پروفیسر ریجینا آسٹن (Regina Austin) کا تعارف

پروفیسر آسٹن نے جس نظریئے کی وضاحت کی وہ ان تحقیقات کے ڈھانچے کی مشترکہ خصوصیت ہے جس کو تنقیدی نسلی نظریئے کے مطالعے کے طور درجہ بند کیا ہے اور وہ عرصہ دراز سے اس کی ترویج کر رہی ہیں۔ پروفیسر آسٹن نے وضاحت کی کہ "میں سنجیدگی سے اس ڈھانچے کی بنیاد کے طور پر، ثقافت پر زور دیتا ہوں، تا کہ آپ کے اختیارات اسی ثقافت کے اندر سے اگ کر پروان چڑھیں، نہ اس کے باہر سے"۔ قانون پر ثقافت کی بالادستی اور تقدم پر پروفیسر آسٹن کا اصرار اتنا شدید ہے کہ وہ دعوی کرتی ہیں کہ اقلیتی برادریوں کو قانونی اختیارات کے متبادل ذرائع کی ضرورت ہے۔

فاران؛ کچھ عرصہ قبل ایک کتاب بعنوان “101 خطرناک پروفیسرز” امریکہ میں شائع ہوئی۔ اس کتاب کا موضوع چند سال پہلے امریکہ میں یہودی مصنف ڈیوڈ ہاروویٹز کی کتاب بعنوان “101 خطرناک پروفیسر” شائع ہوئی۔ اس کتاب کا موضوع 101 امریکی پروفیسروں کا تعارف ہے جن کا جرم یہ ہے کہ وہ اپنی کلاسوں اور کتابوں میں میں ہالوکاسٹ اور یہودیت کے بارے میں بحث کرتے ہیں۔ اس کتاب کی اشاعت کے ساتھ ہی دوسری یونیورسٹیوں کے اساتذہ کو خبردار کیا گیا کہ “چونکہ ان لوگوں نے سرخ لکیروں کو عبور کرلیا ہے، چنانچہ ان کی کاوشوں سے استفادہ نہ کیا جائے؛ [گویا وہ کہنا چاہتے تھے کہ] جب آزادی لامحدود ہوجائے، تو یہ بجائے خود خطروں کا باعث بنتی ہے اور آخرکار یہ آزادی مخدوش ہوجائے گی۔ ذیل کا متن یہودیوں کے ہاں کے 101 خطرناک پروفیسروں میں سے ایک، یعنی “پروفیسر ریجینا آسٹن” ، کے تعارف پر مشتمل ہے۔

پروفیسر ریجینا آسٹن
پروفیسر ریجینا آسٹن (Professor Regina Austin)
پنسلوانیا یونیورسٹی University of Pennsylvania
– ولیم اے اسناڈر پروفیسر آف لا
– ان کا ماننا ہے کہ سیاہ فام معاشرے کو راست بازی اور لاقانونیت کی انتہائی شکلوں کے درمیان ایک مناسب درمیانی رویہ اپنانا چاہئے۔
– قانون، ایکٹیوزم (Activism فعالیت پسندی) کے تکملے (تکملہ = Complement) کے طور پر مفید ہے (اس رجحان کو ایک قسم کا سماجی عمل اور شراکت کے طور پر بھی بیان کیا جا سکتا ہے)۔

یونیورسٹی کی ویب گاہ کے مطابق، پنسلوانیا یونیورسٹی کی ولیم اے اسناڈر پروفیسر آف لا، ریجینا آسٹن معاشی امتیاز کے خلاف جدوجہد اور تحریک نسواں (Feminism) کی ممتاز راہنما ہیں۔ آسٹن
پروفیسر آسٹن تنقیدی نسلی نظریئے (Critical race theory) کی وکالت کرتی ہیں (تنقیدی نسلی نظریہ ایک ایسا قانونی مکتب ہے جو مارکسی اور نسلی نظریات کو یکجا کرتا ہے)۔
تنقیدی نسلی نظریہ، جس کا پیشرو ڈیرک بیل (Derrick Bell) کا نسلی نظریہ ہے، سفید فام نسل پرستی کو امریکی معاشرے کے مستقل ڈھانچے کی ایک پہلو کے طور پر دیکھتا ہے۔ تنقیدی نسلی نظریئے، کے نظریئے کے نظریہ پرداز اور حامی افریقی نسل کے سیاہ فام امریکیوں کے لئے ملازمتوں، تعلیم (اور پروفیسر آسٹن کے نظریئے کے مطابق) فوجداری انصاف (Criminal Justice) کے سلسلے میں نسلی مساوات اور مساوات کے خواہاں ہیں۔
پروفیسر آسٹن نسلی تقسیم کی بے باک حامی کے طور پر نسلی تنازعات، سماجی اور جنسی طبقوں کو اپنے کورسز کا موضوع بناتی ہیں، جن میں تشخص اور شناخت پر مبنی پالیسیوں کو سطحی طور پر دیکھا جاتا ہے اور اسی بنیاد پر قانونی مسائل کا جائزہ لیا جاتا ہے۔
پروفیسر آسٹن کے نقطۂ نظر کا اظہار ان کا مشہور سیمینار (جدید قسم کے جرائم: دانستہ جرائم، نسلی جرائم، جنسی جرائم اور معاشرتی طبقے) ہے۔
کورس کا مقصد طلباء کو ان گروہوں کے نقطہ نظر سے قانونی تنازعات کا تجزیہ سکھانا ہے جن کی درجہ بندی پروفیسر آسٹن نے نسل، جنس، قوم، جنسی رجحانات، عمر، مذہب، یا سماجی طبقے کے لحاظ سے انجام دی ہے۔
جدید قسم کے جرائم (Advanced crimes) کا مقصد طلباء، خاص طور پر اقلیتی طلباء کو قانون کو مد نظر رکھنے کی ترغیب دینا ہے، قوانین کے مجموعے کے طور پر نہیں – جو تمام شہریوں پر یکساں طور پر لاگو ہوتے ہیں، – بلکہ ایک لچکدار تصور کے طور پر، جو شناختی (اور تشخص پر مبنی) مفادات کا تابع ہے۔ اس حساب سے، آسٹن کے سابق طلباء کی گواہی، جو بھی ہو، ان کا یہ کورس کامیاب رہا ہے۔ جدید قسم کے جرائم کورس میں شرکت کرنے والا ایک طالب علم نے جذباتی ہوکر کہہ رہا تھا: “ایک بالکل مختلف نگاہ تھی، جس میں جرائم کو زیادہ تر ثقافتی لحاظ سے دیکھا جاتا تھا، جو در حقیقت ایک لاطینی شہری کے طور پر میری اپنی ذات کی عکاسی کہلا سکتا ہے”۔
آسٹن کے کورس “جدید قسم کے جرائم” کی بنیاد یہ ہے کہ ان کا دعوی ہے کہ اقلیتی صورت حال اغراض کی بنیاد پر قانون کی تشریح کے استحقاق کو جنم دیتی ہے۔
پروفیسر آسٹن اپنے شائع ہونے والے مضامین میں قانونی اور غیر قانونی اعمال کے درمیان اختلاف کو ظالم سفید فام معاشرے کے مسلط کردہ قدغنوں کے زمرے میں شمار کرتی ہیں اور سیاہ فام معاشرے کو یہ اختلاف اور یہ قدغنیں قبول نہ کرنے کی ترغیب دلاتی ہیں۔ اسی نقطۂ نظر کی رو سے، پروفیسر آسٹن کا اصرار ہے کہ اس قسم کی روایتی قدریں سیاہ فام معاشرے کی تقسیم کو شدت بخشتی ہیں اور اس دعوے کا مضحکہ اڑاتی ہیں کہ “یہ قدریں قانون سے مطابقت رکھتی ہیں”۔
آسٹن نے افریقی نژاد امریکیوں سے کہا ہے کہ اعلانیہ قانون شکنی کیا کریں اور اس عمل کو وہ بلیک میلنگ کا نام دیتی ہیں؛ لیکن “سماجی انصاف” کے لئے ان کی مطالبہ کاری (Demandingness) نے بہت سی چوریوں اور ڈاکہ زنیوں کے لئے جواز فراہم کیا تھا۔ چنانچہ اسٹوروں اور دکانوں کے جو ملازمین، جو اہنے دوستوں کے سامان میں سے چوری کرتے تھے، اور معمولی چور جو اپنے اسمگل شدہ سامان کو اپنے محلوں میں تقسیم کرتے تھے، انہیں پروفیسر آسٹن کی طرف سے ترغیب ملتی تھی؛ تاکہ ایمانداری اور قانون شکنی کی انتہائی شکلوں کے درمیان ایک مناسب درمیانی حد تک پہنچ سکیں۔
سنہ 1999ع‍ میں پروفیسر آسٹن سے پوچھا گيا تھا کہ وہ قانون کی ایک محقق کے طور پر بتا دیں کہ وہ اپنے قوانین کو کس طرح دیکھتی ہیں؟ اور انھوں نے جواب دیا تھا کہ “ہم اس مفروضے کے ساتھ اس بحث میں داخل ہونا چاہئے کہ سیاہ فام دنیا کے مرکز میں سکونت پذیر ہیں اور وہیں سے اٹھتے ہیں”۔ پروفیسر آسٹن نے جس نظریئے کی وضاحت کی وہ ان تحقیقات کے ڈھانچے کی مشترکہ خصوصیت ہے جس کو تنقیدی نسلی نظریئے کے مطالعے کے طور درجہ بند کیا ہے اور وہ عرصہ دراز سے اس کی ترویج کر رہی ہیں۔ پروفیسر آسٹن نے وضاحت کی کہ “میں سنجیدگی سے اس ڈھانچے کی بنیاد کے طور پر، ثقافت پر زور دیتا ہوں، تا کہ آپ کے اختیارات اسی ثقافت کے اندر سے اگ کر پروان چڑھیں، نہ اس کے باہر سے”۔ قانون پر ثقافت کی بالادستی اور تقدم پر پروفیسر آسٹن کا اصرار اتنا شدید ہے کہ وہ دعوی کرتی ہیں کہ اقلیتی برادریوں کو قانونی اختیارات کے متبادل ذرائع کی ضرورت ہے۔
پروفیسر آسٹن کے کورسز کی ایک اور نمایاں خصوصیت یہ ہے کہ وہ انتہائی سیاسی پروگراموں کے حق میں سائنسی و علمی حقائق کی کسی بھی تحریف کو قبول نہ کرنے پر زور دیتی ہیں۔ اس طرح کی خصوصیت ان کے منعقد کردہ سیمینار “ماحولیاتی نسل پرستی” میں بھی پائی جاتی ہے۔ سیمینار کی رسمی تشریحات سے معلوم ہوتا ہے کہ ان مشکلات اور قواعد پرغور ہوگا جنہوں نے تحریکِ ماحولیاتی انصاف کو متحرک کیا ہے۔ کورس کے سیاسی پروگراموں میں – جن کی فہرست پروفیسر آسٹن نے فراہم کی ہے- مبینہ ماحولیاتی نسل پرستی کی حمایت نیز ماحولیاتی و پیشہ ورانہ صحت (پیشہ ورانہ صحت (Occupational health)) – بشمول کیڑے مار زہریلی دواؤں کے ذریعے زہر آلودگی – اور جبری مشقت کی صورت حال، جیسے مسائل کی حمایت اور وکالت کرنا، شامل ہے۔ اس کورس کے تحت، طلباء کو چاہئے کہ ان علاقوں کا دورہ کریں جو ماحولیاتی نا انصافی کا شکار ہوچکے ہیں۔ تنقیدی نسلی نظریئے کے مارکسی مرکزے (Nucleus) کو پروفیسر آسٹن کی غلط فہمیوں نے دھندلا دیا ہے کہ ذرائع کو مارکیٹ نے حذف کرکے رکھ دیا ہے اور نتیجتاً اقلیتوں اور ناداروں کی حیات کے ماحول کی کیفیت گر گئی ہے۔
پروفیسر آسٹن کی حکمت عملی اس بات کو یقینی بنانے سے عبارت ہے کہ دولت کی نجکاری کا مسئلہ اس طرح سے حل کیا جائے کہ کم از کم سرمایہ رکھنے والے لوگوں کے لئے بھی نجکاری یا نیم نجکاری (نجکاری جیسے کسی عمل) کا امکان فراہم ہوجائے۔
اس سلسلے میں پروفیسر آسٹن کہتی ہیں: “قانون، ایکٹیوزم (Activism فعالیت پسندی) کے تکملے (تکملہ = Complement) کے طور پر [ہی] مفید ہے ۔۔۔ «میں ایک بنیاد پرست کارکن ہوں»”۔
پروفیسر آسٹن کا خیال ہے کہ ان کی “فعالیت پسندی” اور “قانونی اصولوں کے بیان پر سیاسی نظریات کی تشریح کو ترجیج دینے” پر مبنی طرز تدریس ہمیشہ مقبول نہیں پڑتی۔ پروفیسر آسٹن نے نامہ نگار کو یہ پوچھنے کی اجازت دے دی کہ “کیا انہیں اپنے نظریئے کے حوالے سے مزاحمت کا سامنا بھیکرنا پڑتا ہے یا نہیں؟” اور طلبہ کی بعض شکایات کا تذکرہ کرنے پر مجبور ہوئیں اور کہا: “کیوں نہیں! بہت زیادہ لبرل، بہت کمزور اور ناقابل اعتبار، سیاست کھوکھلی ہے، یہ سب بہت زیادہ بہت مبہم ہے۔”
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تحقیق: جیکب لاسکین
ترجمہ: ابو اسد