وحدت اسلامی کانفرنس (۵)

مولائے کائنات امام علی علیہ السلام کا ہم سب سے ایک سوال

ہمارے سامنے اپنے ملک میں لا تعداد چیلنجز ہیں ، کاش ہم سمجھتے ان چیلنجز کے سامنے ہمارا واحد موقف اگر سامنے آ جائے تو اسکا اپنا اثر رہے گا ، آج ہمارے ملک میں ہمارے ہی وطن میں آپ دیکھیں مسلسل مسلمانوں کے خلاف کس طرح فضا کو مکدر کیا جا رہا ہے کس طرح الیکشن آتے آتے مختلف دھڑے تقیسم کرو اور حکومت کر و کی پالیسی لیکر کھلم کھلا میدان میں آ جاتے ہیں۔۔۔

فاران: ہم نے مسسلسل گزشتہ تحریروں میں قرآن و روایات کے کی روشنی میں اس بات کو بیان کرنے کی کوشش کی کہ اتحاد آج محض وقت کی ضرورت ہی نہیں بلکہ دین کا بنیادی مطالبہ ہے اور قرآن کی پکار ہے ، محض یہ حکمت عملی نہیں کہ جب دشمنوں سے چاروں طرف سے گھر جاو تو مل جل کر مقابلہ کرو یہ عقل کا تقاضا ضرور ہے لیکن دین اس سے بڑھ کر ہماری ذمہ داری کی طرف ہمیں متوجہ کر رہا ہے وہاں دشمن کے خوف و ڈر کی بنیاد پر اتحاد ایک وقتی اسٹراٹیجی و حکمت عملی نہیں بلکہ دین کا ہم سے وہ تقاضا ہے جس پر عمل کئے بغیر ہم مسلمان نہیں ہیںآج اسی حقیقت کو بیان کرتے ہوئے اس بات پر ایک اچٹتی نظر ڈالنا ہے کہ کیا ہم واقعی اہلبیت اطہار علیھم السلام کے ماننے والے ان پر جان چھڑکنے والے ہیں؟ ہمارا تعلق اہلبیت اطہار علیھم السلام سے کیا ہے کتنا ہے ؟ ہمارا جتنا گہرا تعلق ہوگا اسی کے مطابق ہماری ذمہ داری کی تعیین ہوگی ۔اس لئے کہ کوئی بھی مسلمان قرآن و اہلبیت اطہار علیھم السلام کے فرامین کے سامنے لا تعلق نہیں ہو سکتا ہے قرآن و حدیث میں جا بجا ہم سے ایک ہونے ساتھ مل کر رہنے کا مطالبہ ملے گا ، امام علی علیہ السلام سے بڑھ کر منادی وحدت کون ہوگا مولا کی زندگی کے ۲۵ سال تلخ ترین سکوت کی داستان ہی کو بیان نہیں کرتے بلکہ اس بات کو بھی واضح کر رہے ہیں کہ تمہارا طریقہ کار کیا ہونا چاہیے ؟
آج ہم سب سے ہمارے امام و پیشوا مولائے کائنات سوال کر رہے ہیں کہ کیا تم متحد ہو ؟ کیا تم آپس میں ایک ہو کیا تم میرے چاہنے والے ہو میرے شیعہ ہو کیا تمہیں میری وصیت یاد ہے یا تم بھول گئے ؟ میں نے تو تمہیں اتحاد کی دعوت دی تھی پھر یہ اختلافات کو ہوا دینا کیسا ؟ میں نے تو تم سے کہا تھا :” سب کا خدا ایک ہے نبی ایک ہے کتاب ایک ہے تو کیا خدا نے اختلاف کا حکم کیا ہے تو کیا تم اللہ کے امر کی اطاعت کر رہے ہو یا اسکی معصیت کر رہے ہو کیا اللہ نے اپنے دین کو ناقص طور پر بھیجا ؟ …”
مولا کا یہ پورا خطبہ ہم سب کے لئے پڑھنے لائق ہے یہ ایک خطبہ ہی کیا پوری نہج البلاغہ ہم سے مطالبہ کر رہی ہے کہ کوئی تو آگے بڑھے اور مولائے کائنات کی اس کتاب کو غربت سے باہر نکالے اسکی تنہائی کو دور کرے ، آج نہج البلاغہ کے تعلیمات سے دوری کا نتیجہ ہے کہ ہمیں نہیں معلوم اپنے مخالفین کے ساتھ کیسا وریہ اختیار کرنا چاہیے اور معاندین کو کس خانے میں رکھنا چاہیے ۔
ہمارے سامنے اپنے ملک میں لا تعداد چیلنجز ہیں ، کاش ہم سمجھتے ان چیلنجز کے سامنے ہمارا واحد موقف اگر سامنے آ جائے تو اسکا اپنا اثر رہے گا ، آج ہمارے ملک میں ہمارے ہی وطن میں آپ دیکھیں مسلسل مسلمانوں کے خلاف کس طرح فضا کو مکدر کیا جا رہا ہے کس طرح الیکشن آتے آتے مختلف دھڑے تقیسم کرو اور حکومت کر و کی پالیسی لیکر کھلم کھلا میدان میں آ جاتے ہیں اگر وہ پھوٹ ڈالو اور حکومت کرو کے نظریہ کو لیکر ہمارے درمیان اختلافات کی بیج حکومت کی خاطر بو کر اسکی فصل کاٹ سکتے ہیں تو ہم اپنی بقا کی خاطر آپس میں متحد ہو کر انہیں انکے اہداف میں کیوں کر ناکام نہیں بنا سکتے ہیں ۔
لیکن یہ تو اسی وقت ہو سکتا ہے جب ہم خود کو پہچانیں اپنے دین کو جانیں اسکے تعلیمات کو پہچانیں ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کی کوشش نہ کر کے ایک دوسرے کو اٹھانے پر یقین رکھے ایک دوسرے کو تنہا کر کے خوش نہ ہوتے ہوئے ایک دوسرے کے ہاتھ میں ہاتھ دیکر معاشرے کو تنہائی سے نکالیں ،اپنے حق کا مل کر مقابلہ کریں ، دشمن کے سامنے ایک ساتھ ہو کر آئیں اور ملک و قوم کی تعمیر میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیں ، افسوس ہم اپنے وجود کو بھول چکے ہیں یہی وجہ ہے کہ سال میں جب بھی ہفتہ وحدت آتا ہے تو ہر سال کانفرنسیں و سمینار کر کے رہ جاتے ہیں اور سمجھتے ہیں ہماری ذمہ داری بس اتنی تھی جو ہم نے ادا کر دی اب اس سے زیادہ ہماری ذمہ داری نہیں ہے ۔ کاش یہ من و تو کہ جھگڑے نہ ہوتے اور کاش ہم قرآن کی آواز پر لبیک کہتے تو ہماری اپنے ہی ملک میں ساکھ ہی کچھ اور ہوتی ، جب ہمارا دشمن یہ جانتا ہے کہ انکے اندر اختلافات کی جڑیں بہت پرانی ہیں اور یہ کبھی ایک پلیٹ فارم پر نہیں آ سکتے تو وہ بھی آگے بڑھ کر ہم پر حملہ ور ہوتا ہے کیونکہ ہم خود اپنی ہوا نکالنے کا سامان کر چکے ہوتے ہیں ہم پر ضعف و سستی طاری ہو چکی ہوتی ہے دشمن تو اسی تاک میں ہے کہ انہیں تتر بتر کر کے اپنے ناپاک عزائم کو عملی جامہ پہنائے آج جو ملک میں ہماری صورت حا ل دن بہ دن ابتر ہو تی جا رہی ہے اس کی ایک بڑی وجہ یہی اختلاف ہے لیکن ہم اس کو سمجھنے کے لئے تیار نہیں ہے ایک دوسرے کے لئے دل میں جگہ نہیں ہے جسکے سبب ہماری ہی زمین کو دشمن نے ہم پر تنگ کر دیا کاش ہم متحد ہو کر آگے بڑھیں اور قرآن و اہلبیت اطہار علیھم السلام کا دامن پکڑ کر اس تاریخ کو دہرا سکیں جنہیں ہمارے بزرگوں نے رقم کیا تھا ،لیکن اسکے لئے اپنے وجود کے قفس سے نکل کر قوم و ملت کے بارے میں سوچنے کی ضرورت ہے جب ہمیں اپنے علاوہ قوم و معاشرے کے بارے میں سوچیں گے تب ہی ہماری فکر میں وسعت آئے گی ورنہ چھوٹی چھوٹی باتوں میں لڑ جھگڑ کر خود اپنا استحصال کراتے رہیں گے۔ تمام شد