کسی کے زخم سے ٹپکے لہو غدیر کا ہے

غدیر محض ایک واقعہ کا نام نہیں ہے بلکہ ظلم کے خلاف نا انصافی کے خلاف اعلان جنگ کا نام ہے ولایت کے سایے میں نفاذ عدالت کا نام ہے اور اگر ایسا ہے تو ہمیں ہر خوشی منانے سے پہلے سوچنا ہوگا کہ ہم جس ملک کے باشندے ہیں وہاں پر کس قدر نا انصافی اور ظلم ہے اور ہم اس کے مقابل کیا کر رہے ہیں ؟

فاران؛ آج ہر طرف غدیر کی خوشیاں منائی جا رہی ہیں ہر سو چراغانی ہے ،ہر سمت عید غدیر کی مبارکباد کے پوسٹرز اور بینرز ہیں ،ہونا بھی چاہیے غدیر تاریخ انسانیت کا ایسا موڑ ہے جہاں سلسلہ وحی کے ختم ہو جانے کے بعد انسانی قافلے کی ہدایت کی ذمہ داری امامت کے کاندھوں پر آ رہی ہے ، جہاں بشریت کے لئے معنویت و روحانیت کا چشمہ بنام ولایت پھوٹتا ہے جس سے قیامت تک قافلہ انسانی سیراب ہوتا رہے گا ،اس عظیم دن کی یاد میں جتنی خوشیاں منائی جائیں کم ہیں لیکن ہمیں خود سے ایک سوال کرنا ہوگا کہ ہر سال جو ہم غدیر کی یاد مناتے ہیں ، مٹھائیاں تقسیم کرتے ہیں ، گھروں میں پکوان تیار کراتے ہیں لوگوں کو گھروں پر کھانے کے لئے مدعو کرتے ہیں خود لوگوں سے ملنے جاتے ہیں ان سب کے درمیان اور اس آیت کے درمیان کیا ربط ہے جو حضور سرورکائنات سے کہہ رہی تھی کہ اے رسول اگر آپ نے یہ پیغام نہ پہنچایا تو کچھ بھی نہ پہنچایا اس پیغام کے اندر آخر ایسا کیا ہے جو اگر پیغمبر نہ پہنچائیں تو کار رسالت ھیچ ہے ۔ یقینا یہاں پر بات صرف علی ابن ابی طالب علیہ السلام کو کاندھوں پر بلند کر کے لوگوں کے سامنے اٹھانے اور من کنت مولاہ فہذا علی مولا ہی تک محدود نہیں ہے بلکہ اس اعلان ولایت کے اندر تمام تر انبیاء کی کوششوں اور محنتوں کا ثمر موجود ہے۔
کہ ہر نبی نے ظلم کے خلاف نا انصافی کے خلاف آواز بلند کی ہے اور مقصد بعثت انبیاء بھی یہی تھا کہ لوگوں کے درمیان اس طرح اپنی واضح دلیلیوں اور کتاب خدا کو پیش کریں کہ لوگ خود بخود انصاف کے لئے اٹھ کھڑے ہوں ، جب ہم روایتی انداز سے ہٹ کر غور کریں گے تو ہمیں معلوم ہوگا کہ غدیر اس لئے اہم ہے کہ یہاں سے عدل و انصاف کے سوتے پھوٹیں گے اور یہ سوتے اس دریا تک جائیں گے جسکا تموج ساری دنیا کو عدل و انصاف سے بھر دے گا ۔
غدیر محض ایک واقعہ کا نام نہیں ہے بلکہ ظلم کے خلاف، نا انصافی کے خلاف، اعلان جنگ کا نام ہے ولایت کے سایے میں نفاذ عدالت کا نام ہے اور اگر ایسا ہے تو ہمیں ہر خوشی منانے سے پہلے سوچنا ہوگا کہ ہم جس ملک کے باشندے ہیں وہاں پر کس قدر نا انصافی اور ظلم ہے اور ہم اس کے مقابل کیا کر رہے ہیں ؟
کیا غدیر کا ہم سے تقاضہ محض اتنا ہے کہ اچھے کپڑے پہنے ہیں تحفے تحائف بانٹیں مولا کی شان میں جھوم کر قصیدے پڑھیں مصلے پر کھڑے ہو کر اعمال غدیر انجام دے لیں یا پھر ہمیں دنیا میں رائج ظلم و ستم کو ختم کرنے کے بارے میں بھی سوچنا ہوگا اپنے ملک کے حالات کو بدلنے کی کوشش بھی کرنا ہوگی کہ غدیری فکر ظلم کو کسی قیمت پر برداشت نہیں کر سکتی، ہمیں اس سوال کا جواب دینا ہوگا کہ ہندوستان جیسے ملک کے پاس لاکھوں ٹن اناج موجود ہونے کے باوجود کیوں روزانہ سیکڑوں بچے محض اس لئے مر جا رہے ہیں کہ انہیں صحیح کھانا نصیب نہیں ہے پینے کے لئے صاف پانی نہیں ہے ، دوسرے کچھ نہ کریں نہ کریں لیکن ہم کیا کر رہے ہیں ہمیں جواب دینا ہوگا کہ ہمارے پاس کیا حل موجود ہے؟ کیا غدیری فکر کا ہم سے اس سلسلہ سے کچھ مطالبہ ہے بھی یا نہیں ، کتنے افسوس کی بات ہے کہ علی ع کی حکومت کا امتیاز یہ تھا کہ وہاں کوئی بھوکا نہیں سوتا تھا لیکن آج فکر علی ع کے ماننے والوں کے درمیان نہ جانے کتنے لوگ روز بھوکے سوتے ہیں ، کیا غدیری فکر کا ہم سے تقاضہ نہیں کہ اپنے ملک کے بھوکوں کے بارے میں کچھ سوچیں کوئی منصوبہ بندی کریں ایسا بھی نہیں ہے کہ ہمیں ذخائر کے بارے میں کچھ سوچنا ہو کسی دوسری جگہ سے کچھ لینا ہو ایسا نہیں ہے کہ جو بوکھے مر رہے ہیں وہ اس لئے کہ اناج ہی نہیں ہے تو کھائیں گے کیا ایسا نہیں ہے بلکہ یہ جو مر رہے ہیں یہ تقسیم اموال کے اصول نہ ہونے کی بنا پر یا غلے کی تقسیم کے غیر منصافہ طرز کی بنا پر اپنی جان سے ہاتھ دھو رہے ہیں اب بہت کچھ ہونے کے باوجود اگر کہیں کچھ لوگ بھوک سے تڑپ تڑپ کر مر جائیں تو کیا غدیری احساس ہم سے نہیں کہتا کہ اپنا محاسبہ کریں؟ ۔۔۔
آج جو کچھ ہندوستان کی گوداموں میں اناج کی صورت حال ہے وہ بڑی رلانے والی ہے کہ بعض جگہوں پر اتنا اناج ہے کہ رکھنے کی جگہ نہیں بعض جگہ اناج کو لیکر یہ سوچا جا رہا ہے کہ کیسے اسے پٹرول اور الکحل میں تبدیل کیا جائے کیا یہ بات انسانیت کے ماتم کرنے کے لئے کم ہے اس ملک میں جہاں سیکڑوں بچے روز بھوک یاغذائی قلت کا شکار ہو کر مر رہے ہیں وہی ملک ترقی کی اس منزل پر ہے کے اناج سے پٹرول بنانے کی باتوں پر الکحل بنانے پر منصوبہ بندی ہو رہی ہے ۔
ہر صاحب احساس کے لئے یہ بہت سخت ہے کہ ایک ملک میں ایک غریب انسان اپنی پیٹ کی آگ بجھانے کے لئے ہاتھ پاو ں مار رہا ہوں دوسری طرف اناج کے ذخیرہ کو الکحل اور سینیٹائزر بنانے کے لئے استعمال کیا جائے اور بعض لوگ اسے ملک کی ترقی کا نام دیں اس بڑھ کر غریب و نادار طبقے کا مذاق اور کیا ہو سکتا ہے ؟ اس سے بڑھ کر جہالت کیا ہو سکتی ہے ، اس بڑھ کر ہندوستانی عوام پر اور ظلم کیا ہو سکتا ہے ؟ ۔۔ آئیں مل بیٹھ کر سوچیں کہ ہم جس عید غدیر کا جشن منا رہے ہیں اسکا ہم سے ان بھوکے و بے بس لوگوں کے سلسلہ سے کوئی مطالبہ ہے یا نہیں جنہیں دو وقت کی روٹی نصیب ہو جاتی تو فٹ پاتھ پر انکا دم نہ نکلتا ۔
سوچیں کہ اگر کہیں کوئی درد کا مارا تڑپتا ہے تو کیوں تڑپ رہا ہے ، اگر انسانیت کی چیخین بلند ہیں تو کیوں ؟ حیوانیت قہقہ لگا رہی ہے تو کیوں ،انسانی اقدار کا ماتم ہو رہا ہے تو کیوں ؟ کہیں وجہ یہ تو نہیں کہ جو پیغام غدیر لوگوںتک پہنچنا چاہیے تھا نہیں پہنچا اگر پہنچ جاتا تو دنیا کا یہ حال نہ ہوتا
اس لئے کہ غدیر کا تعلق کسی ایک مکتب سے نہیں ہر انسان سے ہے ، غدیر کی فکر مندی کسی ایک قوم کے لئے نہیں سب کے لئے ہے
اگر کسی جگہ کسی مظلوم کو ستایا جاتا ہے تو فکر غدیر پر چوٹ پہنچتی ہے ، کسی انسان کو ستایا جاتا ہے تو روح غدیر تڑپتی ہے کسی کا حق مارا جاتا ہے تو غدیر کی فریاد بلند ہوتی ہے ، مزدوروں کو سرمایہ دار طبقہ اپنا غلام بناتا ہے اور انکا استحصال کرتا ہے تو غدیر کی آواز بلند ہوتی ہے
اور کیوں نہ ہو
ستم کوئی بھی کرے وہ عدو غدیر کا ہے
کسی کے زخم سے ٹپکے لہو غدیر کا ہے