نئی امریکی انتظامیہ اور اسرائیل کا آمنا سامنا (آخری حصہ)

صہیونی سمجھتے ہیں کہ امریکہ کے تین سابقہ صدور کے دور میں ایران کے خلاف صرف اقتصادی حوالے سے وسیع پابندیوں کا ہتھیار استعمال کیا گیا ہے اور اب ہتھیار اور ہمہ جہت پابندیاں بھی پہلے کی طرح کے اثرات نہیں رکھتیں اور یہ امریکی ہتھیار فرسودہ اور ایران کو جوہری پیشرفت سے روکنے میں ناکام ہوچکا ہے۔

فاران تجزیاتی ویب سائٹ: گزشتہ سے پیوستہ

4۔ ایران کا مسئلہ (جوہری صنعت – میزائل منصوبہ اور علاقائی اثر و رسوخ):
چونکہ خطے میں فوجی طاقت استعمال کرنے کی سابقہ امریکی رغبت و رجحان میں بہت زیادہ کمی آئی ہے اور اس وقت امریکہ کی پہلی ترجیح چین اور مشرقی ایشیا ہے، جبکہ ایران کے حوالے سے اس کی ترجیح جوہری معاہدے کی بحالی پر اصرار اور صرف سفارتکاری تک محدود رہنے اور زیادہ سے زیادہ، معاشی پابندیوں پر انحصار کا عزم ہے۔ چنانچہ اس شعبے میں امریکہ کے حوالے سے اسرائیل کو بہت ساری پیچیدگیوں اور مسائل کا سامنا ہے۔
فی الوقت امریکہ اپنے عالمی کردار کے لئے نئے دور کے آغاز کا جائزہ لے رہا ہے۔ افغانستان اور عراق میں فوجی مداخلت کا تجربہ ناکام ہوچکا ہے؛ افغانستان اور عراق میں فوجی مداخلت کا تجربہ بیان کردہ اہداف کے حصول میں ناکام رہا۔ عراق میں ایران کے اثر و رسوخ میں اضافہ ہؤا اور اس ملک میں ایک وابستہ اور مغرب نواز حکومت قائم نہ ہو سکی۔ افغانستان میں بھی امریکہ 21 سالہ جارحیت اور قبضے کے باوجود ناکام رہا اور طالبان نہ صرف ختم نہیں ہوئے بلکہ ایک بار پھر کابل اور پورے افغانستان پر قابض ہوئے اور امریکہ کو ذلت آمیز تاریخی شکست ہوئی اور اسے افغانستان سے خوار ہوکر بھاگنا پڑا۔
اس وقت بائیڈن انتظامیہ چین اور مشرقی ایشیا پر اپنی توجہ مرکوز کرنے کو پہلی ترجیح سمجھتا ہے، مشرق وسطی میں اپنے فوجی کردار کو کم کرنا اور اس علاقے میں صرف انٹیلی جنس اور سیکورٹی سے متعلق امور تک محدود ہونا چاہتا ہے۔ امریکہ کو اندرون و بیرون ملک اپنے مالی اور فوجی وسائل کی تقسیم کو اپنے تزویراتی اہداف کے مطابق نئے سرے سے متعین کرنے کی ضرورت ہے۔
امریکی حکومت گھریلو پیداوار پر زور دے کر اور قابل تجدید توانائی کو فروغ دینے والی نئی اور ہائی ٹیک صنعتوں کی ترقی کو یقینی بنا کر نیز امریکہ کے [فرسودہ] بنیادی ڈھانچے کی تعمیر نو کرکے امریکہ کی تزویراتی پوزیشن کو بہتر بنانا چاہتی ہے۔ اس وقت کی ترقی کا عمل انتہائی تیزرفتار ہے اور وہ امریکہ کو تزویراتی شعبوں میں چیلنج کررہا ہے اور کرتا رہے گا۔ چنانچہ اوباما، ٹرمپ اور بائیڈن کی اولین ترجیح مشرق وسطی اور ایران نہیں تھا اور نہ ہی ہوگا۔
ستمبر سنہ 2010ع‍ کو جب سعودی عرب کی آرامکو تنصیبات کو میزائلوں اور ڈرونز حملے کا نشانہ بنایا گیا تو ٹرمپ نے واضح الفاظ میں کہہ دیا کہ: “یہ حملہ سعودی عرب پر ہؤا ہے نہ کہ امریکہ پر، چنانچہ اس پر امریکی رد عمل کی کوئی ضرورت نہیں ہے”۔
کوئنسی انسٹی ٹیوٹ برائے ذمہ دار مدنی صلاحیت (6) نے اپنی رپورٹوں میں یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ اگر خطے میں امریکہ کی فوجی موجودگی ختم ہوجائے تو ایران اور محاذ مزاحمت سے بھی علاقے کو کوئی خطرہ نہ ہوگا اور اس نے امریکہ کو تجویز دی ہے کہ اپنی افواج کو اس خطے سے واپس بلاؤ تکہ دنیا پرامن ہوجائے۔
تاہم بہت ممکن ہے کہ بائیڈن انتظامیہ – افغانستان سے امریکی انخلاء کی نامناسب اور نقصان دہ کیفیت کے پیش نظر – مستقبل قریب میں مشرق وسطیٰ کے دیگر حصوں سے خارج نہیں ہوگی۔ افغانستان سے خفت آمیز انخلاء نے امریکہ اور خطے میں اس کے اتحادی ممالک کی رائے عامہ کو “امریکہ کی کمزوری” کا پیغام بھیجا؛ لہذا اگر امریکہ نے اسی روش سے علاقے سے نکلنے کے لئے اقدام کیا تو یہ اس کی کمزوری کے تصور کو مزید تقویت پہنچائے گا اور بائیڈن انتظامیہ پر ہونے والی تنقیدوں کو شدت ملے گی۔
دوسری جانب اسرائیل ایران کی جوہری صنعت اور میزائل منصوبے کی تکمیل اور اس کے علاقائی اثر و رسوخ کا مخالف ہے اور مناخم بیگن ڈاکٹرائن (Menachem Begin coctrine) کے مطابق، اسرائیل کو خطے کے کسی بھی ملک کو ایٹمی ہتھیار حاصل کرنے کی اجازت نہیں دینا چاہئے۔ اور اب اسرائیل سمجھتا ہے کہ ایران عنقریب ایک ایٹمی ملک بننے جا رہا ہے اور وہ چند ہی ہفتوں میں بم بنانے کی اہلیت حاصل کر لے گا! لہذا اسرائیلیوں کی نظر میں، یہ بہت حساس وقت ہے لیکن ان حساس اور خطرناک حالات میں امریکہ حتی کہ اوباما دور کی طرح بھی – جوہری مذاکرات میں تعطل آنے کی صورت میں ایران کے خلاف ملٹری آپشن آن ٹیبل کا – اعلان کرنے سے گریز کررہا ہے اور ایسا کوئی اعلان کرنے کے لئے تیار نہیں ہے۔
صہیونی سمجھتے ہیں کہ امریکہ کے تین سابقہ صدور کے دور میں ایران کے خلاف صرف اقتصادی حوالے سے وسیع پابندیوں کا ہتھیار استعمال کیا گیا ہے اور اب ہتھیار اور ہمہ جہت پابندیاں بھی پہلے کی طرح کے اثرات نہیں رکھتیں اور یہ امریکی ہتھیار فرسودہ اور ایران کو جوہری پیشرفت سے روکنے میں ناکام ہوچکا ہے۔
صہیونی ریاست کی بینٹ حکومت کوشش کررہی ہے کہ ایران اور 1+5 گروپ کے ساتھ ایران کے مذاکرات کے سلسلے میں نیتن یاہو کے رویے سے دور ہو کر اپنے آپ کو مختلف شخصیت کے طور پر متعارف کرائے اور اس کا خیال ہے کہ ایٹمی معاہدے سے ٹرمپ کی علیحدگی موجودہ صورت حال کا سبب بنی ہوئی ہے اور اسی کی وجہ سے آج یران کی جوہری صنعت پر نافذ شدہ نگرانیاں اور پابندیاں کمزور ہوئی ہیں؛ اور اسی وجہ سے ہی آج ایران کے مقابلے میں امریکہ کا ہاتھ بالکل خالی ہے اور وہ ایران پر دباؤ نہیں ڈال سکتا۔
چنانچہ بینٹ حکومت امریکہ کی طرف سے ایٹمی معاہدے کے احیاء کی کوششوں کی مخالفت نہیں کررہی ہے۔ لیکن اس کے باوجود وہ ایران پر شدید دباؤ اور مذاکرات کی ناکامی کی صورت میں پلان B اور پلان C کے نفاذ کی خواہاں ہے۔ اسرائیلیوں کا خیال ہے کہ امریکہ ایران کے خلاف فوجی اقدام کا امکان ظاہر کرے اور اس کو معتبر بنا کر پیش کرے تاکہ ایران اپنے ایٹمی اقدام سے پسپا ہوجائے۔
اس سلسلے میں بینٹ کا خیال ہے کہ اسے بائیڈن حکومت کے ساتھ اسٹریٹجک بات چیت کو جاری رکھنا اور تقویت پہنچانا چاہئے۔ لیکن نئی امریکی حکمت عملی – یعنی مشرق وسطی میں فوجی موجودگی کم کرنے اور خطے میں کسی بھی قسم کی فوجی مداخلت سے پرہیز – پر مبنی ہے۔ یہاں تک کہ وہ فوجی اقدام کا امکان ظاہر بھی کرنے تو کوئی اس کو سنجیدہ نہیں لے گا۔
نتیجہ:
صہیونی ریاست کی کوشش ہے کہ اپنے آپ کو بائیڈن کی قیادت میں قائم ہونے والی نئی امریکی حکومت کے بعد، بدلے ہوئے حالات کے مطابق ڈھالنا چاہئے لیکن اس دوران اسے اندرونی اور بیرونی دو طرح کی رکاوٹوں کا سامنا ہے۔
ایک طرف سے نفتالی بینٹ کو اندرونی طور پر سنجیدہ چیلنجوں کا سامنا ہے جن میں سے اہم ترین کچھ یوں ہیں:
– صہیونی ریاست کی کمزور اور ٹوٹتی ہوئی حکومت (بنام change government)
– اتحاد برائے تبدیلی (change coalition) میں ایک عرب فلسطینی جماعت کی موجودگی (رعام پارٹی)
– مسئلۂ فلسطین کے حوالے سے اتحاد برائے تبدیلی کی دائیں اور بائیں بازو کی جماعتوں کے درمیان شدید اختلافات
– نیتن یاہو کی اقتدار میں واپسی کے لئے شدید دوڑ دھوپ
بینیٹ حکومت کو درپیش مندرجہ بالا چیلنجوں کے پیش نظر، اس کے لئے اپنے آپ کو بائیڈن انتظامیہ کے تقاضوں کے مطابق ڈھالنے کے عمل میں سنگین مسائل کا سامنا ہوگا۔
ایسے حالات میں، کہ اسرائیل سمجھتا ہے کہ ایران ایٹم بن بنانے کے مرحلے کے بالکل قریب پہنچا ہے، امریکہ کا ہاتھ ایسے قابل اعتماد اور موثر اوزاروں سے خالی ہے جن کے ذریعے جوہری منصوبے سے دستبرداری کے لئے ایران پر دباؤ ڈالا جاسکے۔ چنانچہ صہیونی ریاست سمجھتی ہے کہ ان حساس حالات سے صرف ایک ہی متبادل – یعنی قابل اعتماد فوجی کاروائی، – ہے جو ایران کو جوہری پروگرام کو ترقی دینے سے دستبرداری پر آمادہ کرسکتا ہے، لیکن امریکہ حتی – مذاکرات کی ناکامی کی صورت میں – یہ تک اعلان کرنے کا روادار نہیں ہے کہ “فوجی آپشن میز پر ہے”۔ یہ بینیٹ اور بائیڈن کے زیر قیادت نئی امریکی انتظامیہ کے درمیان تصادم کا بنیادی نکتہ ہے۔ زیادہ اہم بات یہ ہے کہ اندرونی طور پر بھی یہی مسئلہ بینٹ حکومت پر نیتن یاہو کی سرکردگی مقامی اپوزیشن کے حملوں کا سبب بنے گا۔
صہیونی ریاست کے حکام امریکی حکام کے ساتھ کئی ملاقاتوں کے دوران – ویانا مذاکرات کی ناکامی کی صورت میں – متبادل منصوبہ متعین کرنے کا مطالبانہ کیا ہے۔ تاہم مشرق وسطیٰ میں فوجی مداخلت کی امریکیوں کی سنجیدہ اور تزویراتی عدم دلچسپی اور خطے میں فوجی موجودگی کو کم کرنے کے امریکی عزم کی وجہ سے اب تک کسی نتیجے پر نہیں پہنچ سکے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔
تحریر: ڈاکٹر علی رضا عرب

۔۔۔۔۔۔۔
1۔ امریکہ جامع مشترکہ منصوبۂ عمل یا ایرانی جوہری منصوبے پر جامع معاہدہ (Joint Comprehensive Plan of Action [JCPOA])
2۔ گذشتہ 12 برسوں کے دوران غاصب اسرائیلوں نے کم از کم چار مرتبہ غزہ کے خلاف ہمہ جہت جنگ چھیڑی ہے اور ان تمام جنگوں میں غزہ کے مجاہدین نے امریکی قانون سازوں نے اس خیال کے برعکس، آئرن ڈوم کے مہنگے میزائل فلسطینی مزاحمت کے سستے میزائلوں سے نمٹنے سے عاجز رہے ہیں۔ اسرائیلیوں نے 2009 میں بری فوج کو بھی غزہ روانہ کیا لیکن فلسطینیوں کی شدید مزاحمت کی وجہ سے غزہ سے بھاگنا پڑا۔ اور بہت اہم نکتہ یہ ہے کہ اسرائیلی زمینی حملہ غزہ کے مجاہدین کی دیرینہ آرزو ہے ہے کیونکہ انہیں یقین ہے ایسے کسی حملے میں اسرائیل کی کامیابی ناممکن اور شکست یقینی ہے۔
3. Accurate guidance weapons
4. Offensive weapons
5. Boycott, Divestment and Sanctions OR BDS
6. Quincy Institute