میرزا تقی خان امیر کبیر؛ اور قاجاری دربار میں یہودی اثر و رسوخ

ناصرالدین شاہ کے قتل کے بعد نئے قاجاری بادشاہ مظفر الدین شاہ قاجار کے زمانے میں - تقریبا سنہ 1898ء میں - تہران میں اور پھر یکے بعد دیگرے دوسرے شہروں میں اس اتحاد کے شعبے قائم کیے گئے؛ تاکہ یہ شعبے ایران میں اس صہیونی ادارے کے اہداف و مقاصد کی پیروی کریں اور ان پر عملدرآمد کریں۔ یہ کوششیں پہلی عالمی جنگ تک حیرت انگیز انداز سے نہایت پراسرار طور پر، جاری رہیں۔

فاران؛ قاجاری سلسلہ سلطنت (1789-1925ء) کے بادشاہوں کی زندگانی کا مطالعہ کر رہا ہے جو میرے لئے بہت عجیب تھا کیونکہ شاہ کے حاشیہ برداروں میں کئی یہودی بھی ہوا کرتے تھے۔ شاہ کے اطراف میں موجود کچھ اطباء اور ڈاکٹروں سے لے کر شاہ کی اماں جان تک، سب یہودیوں سے متاثر تھے۔ سوال یہ اٹھتا ہے کہ شاہ کے آس پاس کچھ یہودی، بابی، ماسونی وغیرہ کیا کرتے تھے؟ جی ہاں! دشمن نے اس حقیقت کا بخوبی ادراک کرلیا تھا کہ ایک نظام حکومت میں تبدیلی لانا راتوں رات ممکن نہیں ہے… ۔
یہودی لابی حکمرانی کے رویے میں تبدیلی کی خواہاں
ناصر الدین شاہ قاجار کی حکومت میں میرزا تقی خان امیر کبیر نے وزارت عظمی کا عہدہ سنبھالا تو انھوں نے ایران کی سیاسی اور سماجی سلامتی کے مختلف شعبوں میں وسیع اصلاحات کا اہتمام کیا۔
یہ اصلاحات اور تبدیلیاں فوج، صنعتوں، ڈاک، تعلیم و تربیت وغیرہ میں بھی بہت سنجیدہ اور نمایاں تھیں۔ مدرسۂ دارالفنون کی تاسیس ان اصلاحات اور تبدیلیوں میں سرفہرست تھی۔ انھوں نے صحت اور حفظان صحت، اور متعدی امراض کا انسداد بذریعۂ ٹیکا کاری یا تلقیح (1)، کا اہتمام، اُس دور میں اس قدر قابل توجہ تھا کہ اسی دور کے کئی یورپیوں کو اعتراف کرنا پڑا اور ان اقدامات کو خراج تحسین پیش کیا۔
امیر کبیر نے بابیوں کے صہیونی فتنے کو ناکارہ کر دیا
امیر کبیر نے علی محمد باب کے ماسونی-صہیونی فتنے کی آگ کو ٹھنڈا کرلیا تھا؛ ایسا فتنہ اور ایسی سازش، جسے یہودی عناصر اور حلقوں نے ایرانی قوم کے سیاسی استحکام، سماجی ڈھانچے اور تہذیبی تشخص کے درہم برہم کرنے کے لئے تیار کیا تھا؛ یہاں تک کہ انھوں نے ایران میں بہت سوں کو متاثر بھی کر لیا تھا۔ ایران میں امیر کبیر کے یہ انتظامات اور اقدامات، صہیونی مراکز کے دسیسوں کے ذریعے نافذ ہونے والے پروگراموں کے ساتھ ناسازگار تھے۔
ایک طرف سے اندرونی معاملات کو نظم و نسق دینے اور دوسری طرف سے دشمنوں کی فتنہ انگیز سازشوں کو ناکام بنانے میں جناب امیر کبیر کی کیاست اور زیرکی نے، انہیں مغرب کے قہر کا، نشانہ بنا دیا تھا؛ یہاں تک کہ اس وقت کے برطانوی سفارتخانے کے سیکریٹری رابرٹ گرانٹ واٹسن (2) نے اپنی کتاب “تاریخ ایران” میں اعتراف کیا ہے کہ “امیر کبیر میرزا محمد تقی خان شیرازی، مشرقی سرزمینوں کی سیاسی شخصیات میں منفرد شخصیت رکھتے تھے۔ … وہ حقیقتاً اشرف المخلوقات (Noblest Work of God) کہلانے کے لائق تھے”۔ (3) یہ سارے حقائق سبب بنے تھے کہ انہیں منظر عام سے ہٹا دیا جائے۔ چنانچہ آخرکار، انہیں صہیونی مراکز اور ماسونی تنظیموں (4) اور ان کے اندرونی گماشتوں کی سازش اور منصوبہ بندیوں اور ناصرالدین شاہ قاجار کے حکم پر کاشان کے باغ فین میں قتل کردیا گیا۔
امیر کبیر کو ایران کے اقتدار اور سیاست کے منظر سے ہٹا دیا گیا تو میرزا آقا خان نوری کو ان کی جگہ وزیر اعظم بنایا گیا۔ نوری کے دور میں نہ صرف ایران کی پالیسی سازی اور منصوبہ بندی میں اجنبی قوتوں کا اثر و رسوخ بڑھ گیا بلکہ سلامتی اور امن و امان کا جو نظام امیر کبیر نے قائم کیا تھا، اس کا شیرازہ بکھر گیا اور ملکی حالات لاقانونیت اور افراتفری کا شکار ہوئے۔ یہودی عناصر اور برطانیہ، ماسونیت اور صہیونیت سے وابستہ اجنبی عناصر نے اس دور میں ایران کو کمزور کرنے کے لئے اندرون ملک نیز ایران کے آس پاس کے علاقوں میں فتنوں اور بدامنیوں کے اسباب فراہم کرنے کے علاوہ دربار شاہی کے اراکین اور ناصر الدین شاہ کے درمیان شدیدترین فتنہ انگیزی کا اہتمام کیا۔
دربار میں یہودیت کا اثر و رسوخ، شاہ کی ماں سے ان کے طبیبوں تک
شاہ کی ماں “مہدِ علیا” اور بعض با اثر افراد کی سازشوں کی رو سے ناصر الدین شاہ کے ہاتھوں امیرکبیر میرزا تقی خان فراہانی کا قتل اس زمانے کا نہایت لرزہ خیز واقعہ تھا۔ اس واقعے کے اثرات اس وقت اہمیت اختیار کرتے ہیں جب ہم دیکھتے ہیں کہ ناصر الدین شاہ پراسرار طور پر جرمن یہودی [یا برطانوی] طبیب جیکب ایڈورڈ پولاک (5) اور بعدازاں فرانسیسی یہودی طبیب ڈاکٹر جوزف ڈیزیرے تولوزان (6) کے زیر اثر تھے۔ شاہ کی ماں مہد علیا کا ذاتی طبیب حکیم یحزقل المعرف بہ “حق نظر” بھی یہودی تھا۔
حبیب لوئی اپنی کتاب “تاریخِ یہودِ ایران” جلد نمبر 3، صفحہ 665 میں یہودی طبیب یحزقل [حق نظر] کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ ناصر الدین شاہ اس یہودی طبیب کو بہت پسند کرتی تھیں”۔
حکیم یحزقل محمد شاہ قاجار اور بعدازاں ناصر الدین شاہ قاجار کے دوران، قاجاری دربار میں بہت زیادہ اثر و رسوخ رکھتا تھا اور یہودی حلقے اس کو “قاجاری دربار کا مُردخائے” کا لقب دیتے تھے اور اس کو ہخامنشی بادشاہ خشایارشا کے دربار میں موجود مُردخائے کے برابر سمجھتے تھے۔ اسی بنا پر یہودیوں کے ہاں اس کو تعظیم کی نگاہ سے دیکھا گیا ہے۔
جیکب ایڈورڈ پولاک، ناصرالدین شاہ کا یہودی طبیب
جیکب ایڈورڈ پولاک سنہ 1855ء سے سنہ 1860ء تک ناصر الدین شاہ قاجار کا یہودی طبیب تھا جو شاہ کے دربار میں بہت زیادہ اثر و رسوخ رکھتا تھا۔
ڈاکٹر جوزف ڈیزیرے تولوزان المعروف بہ “حکیم باشی” بھی سنہ 1859ء سے 1897ء تک – اور ناصر الدین شاہ کے قتل سے کچھ عرصہ بعد تک – دربار کا خصوصی طبیب تھا اور قاجاری دربار میں وسیع اثر و رسوخ رکھتا تھا۔ منقول ہے کہ ایران میں “تمباکو پر اجارہ داری” اور بینک کے قیام کا استحقاق اسی شخص نے غیرملکیوں کے سپرد کیا تھا۔ یہ شخص سنہ 1897ء میں دربار سے 6000 تومان بطور تنخواہ وصول کرتا تھا، اور یوں اس کی تنخواہ اس زمانے میں انفرادی حیثیت رکھتی تھی۔
علاوہ ازیں، انگریز ایران میں افراتفری پھیلانے کے لئے ناصری دور کے سازشی وزیر ا‏عظم میرزا آقا خان نوری جیسے سازشی ماسونیوں سے بھی بھرپور فائدہ اٹھاتے تھے نیز اپنے اندرونی گماشتوں کے ذریعے بدامنی اور افراتفری پھیلاتا تھا۔ انگریزوں نے ان ہی افراد کے توسط سے ایران سے افغانستان کی علیحدگی کے اسباب فراہم کیے۔
بےشک اس دور کے ایران کی صورت حال حادثاتی طور پر معرض وجود میں نہیں آئی تھی اور اس صورت حال کو سلطنت عثمانیہ میں رونما ہونے والے مشابہ واقعات سے الگ تھلگ نہیں سمجھا جاسکتا۔ ایک طرف سے یہودی مراکز سے بھجوائے جانے والے ایلچی، اور دوسری طرف سے ایران میں تعینات یورپی سفارتخانے میں سرگرم عمل مغربی نمائندے، ایران کی صورت حال کو مکمل طور پر زیر نظر رکھے ہوئے تھے۔
علاوہ ازیں ناقابل انکار دستاویزات کے مطابق، ایرانی یہودیوں کے زعماء اور قا‏ئدین بھی یورپ کی امیرشاہی اور زر پرست اشرافیہ اور یہودی مراکز کے ساتھ قریبی تعلق رکھتے تھے۔
مارچ 1865ء میں عظیم ثروت کے مالک اور برطانوی یہودیوں کے زعیم موشے مونٹیفیورے (7) کے ساتھ ہمدان کے یہودیوں کی خط و کتابت اور اسی سال (سنہ 1865ء میں) عالمگیر اسرائیلی [یہودی] اتحاد (8) کے نام تہران کے یہودیوں کے پیشوا ملا ربی اسحاق (9) کے ارسال کردہ خطوط وغیرہ اس حقیقت کے عینی ثبوت ہیں۔
گوکہ زیادہ تر یہودی انیسویں صدی کے دوران ایران میں بڈھے استعمار (برطانیہ) کے لئے جاسوسی میں مصروف تھے، یہودی تنظیمیں بھی اس دوران اپنا اثر و رسوخ بڑھانے میں مصروف رہے۔ بطور مثال عالمگیر یہودی اتحاد کے مئی 1865ء کے اجلاس میں ایران کے بارے میں بحث و تمحیص ہوئی جس میں ایران کے اندرونی حالات اور ایران کے یہودیوں کی صورت حال کا جائزہ لیا گیا اور متعلقہ کمیٹی کے اراکین نے فیصلہ کیا کہ ایران میں اس اتحاد سے وابستہ مراکز قائم کیے جائیں۔
حبیب لوئی اپنی کتاب “تاریخِ یہودِ ایران” میں [بابی فرقے کے سرغنے] سید علی محمد باب کے ساتھ ایرانی یہودیوں کے رابطوں کا اعتراف کرتا ہے، اور کہتا ہے کہ بڑی تعداد میں با اثر یہودی اس سے جا ملے۔ حبیب لوئی نے حتی یہ بھی کہا ہے کہ “سید علی محمد باب شیرازی عام طور پر معلومات حاصل کرنے کے لئے یہودیوں کے ساتھ رابطے میں رہتا تھا”۔ (10)
حبیب لوئی، سنہ 1844ء میں سید محمد علی باب کے دعوے کے قصے کو ایک نئی سمت دے دی جس نے ایران – بالخصوص ہمدان، کاشان، اراک، اور بعدازاں تہران – کے ہزاروں یہودیوں کے مقدرات کے تعین میں خاص کردار ادا کیا۔
لوئی لکھتا ہے: اس نئی تحریک [بابیت] اور اسے کے بعد میرزا حسین علی بہاء اللہ کی تحریک [بہائیت] کے کرتے دھرتے ایران کے یہودیوں کے ساتھ وسیع سطح پر رابطے میں تھے اور یہی رابطے دوسرے اسباب کے ساتھ مل کر، اس مسئلے کا موجب بنے کہ بےشمار ایرانی یہودیوں نے اپنا معاشرہ [یہودیت] کو چھوڑ کر اس نئی تحریک میں شمولیت اختیار کرلی۔
خالصتاً یہودی تنظیم “عالمگیر یہودی اتحاد” اسی زمانے میں [بسال 1862ء] مراکش کے شہر تطوان (11) میں، سنہ 1864ء میں مراکش ہی کے شہر طنجہ (12) میں، سنہ 1865ء میں عراق کے دارالحکومت بغداد میں اور سنہ 1867ء میں سلطنت عثمانیہ [موجودہ ترکی] کے شہر ادرنہ (13) میں اپنے شعبے قائم کرنے میں کامیاب ہوگئی۔
اسی بنیاد پر انھوں نے ایران میں بھی سنجیدہ اور وسیع کوششوں کا آغاز کیا اور اس حوالے سے اس کو تہران میں برطانیہ اور فرانس کی ہمہ جہت اور سنجیدہ حمایت حاصل تھی۔ حتی کہ اس تنظیم کے نمائندوں کو برطانیہ کی طرف سے ایک سائنسی وفد کے سانچے میں تہران روانہ کیا گیا۔
یہ کوششیں ناصرالدین شاہ کے پہلے دورہ یورپ بسال 1873ء تک بلا ناغہ جاری رہیں۔ یہاں تک کہ اس دورے میں یورپ کی با اثر یہودی مراکز اور تنظیموں کے سربراہوں نے اس دورے میں، ناصرالدین شاہ سے ملاقاتیں کیں اور ان کے سامنے اپنے مطالبات پیش کیے جن میں، ایران میں مذکورہ یہودی اتحاد کے شعبے قائم کرنے کا مطالبہ بھی شامل تھا۔ ناصرالدین شاہ اور میرزا حسین خان سپہ سالار اور وزیر اعظم نے ان کے مطالبات منظور کرتے ہوئے تہران واپسی پر ان [یہودیوں] کے مطالبات کی پیروی اور ان پر عمل درآمد کا وعدہ کیا۔
المختصر، ناصرالدین شاہ کے قتل کے بعد نئے قاجاری بادشاہ مظفر الدین شاہ قاجار کے زمانے میں – تقریبا سنہ 1898ء میں – تہران میں اور پھر یکے بعد دیگرے دوسرے شہروں میں اس اتحاد کے شعبے قائم کیے گئے؛ تاکہ یہ شعبے ایران میں اس صہیونی ادارے کے اہداف و مقاصد کی پیروی کریں اور ان پر عملدرآمد کریں۔ یہ کوششیں پہلی عالمی جنگ تک حیرت انگیز انداز سے نہایت پراسرار طور پر، جاری رہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مصادر:
– کتاب سفرنامۂ پولاک، ترجمہ: کیکاوس جہانداری
– کتاب “تاریخ یہودِ ایران”، بقلم: حبیب لوئی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ جات:
1. Inoculation OR Vaccination
2. Robert Grant Watson
3. Masonic OR Mark lodges
4. Robert G. Grant: A History of Persia, Smith Elder & co. 65 CORNHILL, 1866, p364.
5. Jacob Edward Pollock [1818-1891].
6. Joseph Désiré Tholozan, (9 October 1820 in Diego Garcia, Mauritius – 30 July 1897 in Tehran, Iran).
7. Moshe (Moses) Montefiore [1784-1885].
8. Alliance Israélite Universelle.
9. Mullah Rabbi Isaac.
10۔ حبیب لوئی، تاریخِ یہودِ ایران، ج3، ص604۔
11. Tetouan
12. Tangier
13. Edirne