کس قوم کو “تاریخ کی خونخوارترین قوم” کا خطاب ملا؟ دوسرا حصہ

یہودیوں کے لئے تلمود کا حکم ہے: “غیر اسرائیلی صالح اور نیک انسانوں کو قتل کرو”، نیز اس کا حکم ہے: “جس طرح کہ مچھلی کا پیٹ چیرنا جائز ہے، انسان کا پیٹ کھولنے میں بھی کوئی حرج نہیں ہے، خواہ یہ عمل روز شنبہ کے بڑے والے روزے کے دن ہی کیوں انجام نہ دیا جائے”۔

فاران؛ اگر آپ یہودی عبادتگاہوں اور کنیسٹوں کے بارے میں جان لیں اور ان چیزوں کو دیکھ لیں جو ان وحشیانہ جرائم کا سبب بنتی ہیں، تو خوف و ہراس سے دوچار ہوجائیں گے، کیونکہ ان کی عبادتگاہیں ایسے خون سے آلودہ ہیں جو سابقہ زمانوں سے ان کے اندر بہایا گیا ہے۔ قدس شریف میں یہودی عبادتگاہیں ہندوستانی ساحروں کی عبادتگاہوں سے بھی زیادہ خوفناک ہیں کیونکہ یہ وہ عبادتگاہیں ہیں جن میں انسانوں کا قتل عام ہوا ہے۔ یہ جرائم ان تعلیمات کا نتیجہ ہیں جنہیں یہودی حاخاموں (رابیوں) نے وضع کیا ہے۔
یہودیوں کے جرائم کا پھیلاؤ خطرناک اور سنجیدہ ہوا تو “قربان ہونے والے اور یہودی” (victims and “the Jews”) نامی موضوع وسیع سطح پر زیر بحث آیا۔
یہودی اپنی دو مقدس عیدوں میں انسانوں کو قربان کرکے اور انسان کے خون میں تیار کردہ غذا کھانے کھاکر ہی خوش ہوا کرتے ہیں۔ پہلی عید کا نام پوریم (Feast of Purim) ہے جو ہر سال مارچ کے مہینے میں منائی جاتی ہے اور دوسری “عید فصح” ہے جو ہر سال اپریل کے مہینے میں منائی جاتی ہے۔
عید پوریم میں بھینٹ چڑھائے جانے والے عام طور پر بالغ نوجوانوں میں سے چنے جاتے ہیں۔ بیچارے نوجوان کو قتل کرکے اس کا خون خشک کیا جاتا ہے اور ذرات میں تبدیل کرتے ہیں اور اسے فطیرہ کے خمیر (اس روز کے طعام) میں ملا دیتے ہیں اگر کچھ باقی رہ جائے تو اگلے سال کی عید کے لئے رکھ لیتے ہیں۔

لیکن عید فصح کے دن قربان ہونے والے عام طور پر نابالغ اور ۱۰ سال سے کم کے بچے ہوتے ہیں۔ ان کا خون بھی اسی انداز سے خشک کیا جاتا ہے اور اسے فطیرے میں ملا دیا جاتا ہے گوکہ بعض اوقات وہ بچوں کا تازہ خون استعمال کرتے ہیں۔
قربان ہونے والے انسان کا خون جاری اور اکٹھا کرنے کے لئے مختلف طریقے استعمال کئے جاتے ہیں۔ ایک اوزار سوئیوں والا ڈرم ہے۔ یہ ڈرم قربانی بننے والے انسان کے جسم کے برابر ہوتا ہے اور اس کے اندر بےشمار نوکیلی سوئیاں ہوتی ہیں۔ جب قربان ہونے والے نوجوان یا بچے کو مار جاتا ہے تو سوئیاں چاروں اطراف سے اس کے بدن میں چبھ جاتی ہیں اور اس طرح اس کے پورے بدن کا خون بیک وقت باہر آنا شروع ہوجاتا ہے اور اسی اثناء میں یہودی مختلف برتنوں میں خود اکٹھا کرتے ہیں اور خوشی مناتے ہیں۔
دوسرا طریقہ یہ ہے کہ انسان کو بکرے کی طرح ذبح کرتے ہیں اور اس کا خون ایک برتن میں جمع کرتے ہیں اور اسے بزعم خویش پاک کردیتے ہیں۔
تیسرا طریقہ یہ ہے کہ یہودی نوجوان یا بچے کی کئی رگوں کو کاٹ دیتے ہیں تا کہ ان سے خون ابلے۔ اور پھر اس خون کو ایک برتن میں جمع کرتے ہیں اور اس حاخام کے سپرد کرتے ہیں جو خون انسان سے تیار کئے جانے والے کھانے “فطیر مقدس” کی تیاری کا ذمہ دار ہوتا ہے تا کہ “یہوہ” نامی دیوتا ـ جو بنی نوع انسان کے خون کا پیاسا ہے!!! ـ کو اپنے سے راضی و خوشنود کرے۔
شادی میں مرد اور عورت، شام کے بعد کھانا پینا چھوڑ دیتے ہیں اور ایک رات اور ایک دن کا مکمل روزہ رکھتے ہیں جس کے بعد حاخام کتان کا ایک ٹکڑا غیر یہودی شخص کے خون میں ڈبو دیتا ہے اور پھر اسے جلا کر راکھ کردیتا ہے اور راکھ کو انسانی خون کے لئے مختص برتن میں ڈال دیتا ہے، اور ابلا ہوا انڈا اس میں لڑھکا دیتا ہے، اور دلہا دلہن کو کھلا دیتا ہے۔
ختنہ کی رسم میں حاخام اپنی انگلیاں خون بھرے شراب کے برتن میں ڈال دیتا ہے اور پھر اپنی انگلیاں بچے کے منہ میں دے دیتا ہے اور بچے سے مخاطب ہوکر کہا ہے: “تیری زندگی کا دارومدار تیرے خون پر ہے۔۔۔”۔

یہودیوں کے لئے تلمود کا حکم ہے: “غیر اسرائیلی صالح اور نیک انسانوں کو قتل کرو”، نیز اس کا حکم ہے: “جس طرح کہ مچھلی کا پیٹ چیرنا جائز ہے، انسان کا پیٹ کھولنے میں بھی کوئی حرج نہیں ہے، خواہ یہ عمل روز شنبہ کے بڑے والے روزے کے دن ہی کیوں انجام نہ دیا جائے”۔ بعدازاں اس جرم کے لئے اخروی ثواب کے بھی قائل ہوجاتے ہیں اور کہتے ہیں: “جو بھی کسی غیر یہودی کو قتل کرے اس کی پاداش یہ ہے کہ جنت الخلد میں رہے اور چوتھی منزل پر سکونت پذیر ہو”۔ [اب ذرا یہودی نواز تکفیریوں کے ہاں کے فتاوی پر نظر ڈالی جائے تو مشابہت بالکل عیاں ہے: جو ایک غیر سنی مسلمان کو قتل کرے ۔۔۔ اور ہاں یہی لوگ اس طرح کا فتوی اسلام و ایمان کے بدترین دشمن “یہود” کے بارے میں نہیں دیتے!]۔
ویسے تو یہودی اپنے بہت سی معلومات اور بہت سے اعداد و شمار بالخصوص اپنے اندرونی یہودی عبادات و رسومات کو ـ جو انسانیت سے متصادم ہیں ـ کو چھپا دیتے ہیں؛ یہاں تک برطانیہ کا نظام حکومت یہودی تعلیمات کی بنیاد پر تشکیل پایا ہے جہاں کی رازداریاں دنیا بھر میں مشہور ہیں تو یقینا یہودی بھی اپنے بہت سے اعمال اور درندگی اور خونخواری پر مبنی افعال کو چھپائے رکھتے ہیں لیکن جو کچھ ابھی تک فاش ہوا ہے اس کے کچھ نمونے حسب ذیل ہیں:
بعض رپورٹوں کے مطابق، بچوں کے قتل اور یہودی عیدوں میں ان کے خون کے استعمال کے سلسلے میں اب تک ۴۰۰۰ وارداتیں طشت از بام ہوئے ہیں۔
جن واقعات اور وارداتوں کی طرف اس رپورٹ میں اشارہ کیا جارہا ہے وہ ان واقعات کے عشر عشیر سے بھی کم ہیں جو در حقیقت ان وحشی قوم کے ہاتھوں انجام کو پہنچتے ہیں۔ یہاں مذکورہ تمام واقعات “دائرۃ المعارف یہودیت” سے منقول ہیں جن کے آخر میں ماخذ کا بھی ذکر ہوا ہے۔
قربان ہونے والے شخص کی ضروری خصوصیات:
۱۔ عیسائی ہو۔ (یہودیوں کا کہنا ہے کہ عیسائی ہماری بھیڑیں ہیں!)
۲۔ بچہ ہو اور سن بلوغت سے نہ گذرا ہو۔
۳۔ ایسے نیک اور صالح عیسائی والدین کا فرزند ہو، جو کبھی زنا کے مرتکب نہ ہوئے ہیں اور شراب کے عادی نہ ہوں۔
۴۔ بچہ ہو، جس نے شراب نوشی نہ کی ہو اور اس کا خون خالص اور پاکیزہ ہو۔
۵۔ اگر عید کے روز کے فطیر مقدس میں ملا خون ایک پادری کا ہو تو یہ (یہودیوں کے معبود) یہوہ کے نزدیک زیادہ قدر و قیمت رکھتا ہے اور یہوہ اس سے زیادہ خوشنود ہوتا ہے۔ اور یہ خون تمام عیدوں کے لئے قیمتی اور پسندیدہ ہے۔

جاری