مہدوی طرز حیات اور معاشرے کی ہمہ جہت ارتقاء
فاران تجزیاتی ویب سائٹ: ہمارے درپیش مسائل میں ایک سنگین مسئلہ معاشرے کی بڑھتی ہوئی خود غرضی ہے ہر ایک اپنے مفادات کی خاطر جی رہا ہے کسی کو کسی کے بارے میں سوچنے کا وقت نہیں ، جبکہ دنیا میں جو اتھل پتھل ہے ہر ایک آنے والے کل کو لیکر بے کل و پریشان ہے کسی کو نہیں معلوم آنے والا کل کیا چیلنجز لے کر آئے گا ایسے میں تصور مہدویت ہمیں ایک خاص سمت کی طرف متوجہ کرتے ہوئے ناامید نہیں ہونے دیتا ، آج ہم دیکھیں تو پائیں گے کہ معاشرے کے ارتقاء میں اس عقیدہ مہدویت کا ایک ناقابل فراموش کردار ہے یہ اور بات ہے کہ ہم اپنے کردار کو ادا نہ کر پانے کی وجہ سے یا اپنے ایمان کی کمزوری کی وجہ سے اپنے معاشرے کو وہ سب کچھ نہ دے سکیں جو اس عقیدے کا لازمہ ہے۔
مہدویت کے تصور میں ایک اہم چیز معاشرے میں امید کی فضا کو جگائے رکھنا ہے اور انسان کو جدو جہد پر وادار کرنا ہے آج آپ دیکھیں دنیا میں ہر ایک علم کی طاقت کا معترف ہے ہر ایک جانتا ہے بغیر علم اسکا وجود ادھورا ہے ، اسی طرح ہر انسان یہ بھی جانتا ہے کہ علم کے ساتھ ساتھ پاور کا ہونا بھی ضروری ہے علم خود بھی پاور کا ذریعہ ہے لیکن کتنی ہی ایسی جگہیں جہاں جہالت کو طاقت حاصل ہو جاتی ہے اور علم کا استحصال ہوتا ہے ، ہمارے ملک میں کتنی ہی جگہ ایسے نمونے آپ کو مل جائیں گے جہاں ایک آئی ایس آئی آفیسر کسی ایم پی کی بات ماننے پر مجبور ہے، یا کوئی اعلی پڑھا لکھا آفیسر کسی جاہل وزیر کی نامعقول باتوں پر عمل کرنے پر مجبور ہے ، کتنی ہی ایسی جگہیں ہیں جہاں بڑے بڑے پڑھے لکھے لوگ محض اس لئے اپنے جاہل باس کی باتیں ماننے پر مجبور ہیں کہ اس کے ماتحت ہیں یہ پاور ہی کی وجہ ہے سے ہے ، پاور علم کے ساتھ ہو تو معاشرے میں نکھار کا سبب ہے لیکن جہالت کے ساتھ ہو تو تباہی و بربادی کا ذریعہ ہے آج کا انسان اپنی زندگی میں جس چیز کے بارے میں زیادہ سوچتا ہے وہ علم اور طاقت ہے وہ لوگ جو انسانیت کی خدمت کرنا چاہتے ہیں وہ بھی یہی سوچتے ہیں کہ اپنی صلاحیتوں کو لوگوں کی زندگیوں میں آسائش و انکے مختلف کمالات میں نکھار کے لئے استعمال کریں اور معاشرے کو علم کے ذریعہ فائدہ پہنچائیں، یہاں نہ ایمان کی شرط ہے نہ عمل کی کوئی بھی انسان انسانیت کی خدمت کر سکتا ہے لیکن غور کریں تو حقیقی خدمت انسانیت بغیر ایمان کے ممکن نہیں، جو بھی خدمت کرے گا وہ کسی نہ کسی صلے کا امید وار ضرور ہوگا کم از کم اتنا تو ہوگا ہی کہ وہ چاہے گا اسکی خدمات کا اعتراف کیا جائے اس کا نام ہو اسے سراہا جائے لیکن جب انسان کے دل میں ایمان کا چراغ روشن ہو جائے تو اسکی کوئی خواہش نہیں رہتی سوائے اس کے کہ اس کا خدا اس سے راضی رہے تصور مہدویت معاشرے کو علم و آگہی و ایمان کی طاقت کے ساتھ ایسے میدان عمل میں لا کر کھڑا کرنے کا سبب ہے جہاں انسان کسی صلہ کی امید کئے بغیر کسی لالچ کے بغیر انسانیت کی خدمت اس لئے کرتا ہے کہ وہ ایسے قافلے کا حصہ ہے جس کا قافلہ سالار معاشرے میں عدل و انصاف کا پرچم لہرانے کے لیے آئے گا انسانیت کو نجات دینے کے لئے آئے گا ۔
ہماری ایک بڑی مشکل :
آج ہمارے درمیان ایسے بہت سے لوگ ہیں جو ماہ مبارک میں روزے رکھتے ہیں نماز پڑھتے ہیں ان کے دل محبت اہلبیت اطہار علیھم السلام سے سرشار ہیں لیکن ماہ مبارک کے علاوہ اگر انکی نماز اول وقت نہ ہو سکے یا کبھی پڑھی جائے کبھی چھوٹ تو انکو کوئی ملال نہیں ہوتا نہ چھوٹ جانے والی نمازوں کو لیکر فکر مند ہوتے ہیں اور نہ ہی روزوں کی قضا کے بارے میں سوچتے ہیں کبھی نیک عمل انجام دیتے ہیں کبھی برےاعمال کی طرف چلے جاتے ہیں یہ لوگ حرام موسیقی سے نہ صرف گریز و پرہیز نہیں کرتے بلکہ کبھی کبھی جینے کے لئے ضروری بھی سمجھتے ہیں۔
ا یسے میں سوال یہ ہے کہ کیوں بعض لوگوں کی عبادت اور زیارت شب ہائے قدر میں عام دنوں سے مختلف ہوتی ہے کیونکر عام دنوں سے ہٹ کر مخصوص ایام میں وہ دین کے پابند ہو جاتے ہیں ، یہ بات کس چیز سے تغافل کا نتیجہ ہے اسکا حل کیا ہے ؟ ۔
اگر ہم غور کریں تو اس کے مختلف اسباب ہو سکتے ہیں ایک تو تقلیدی فضا کا ہونا کہ معاشرے میں جو کچھ ہو رہا ہے یہ اسکو ہی تسلیم کرتے ہوئے آگے بڑھتے ہیں ان کو دین سے کوئی لینا دینا نہیں ہے رسمی طور پر بس یہ مانتے ہیں ہیں کہ ہم مذہب سے جڑے ہوئے ہیں کافر نہیں ہیں جبکہ عملا کئی ایسی چیزیں ہیں جہاں یہ خدا کا انکار کرتے نظر آتے ہیں ، ایک سبب عدم معرفت ہے ممکن ہے عقیدے میں پختگی نہ پائے جانے کے سبب ایسا ہوتا ہو ، چونکہ عقیدے کی مضبوطی انسان کے عمل کے ثبات کا سبب ہے ، ایک وجہ انکی غفلت یا انکا تغافل بھی ہو سکتا ہے ایسے لوگ جو دین کے امور کی انجام دہی میں ثابت قدم نہیں ہیں ، انہیں یاد دہانی کراتے رہنے کی ضرورت ہے کہ اگر انہیں حقیقی حیات مل گئی اور اس پر یہ دائمی طور پر چلتے رہے اور انہوں نے اپنے عمل سے امام زمانہ عجل اللہ تعالی فرجہ الشریف کے ظہور کی فضا کو فراہم کر دیا تو یہ چیز حیات طیبہ کی مکمل تجلی کا مصداق ہوگی مہدوی طرز حیات کی پہچان یہی ہے کہ یہاں انسان کسی چیز سے غافل نہیں رہتا اور اس قرآن پر مکمل یقین رکھتا ہے جس کے احکام و معارف ایک دوسرے سے جڑی ہوئی ایک کہکشاں کی طرح ہیں سارے تعلیمات ایک مکمل نظام حیات کو پیش کرتے ہیں حقیقی پرہیز گار بھی وہی ہے جو قرآن کے مکمل ضابطہ حیات پر عمل کرے ایسا نہ ہو بعض پر یقین رکھتا ہو بعض پر یقین نہ ہو کچھ احکامات پر عمل کرے کچھ کو چھوڑ دے «ارشاد ہوتا ہے : کیا تم بعض کتاب آسمانی کے احکامات پر ایمان لے آئے اور بعض کے منکر ہو گئے ہو ؟ اس لوگوں کے لئے جو قوانین الہی و احکام الہی کے درمیان اس طرح کا کام کریں گے کہ کچھ کو لے لیں اور کچھ کو چھوڑ د یں اس دنیا میں رسوائی ہی لکھی ہے اس رسوائی کے سوا انہیں کچھ نصیب نہ ہوگا اور دنیاوی رسوائی کے ساتھ وہ آخرت کے شدید عذاب میں گرفتار ہوں گے
مہدوی طرز حیات یعنی قرآنی اسلوب حیات جب ہم قرآن کے طرز حیات کی بات کریں گے تو ہمیں ملے گا کوئی ایک عمل کسی خاص جگہ پر کافی نہیں ہے بلکہ مکمل دیندار ہونا ضروری ہے اس بات کا ایک واضح اور روشن نمونہ نماز کا حکم ہے قرآن کریم میں ایک مقام پر نماز کا حکم دیا گیا ہے تو دوسری جگہ دین اس بات کو بیان کرتا ہے کہ صرف نماز پڑھ لینا اللہ سے کچھ دیر کے لئے جڑ جانا کافی نہیں ہے بلکہ زندگی کے تمام مراحل میں اللہ کے ساتھ تعلق ہونا چاہیے حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم فرماتے ہیں : اگر کسی عورت نے اپنے شوہر کو اذیت دی تو چاہے وہ ساری زندگی روزہ رکھے روز رات کو عبادت کرے لیکن اس کی نماز و عبادت قبول نہیں ہوگی۔
اس اسلوب حیات کے مطابق نماز پڑھنا صرف نماز کے وقت میں نہیں ہے بلکہ ساری زندگی میں ضروری ہے کہ انسان نماز پڑھے نماز کو زندگی کے ہر مرحلے میں جاری کر دے ، اب نماز دوسروں کے لئے اس قدر حسین و خوبصورت ہو جائے گی کہ نماز کی تبلیغ کی ضرورت نہیں رہ جائے گی ، نماز دین کا اہم دستور ہے دیگر دین کے احکام بھی نماز کی ہی طرح ہیں شریعت کے احکامات پر اگر عمل ہو تو یہ وہ چیز ہے صحت مند و صحیح و سالم معاشرے کی تعمیر کا سبب ہے یہ خود حیات طیبہ کا ایک مصداق ہو سکتی ہے اور امام زمانہ عجل اللہ تعالی فرجہ الشریف کے ظہور کی فضا کی فراہمی کا سبب ہو سکتی ہے ۔
جب انسان یہ سوچ کر اپنے عمل کو مستمر و پائدار بناتا ہے کہ میرا عمل محض میرا عمل نہیں ہے بلکہ اس کے ذریعہ سے ہم ایک ایسے منجی بشریت کی ظہور کی فضا فراہم کر رہے ہیں جو آئے گا تو دنیا میں امن و امان قائم ہوگا دنیا ظلم و ستم سے نجات پا جائے گی عدل و انصاف کی حکومت ہوگی تو ظاہر ہے پھر اس سامنے اسکی ذات نہیں ہوتی وہ اپنے عمل کے ساتھ ساتھ دوسروں کو بھی با عمل بنانے کی کوشش کرتا ہے اور یہ وہ چیز ہے جس سے پورا معاشرہ ایک ساتھ اوپر اٹھتا ہے ۔
تصور مہدویت انسان کو انفرادیت سے نکال کر معاشرے کے بارے میں فکر مند بناتا ہے اس طرح کے اس تصور کا حامل انسان محض اپنے وجود کے خول میں نہیں رہتا بلکہ اپنے تمام اعمال نیک کاموں کے ساتھ ایک عظیم مشن کا حصہ بن جاتا ہے
وہ عظیم مشن جس کا اختتام دنیا میں عدل و انصاف کے پرچم کے لہرائے جانے پر ہوگا ، وہ مشن جو انبیاء کے خوابوں کی تعبیر اور معاشرے کے ھمہ جہت ارتقائی سفر کے بعد ظہور کی منزل پر منتہی ہوگا ۔ اللہم عجل لولیک الفرج ۔۔۔
تبصرہ کریں