریت اور آزادی کا مظہر بن گئے ہیں جبکہ اسرائیل ایک قابض قوت جانی جاتی ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ مستقبل قریب میں اس تبدیلی کے اثرات نمایاں طور پر دکھائی دیں گے۔