مودی سرکار نے جنت نظیر وادی کو جہنم بنا دیا
فاران تجزیاتی ویب سائٹ: بھارتی پولیس نے سری نگر کے علاقے حیدر پورہ میں چار کشمیریوں کو شہید کر دیا اور الزام عائد کیا کہ چاروں پولیس مقابلے میں شہید ہوئے ہیں۔ پولیس نے ساتھ یہ دعویٰ بھی کر ڈالا کہ پولیس نے انتہاء پسندوں کے ایک نیٹ ورک کو ٹریس کر لیا ہے۔ پولیس چاروں کشمیریوں کی لاشیں بھی ساتھ لے گئی، جبکہ موقع سے ایسے شواہد نہیں ملے کہ جسے پولیس مقابلہ قرار دیا جائے، بلکہ یہ پولیس گردی کی ایک خوفناک واردات تھی، جس میں بے گناہ کشمیریوں کو نشانہ بنایا گیا۔ شہید ہونیوالے چار میں سے تین کے لواحقین نے بھی اسے ظلم قراد دیتے ہوئے اسے پولیس گردی کہا ہے۔ لواحقین کا کہنا ہے کہ ان کے بچوں کا کسی انتہاء پسند جماعت سے کوئی تعلق نہیں تھا۔ پولیس نے بیگناہ شہید کر دیا اور اب ان کی لاشیں بھی واپس نہیں کی جا رہیں۔
دوسری جانب کشمیر کی سیاسی جماعتوں نے بھی جوانوں کی شہادت کے اس اندوہناک واقعہ پر افسوس اور مذمت کا اظہار کیا ہے۔ سیاسی قائدین نے واقعہ کی تحقیقات کا بھی مطالبہ کیا ہے اور کہا ہے کہ اس واقعے کے شواہد منظر عام پر لائے جائیں۔ پولیس نے پہلے الطاف احمد بٹ کو اپنی بربریت کا نشانہ بنایا اور الزام عائد کیا کہ الطاف بٹ انتہاء پسندوں کا سہولت کار تھا۔ شہید الطاف کے بھائی کے مطابق اس کا بھائی دکان چلاتا تھا اور پولیس اہلکار اکثر اس کی دکان کے پاس ہی تعینات ہوتے ہیں۔ پولیس بھی جانتی ہے کہ وہ ایک کاروباری شخص تھا، اس کے تعلقات انتہاء پسندوں سے کیسے ہوسکتے ہیں۔ شہید کے بھائی کا کہنا ہے کہ پولیس اہلکار آئے اور الطاف بٹ کو اپنی دکان بند کرنے کا کہا، الطاف بٹ نے انکار کیا تو اسے پکڑ کر ساتھ لے گئے اور قریب ہی واقع موٹر سائیکلوں کے شو روم میں بند کر دیا۔ اس شو روم میں 30 کے قریب اور لوگ میں موجود تھے۔
شہید عامر مگرے اور ڈاکٹر مدثر گل بھی اسی شو روم میں موجود تھے۔ پولیس نے الطاف بٹ سے کہا کہ ہم سرچ آپریشن کر رہے ہیں اور آپ کے گھر کی تلاشی لینی ہے۔ وہ الطاف بٹ کو ساتھ لے گئے، تلاشی لی اور پھر اسے واپس لا کر اسی شو روم میں بٹھا دیا۔ ایک رپورٹ کے مطابق پولیس والے دوبارہ الطاف بٹ کو ساتھ لے کر گئے، اس بار ڈاکٹر مدثر گل بھی ساتھ گیا، کچھ ہی دیر بعد گولیاں چلنے کی آواز آئی۔ جس کے بعد الطاف اور مدثر کو واپس نہیں لائے۔ مدثر ایک ڈینٹسٹ تھے۔ ان کی اہلیہ حمیرا گل کا کہنا ہے کہ مدثر گل دانتوں کے ڈاکٹر تھے، ان کے انتہاء پسندوں کیساتھ تعلقات نہیں تھے، پولیس نے بلاوجہ انہیں شہید کر دیا۔ پولیس ثابت کرے کہ ان کے تعلقات کن انتہاء پسندوں کیساتھ تھے؟ حمیرا گل نے دیگر کشمیریوں کے ہمراہ سری نگر میں احتجاجی مظاہرے میں بھی شرکت کی اور اپنے شوہر کے قتل کا حساب مانگا۔ اس واقعہ میں ڈاکٹر مدثر ہی نہیں بلکہ ان کے اسسٹنٹ عامر مگرے کو بھی شہید کیا گیا، جو کلنیک پر مدثر گل کیساتھ کام کرتے تھے۔
شہید عامر کی عمر 24 سال تھی، اس کے والد عبدالطیف مگرے کا کہنا ہے کہ عامر 5 ماہ سے مدثر گل کے کلینک پر کام کر رہا تھا۔ عامر مگرے دارلعلوم دیوبند میں زیر تعلیم تھا، کورونا کے باعث مدرسہ کچھ عرصے کیلئے بند ہوا تو عامر واپس سری نگر آگیا اور ڈاکٹر مدثر کے کلینک پر ملازمت شروع کر دی۔ ڈاکٹر مدثر کے کلینک کے اوپر والے پورشن میں شہید عامر کے بہنوئی اور بہن کرائے پر مقیم تھے، انہی کی بدولت عامر مگرے کو ڈاکٹر مدثر گل کے کلینک پر ملازمت ملی تھی۔ واقعہ کے دوسرے روز پولیس نے عامر مگرے کے والد کو بلایا اور لاش کی شناخت کروائی۔ پولیس نے کہا کہ ہم نے ایک شدت پسند کو قتل کر دیا ہے۔ عبدالطیف مگرے نے کہا ہے کہ اس کا بیٹا کسی طور شدت پسند نہیں ہوسکتا، اگر ثابت ہو جائے کہ عامر مگرے شدت پسند تھا تو اس کے پورے خاندان کو بھی قتل کر دیا جائے۔ عبدالطیف مگرے کا یہ دعویٰ کوئی چھوٹا دعویٰ نہیں، بلکہ یہ بھارتی پولیس اور فوج کے رویئے اور جھوٹ کیخلاف سچ کی آواز ہے۔
عبدالطیف مگرے کو یقین ہے کہ اس کا بیٹا شدت پسند نہیں تھا، اسی لئے تو اس نے اتنا بڑا دعویٰ کر دیا کہ اسے اور اس کے پورے خاندان کو قتل کر دیا جائے، مگر بھارتی پولیس اور فوج ابھی تک یہ ثابت نہیں کرسکے کہ شہید ہونیوالے چاروں لوگ شدت پسند تھے اور پھر مگرے خاندان تو شدت پسندوں کے ویسے ہی خلاف ہے۔ 2005ء میں ان کے گھر پر شدت پسندوں نے حملہ کر دیا تھا، اس حملے میں عبدالطیف مگرے زخمی بھی ہوئے تھے اور ایک شدت پسند کے سر میں پتھر مار کر اسے قتل بھی کر دیا تھا۔ تو ایسے خاندان کا فرد کیسے شدت پسندوں کیساتھ شامل ہوسکتا ہے، بھارتی پولیس کے جس افسر نے بھی یہ کہانی گھڑی ہے، اس سے یہ غلطی ہوگئی ہے کہ اس نے مگرے فیملی کے ماضی کو نہیں دیکھا۔ دوسری جانب بھارتی پولیس نے کہا ہے کہ شہید ہونیوالے کشمیریوں کو ہندواڑہ میں دفن کر دیا گیا ہے، جو سری نگر سے 70 کلو میٹر دور ہے۔
گذشتہ تین برسوں سے بھارتی فوج نے یہ روش اختیار کی ہوئی ہے کہ شہید ہونیوالے کشمیریوں کی لاشیں لواحقین کو نہیں دیتے۔ اس سے شہیدوں کے بے گناہی ثابت ہونے کا احتمال ہوتا ہے، دوسرا شہداء کے جنازوں میں بھرپور شرکت سے ریفرنڈم ہو جاتا ہے اور عالمی برادری جان لیتی ہے کہ شہیدوں کے جنازوں میں لاکھوں لوگوں کی شرکت بھارت سے اظہار برات ہے، اسی لئے اب شہداء کی میتیں بھارتی سکیورٹی فورسز خود ہی دفن کر دیتی ہیں۔ مذکورہ چار شہداء کے لواحقین کا یہی مطالبہ ہے کہ ان کے پیاروں کی لاشیں انہیں واپس کر دی جائیں۔ آئی جی کشمیر وجے کمار کا پریس کانفرنس میں کہنا تھا کہ چار شہید ہونیوالوں میں ایک بلال عرف حیدر ہے، جو پاکستان سے تھا۔ حیرت ہے، آئی جی صاحب کو جھوٹ بولتے ہوئے شرم بھی نہیں آئی، اگر شہید بلال پاکستان تھا، تو بھارت کے پاس تو پاکستان کی کشمیر میں مداخلت کو ناقابل تردید ثبوت تھا، اسے دنیا کے سامنے لایا جاتا، اس کی پاکستان میں رہائش، بہن، بھائیوں اور خاندان کا بتایا جاتا؟؟ مگر جھوٹ کے پاوں نہیں ہوتے، آئی جی نے جھوٹ بول تو دیا مگر ثابت نہ کرسکا اور شہید بلال کی فوری تدفین کر دی۔
سابق رکن پارلیمنٹ یوسف تاریگامی نے واقعہ کی جوڈیشل انکوائری کا مطالبہ کیا ہے اور کہا ہے کہ شہداء کی لاشیں ان کے لواحقین کو لوٹائی جائیں۔ اسی طرح محبوبہ مفتی نے بھی مودی سرکار کی اچھی کلاس لی ہے۔ محبوبہ مفتی نے اپنے ٹویٹ میں کہا کہ معصوم شہریوں کو انسانی ڈھال کے طور پر استعمال کرنا، انھیں کراس فائرنگ میں مار دینا اور انھیں او جی ڈبلیو (اوور گراؤنڈ ورکر) قرار دینا انڈین حکومت کی رول بُک کا حصہ بن گیا ہے۔ قابل اعتماد جوڈیشل انکوائری ضروری ہے، تاکہ سچ سامنے آسکے اور استثنیٰ کی روایت ختم ہوسکے۔ یہ کوئی پہلا واقعہ نہیں۔ اس سے قبل بھی بھارتی فوج اور پولیس مل کر ایسے ہی بہت سے بے گناہ کشمیریوں کو شہید کرچکی ہے اور ان کیخلاف کوئی کارروائی نہیں ہوئی۔
اب بھی پولیس نے سردیاں شروع ہونے سے پہلے کشمیری عوام پر اپنی دھاک بٹھانے کیلئے مذکورہ 4 کشمیریوں کو شہید کر دیا ہے، جو بیگناہ تھے، ایک ڈاکٹر تھا، دوسرا کلینک پر ملازمت کرتا تھا، ایک دکاندار تھا، چوتھے کو پاکستانی قرار دیدیا گیا۔ آخر بھارت سرکار کب تک جھوٹ کا سہارا لے کر بے گناہ کشمیریوں کو موت کی وادی میں دھکیلتی رہے گی؟؟ یہ ظلم صرف مقبوضہ کشمیر میں نہیں جاری بلکہ پورے بھارت میں مسلمانوں پر عرصہ حیات تنگ کیا گیا ہے۔ مسلمانوں کے گھر جلائے جا رہے ہیں، مدارس منہدم کئے جا رہے ہیں، مسلمانوں کو کاروبار کرنے سے روکا جا رہا ہے، مسلمانوں کیلئے جینا دوبھر ہوچکا ہے۔ مودی سرکار کی یہی پالیسیاں رہیں تو بھارت میں ایک اور پاکستان بھی بن سکتا ہے، کیونکہ مودی خود اپنے ہی ملک کو مزید ٹکڑوں میں تقسیم کرنے کی پالیسی پر عمل پیرا ہے۔
تبصرہ کریں