نئی امریکی انتظامیہ اور اسرائیل کا آمنا سامنا (دوسرا حصہ)
فاران تجزیاتی ویب سائٹ: گزشتہ سے پیوستہ
بنیادی سوال یہ ہے کہ: جو ڈیموکریٹ جماعت اسرائیلی سلامتی کے لئے ضروری دفاعی سسٹم کے بجٹ کی حمایت نہیں کرتی تو کیا وہ اسرائیل کو صحیح راہنمائی والے ہتھیار، یا جدید ترین جنگی طیاروں، یا طویل فاصلے پر فضائی حملوں کے لئے درکار، ایندھن بھرنے والے فضائی ٹینکر (طیاروں) جیسے جارحانہ ہتھیاروں کی فراہمی کی حمایت کرے گی؟
ایسا لگتا ہے کہ امریکی، ڈیموکریٹس اور ریپبلکن جماعتیں دونوں، اسرائیل کی سلامتی کو یقینی بنانے کے لیے دفاعی اور جارحانہ ہتھیاروں کی فراہمی کی حمایت کرتے رہیں گے اور ان کی منظوری دیتے رہیں گے، لیکن اسرائیل کی فوجی ضروریات پر بحث میں اضافہ ہوگا اور تنقید میں شدت آئے گی؛ اور یہ رجحان امریکی حکام اور قانون سازوں، خاص طور پر ڈیموکریٹ جماعت اور اس کے انتہائی بائیں بازو کے دھڑے کے ہاں اسرائیل کی پوزیشن کی کمزوریوں اور زد پذیریوں کو ظاہر کرتا ہے، جو درمیانی اور طویل عرصے میں اسرائیل کے لیے اہم چیلنج ہیں۔
یہ بتانا بھی ضروری ہے کہ ڈیموکریٹ جماعت کے ہاں اسرائیلی پوزیشن کی کمزوری کے دو بنیادی اسباب ہیں:
الف) یہ در حقیقت اسرائیل کے سلسلے میں ٹرمپ کے رویے کا رد عمل ہے، کیونکہ اس نے اسرائیل کے مسئلے کو ایک سیاسی مسئلے میں تبدیل کیا اور اس کی غیر مشروط حمایت کی جس کی وجہ سے ڈیموکریٹ جماعت کے ہاں اس کی پوزیشن کمزور پڑ گئی۔ ٹرمپ ذاتی طور پر ایک تفرقہ انگیز شخص تھا اور اس کی حمایت کی وجہ سے ڈیموکریٹوں کے ہاں اسرائیلی پوزیشن کو نقصان پہنچا؛ اور ظاہر ہے کہ سابق صہیونی وزیر اعظم نیتن یاہو نے بھی ٹرمپ کے ساتھ خصوصی تعلق بنا کر اس زدپذیری کو ہوا دی۔
ب) امریکی معاشرے کے اندر عمرانیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے امریکہ کی پڑھی لکھی نوجوان نسل نیز اس ریاست میں آ بسنے والے پناہ گزینوں کی دوسری نسل، کی طرف سے اسرائیل کے اقدامات اور پالیسیوں پر کھلی اور بے باکانہ تنقید سامنے آ رہی ہے اور یوں امریکہ میں بھی اور صہیونی ریاست میں بھی، اسرائیل کی روایتی غیر مشروط حمایت رفتہ رفتہ فرسودہ ہو رہی ہے۔ امریکی معاشرے کے بطن میں انتہائی بائیں بازو سے تعلق رکھنے والی ڈیموکریٹ تنظیمیں اور ادارے، اسرائیل کے امریکی ناقدین اور فلسطینیوں کے حامی دھارے، جدید سماجی اور مدنی تحریکوں کے ذریعے اسرائیل کو چیلنج کر رہے ہیں۔
چنانچہ اسرائیلی ریاست اپنی خاص توجہ امریکہ میں اپنی تصویر درست کرنے پر مرکوز کرنے پر مجبور ہے۔ اس ریاست کی کوشش ہے کہ ڈیموکریٹ جماعت اور امریکی رائے عامہ کے سامنے نیتن یاہو کی حکومت کی مختلف تصویر پیش کرے؛ اور موجودہ “تبدیلی کی حکومت” – جو صہیونی پارلیمان (کنیست = Knesset) میں بائیں بازو کی جماعتوں، اعتدال پسندوں، اور عربوں پر مشتمل آٹھ پارٹیوں کے اتحاد سے قائم ہوئی ہے – کو جمہوریت کی علامت کے طور پر متعارف کرائے اور کنیست کے بائیں بازو سے وابستہ اراکین نیز اعتدال پسندوں اور عرب اراکین اور ان کے امریکی ہم منصبوں، خاص طور پر ڈیموکریٹ جماعت کے اراکین کے درمیان تعلقات کو فروغ دے۔
اور تعلقات کی بحالی کے عمل کو بھی علاقائی سطح پر امن و استحکام اور تناؤ میں کمی کے نمونے کے طور پر، جاری رکھے اور فلسطین کے مسئلے کے حل کے سلسلے میں فلسطین میں دو ریاستی منظرنامے کو بھی مد نظر رکھے۔
2۔ مسئلۂ فلسطین:
فلسطین میں دو ریاستی حل پر امریکی تاکید بھی نئی امریکی حکومت کے سامنے اسرائیل کے لئے متعدد چیلنجوں کا سبب بنی ہے۔ اسرائیل کسی وقت بھی فلسطینیوں کے مسئلے کو نظر انداز، اور اس کا انکار نہیں کرسکتا کیونکہ فلسطینی بھی ایک حقیقت ہیں اور ان کی جدوجہد بھی ایک علاقائی حقیقت ہے۔
نئی امریکی انتظامیہ دو ریاستی حل پر زور دیتی ہے، لہٰذا قبضے کو مزید گہرا کرنا، مغربی کنارے کے الحاق کا منصوبہ، اور مغربی کنارے میں نئی آباد کاری جیسے یکطرفہ اسرائیلی اقدامات، – جو دو ریاستی حل کو نقصان پہنچاتے ہیں یا اسے ناممکن بناتے اور دسترس سے باہر کرتے ہیں – کو امریکی حمایت حاصل نہیں ہے اور نئی امریکی حکومت اور موجودہ اسرائیلی حکومت کے درمیان شدید اختلاف کا سبب بن رہے ہیں اور دو طرفہ تعلقات کو نقصان پہنچا رہے ہیں۔
واضح رہے کہ فلسطینیوں کے ساتھ صہیونی ریاست کا سلوک – امریکہ میں خاص طور پر ڈیموکریٹ جماعت کے انتہائی بائیں بازو اور امریکی رائے عامہ پر – اثرانداز ہوتا ہے۔
چنانچہ نئی امریکی انتظامیہ اسرائیل کو مشورہ دیتی ہے کہ وہ فلسطینیوں کے ساتھ کشیدگی کم کرنے اور ان کی زندگی کی سطح بہتر کرنے کا اشتیاق ظاہر کرے ، اور دو ریاستی حل پر تاکید کرے۔
افسوس کا مقام ہے کہ ایسے حال میں کہ امریکہ کی ڈیموکریٹ جماعت کے انتہائی بائیں بازو کے اراکین مسئلۂ فلسطین کو اہمیت دیتے ہیں اور “پابندیوں اور محرومیوں کا بائیکاٹ یا BDS تحریک (5) کی حمایت کرتے ہیں اور اسرائیل کو قابض ریاست سمجھتے ہیں لیکن عالم اسلام اور عالم عرب میں بعض ممالک غاصب یہودی ریاست (اسرائیل) کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لارہے ہیں اور اس کے ساتھ سیاسی، سلامتی، معاشی اور فنی شعبوں میں تعلقات کو فروغ دے رہے ہیں اور اس کے ساتھ تعلقات معمول پر لانے کے عمل کا حصہ بن گئے ہیں!
3۔ معمول پر لانے (normalizations) کے عمل کی توسیع:
چین اور مشرقی ایشیا پر اپنی توجہ مرکوز کرنے اور مشرق وسطی میں فوجی کردار کم کرنے اور اسی اثناء میں سیکورٹی اور انٹیلی جنس کے لحاظ سے موجود رہنے کی نئی امریکی حکمت عملی کے پیش نظر، اسرائیل کی کوشش ہے کہ امریکہ کے عرب اتحادیوں کو فوجی، معاشی نیز فنی اور ٹیکنولاجیکل امداد فراہم کرکے علاقے میں امریکہ کی خالی جگہ کو حتی الوسع پر کر دے۔
یہودی ریاست اور قدامت پسند سنی محاذ (بشمول متحدہ عرب امارات، بحرین، مصر، اردن اور سعودی عرب) نے اسلامی مزاحمت اور سنی-اخوانی محاذ کی پیشقدمی اور فروغ کا راستہ روکنے کے لئے، خطے میں سنی-تکفیری محاذ کو تقویت پہنچا کر خطے میں – سیاسی، سلامتی، معاشی، زرعی، آب رسانی اور ثقافتی شعبوں میں – صہیونی ریاست کے ساتھ تعلقات کی بحالی کو توسیع دی ہے۔
لیکن صہیونیوں کے ساتھ معمول پر لانے کے سلسلے میں بائیڈن کا رویہ ٹرمپ کے رویے سے مختلف ہے، کیونکہ ٹرمپ نے صہیونی ریاست کے ساتھ تعلقات کی بحالی کے لئے خصوصی تحائف (رعایتوں) کا انتظام کیا تھا اور اس قضیے کے لئے خصوصی ترجیح کا قائل تھا، لیکن بائیڈن حکومت میں – کم از کم اب است – عرب اور اسلامی ممالک کو صہیونی ریاست کے ساتھ تعلقات بحال کرنے پر راغب کرنے کے لئے کسی خصوصی تحفے یا رعایت کا اعلان نہیں کیا ہے۔
جاری۔۔۔
[…] تجزیاتی ویب سائٹ: گزشتہ سے […]