کیا آپ UJA فیڈریشن کے بارے میں کچھ جانتے ہیں؟
(UJA) ایک ایسی تنظیم [۱] ہے جو ۱۹۳۹ میں نیویارک میں تشکیل پائی اس تنظیم کی تشکیل کے عرصے سے لیکر اسکے ۱۹۹۹ میں یہودیوں کی متحدہ انجمن [۲]نامی ایسی تنظیم میں ضم ہو جانے تک کہ جسکا بنیادی مقصد یہودیوں کے لئے مالی امداد کی فراہمی ہے، ہم نے ایک مختصر جائزہ لیا ہے ۔
یاد رہے کہ یہ وہ تنظیم ہے جو ایک خیراتی ادارہ کے طور پر یہودیوں اور صہیونیوں کے لئے نقدی اعانتوں کے جمع کرنے کے سلسلہ میں متحرک ہے ، (UJA) دنیا میں یہودیوں، اسرائیل اور صہیونیوں کے لئے چندہ بٹورنے والے ان بڑے مراکز میں سے ایک ہے کہ جس نے دنیا بھر کے یہودیوں کو اپنی چھتر چھایا میں لیا ہوا ہے ۔
اس تنظیم کے مشترکانہ تقسیم کی کمیٹی نامی مرکز کے ساتھ گھل مل جانے اور اسی میں ضم ہو جانے کے بعد جس کے ضمیمہ کے معاہدہ پر ۱۹۴۹ میں دستخط ہوئے تھے ، اس بات کی صراحت کی گئی ہے کہ ان دو خیراتی اداروں کے مالی ذخائر و منابع مجموعی اعتبار سے دو تہائی یہودی ایجنسی ٹی ڈی سی اور مقامی انجمنوں کے درمیان تقسیم ہو جائے گا ۔
۱۹۸۰ میں یہ تنظیم سوویت یونین کی یہودی تحریک[۳] کے کمپین میں شریک رہی ہے اور سوویت یونین کی جانب سے یہودیوں کی مقبوضہ فلسطین کی جانب ہجرت کو آسان بنانے میں انکی مدد کرتی رہی ہے [۴]، علاوہ از ایں (UJA) ۱۹۹۹ میں (UIA)[5] مدغم ہو جاتی ہے جو کہ کینڈا میں (CJF) کے طور پر فعالیت کرتی رہی ہے ۔ (CJF)میں شمولیت اس بات کا سبب بنتی ہے کہ’’ یہودیوں کی متحدہ انجمن ‘‘(UJC)کے طور پر ایک نئی تنظیم سامنے آئے، اور یہ نئی وجود میں آنے والی تنظیم یہودیوں کی امداد رسانی کے سلسلہ سے سرمایہ کے حصول کے پہلے سے بنے ہوئے ڈھانچے اور انفرانسٹریکچر کو اپنے سامنے آمادہ پاتی ہے جو لوگوں کی جانب سے مالی اعانت کی راہوں کو آسان بنانے کا سبب بنا اور جسکے چلتے اس تنظیم کو نئے سرے سے مالی امداد رسانی کے ڈھانچے کو بنانے کی ضرورت محسوس نہیں کی بلکہ پہلے سے بنے ہوئے (CJF) کے تجربات نے بہت سی آسانیاں فراہم کر دیں، اور اسکے ۱۰ سال بعد اس تنظیم نے اپنا نام Jewish Federations of north America) یا (JFNA)کے طور پر تبدیل کر دیا [۶]۔
مزے کی بات یہ ہے کہ اس پوری تنظیم کو چلانے کی ذمہ داری یہودیوں کی خود مختاری کی جنگ کے دوران امریکہ کی وزارت خزانہ سے متعلق یہودی وزیر ’’ہنری مور گنٹا‘‘ کے کاندھوں پر تھی اور قابل توجہ بات یہ ہے کہ اس تنظیم کے اصلی ذمہ دار کے طور پر جفری شوئیفلڈ[۷] کا نام آتا ہے اور اسکی مینجنگ کمیٹی کے سربراہ ’’رابرٹ کاپیٹو‘‘[۸] اور جفری شوئفلڈ دونوں ہی وہ لوگ ہیں جو کثیر القومیتی مالی تنظیم کے مالکوں میں سے ہیں چنانچہ یہ دونوں ثروت مند یہودی اس تنظیم کے دو بنیادی طاقتور ستون کی حیثیت سے جانے جاتے ہیں۔ [۹]
(UJA) کے مالی ذخائر و منابع کی فراہمی
یہ مالیاتی تنظیم اپنی ضرورت کی مالی اعانتوں کو مختلف تنظیموں کے چارٹ کے اندر انجام دیتی ہے، مثال کے طور پر (UJA) ایک کار آمد و (UIA) کے سسٹم سے متصل نیٹ ورک کے طور پر جو کہ امریکہ و کینیڈا میں موجود تمام یہودی فیڈریشنز میں اپنا اثر و رسوخ رکھتا ہے، اپنے اخراجات کو پورا کرتی ہے ۔
اس تنظیم کے مالی بجٹ کی فراہمی کا ایک اور ذریعہ (the organization of missions) اسرائیل ہے جس کے ذریعہ اسکے اخراجات پورے ہوتے ہیں، اس تنظیم کی ذمہ داری امریکہ کے یہودیوں اور اسرائیل کے حکام کے درمیان آشنائی کرانا اور ان سے جوڑنا ہے، بالکل واضح ہے کہ یہ وہ تعلق ہے جو معمولی سطح کے لوگوں کے لئے نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ امریکہ میں بسنے والے ثروت مند یہودی ہی وہ لوگ ہیں جو مختلف وفود کی صورت (UIA) کی پشت پناہی میں چلنے والے بڑے بڑے پروجیکٹس جیسے ٹاون سٹیز کی تعمیر ، پڑھائی کے سلسلہ سے قائم ہونے والے انسٹی ٹیوٹ اور مراکز کی تکمیل کے لئے اسرائیل کے حکام و اور سیاست مداروں کے ساتھ ملاقات کرتے ہیں، یہاں پر جو قابل غور نکتہ ہے وہ یہ کہ یہ وفود مالی اعانتوں سے ماوراء اسرائیل کی ٹوریزم یا سیر و تفریح کی صنعت کی بھی پشت پناہی اور حمایت کرتے ہیں۔
(UIA) تنظیم کی کارکردگی
یہ ایک ایسی تنظیم ہے جو اپنے سالانہ سرمایہ اور حصص کو ضرورت مند افراد کی دیکھ بھال کے لئے استعمال کرتی ہے، اور اسکا مقصد یہودیوں کے درمیان زندگی گزارنے کی خواہش و چاہت کو ابھارنا اور نیویارک میں یہودی انجمنوں کو مضبو ط بنانا ہے چنانچہ اسکا سالانہ سرمایہ اور اسکے حصص سے ہونے والی آمدنی کا بجٹ انہیں دو کاموں سے مخصوص ہے ۔
اسی طرح (UIA) ایک ایسے فڈریشن کے طور پر بھی کام کرتی ہے جسکا ہم و غم سرمایہ کاری کو ترتیب دینا ہے تاکہ ایک ایسے ایک دوسرے سے جڑے ہوئے واحد سسٹم کی پشت پناہی کی جاسکے جو حفظان صحت، انسانی سہولت رسانی، اور تعلیم کے ساتھ مقامی انجمنوں کو سپورٹ کر سکتا ہو۔
البتہ یہ پشت پناہی نیویارک، اسرائیل اور دیگر ۷۰ ممالک میں دسیوں امداد و اعانت کرنے والوں کے ذریعہ سے انجام پاتی ہے ۔
(UIA) نے ۲۰۱۶ کے اپنے کمپین میں سرمایہ کاری کی رقم کو ۱۵۳،۴ ملین ڈالر سے بھی متجاوز کر دیا ،اس تنظیم نے اس بات پر اپنی کوششوں کو دوگنا کر دیا کہ زیادہ سے زیادہ فنڈ اکھٹا کیا جا سکے تنظیم کی جانب سے دہری کوششیں اس بات کا سبب بنیں کہ تمام سرمایے، تمام امدادی رقم اور تمام ہی مخصوص ہدایا، ملا جلا کر ۲۵۷،۶ ڈالر تک بڑھ جائیں [۱۰] ایک ایسی قابل ملاحظہ رقم جو کہ مغربی ایشیا اور دنیا میں صہیونی طرز فکر کی نشو ونما میں خرچ ہو رہی ہے ۔
در حقیقت (UJA) ایک ایسی تنظیم ہے جو کہ اسرائیل کے ساتھ اس طرح تعاون کر رہی ہے کہ اسرائیلی سماج کو ایک خود کفیل معاشرے میں تبدیل کر دے، اس تنظیم کے مالی ذخائر میں سے خاصہ حصہ دہشت گردانہ کاروائیوں کا شکار ہونے والے گھرانوں، ہولوکاسٹ کے پسماندگان ، فقیر و نادار بچوں ،حاریدی[۱۱] سماج کے ممبروں پر اولویت کے ساتھ خرچ ہوتا ہے اسکے بعد عام لوگوں کی باری آتی ہے ۔
اس تنظیم سے جڑے ممبران اپنے اقتصادی، مذہبی ، اور معاشرتی مسائل سے جڑے ہوئے تشہیری پروگراموں میں سرمایہ کاری کرتے ہیں ، انکی کارکردگی کا دوسرا حصہ اسرائیلی کمپنیوں کی تمجید و تحسین اور انکے تعاون سے متعلق ہے جس میں اسرائیلی عربوں اور یہودیوں کی دیگر اقلیتوں کا تعاون کرنا شامل ہے ۔ اس لحاظ سے کہ اس تنظیم کی قسمت اور مستقبل اسرائیل سے جڑا ہے فی الوقت یہ لوگ یروشلم میں ایک آرٹ فن سے متعلق کھلی فضا کو بنانے کے درپے ہیں تاکہ اسرائیل کے لئے ایک جوش و خروش بھرا مستقبل رقم کر سکیں [۱۲]۔
اسرائیل سے ہونے والی جھڑپوں اور جنگ کے دوران بھی یہ تنظیم متحرک رہتی ہے ، جیسا کہ غزہ کی جنگ کے دوران اسرائیلی متاثرین اور اسرائیل کو پہنچنے والے نقصانات کو لیکر یہ تنظیم فعال رہی، غیر منافع بخش مراکز سے رابطہ مختلف رہبروں ، یونیورسٹی سے متعلق افراد نیز ماہرین سے روابط یہ وہ چیزیں ہیں جو اس تنظیم کی کارکردگی و فعالیت کے ذیل میں آتی ہیں اور ان سب کے ذریعہ اس تنظیم کی کوشش ہے کہ دنیا کی کریم اور چیدہ غیر معمولی صلاحیت کے حامل افراد کو اسرائیل اور اسکے جائے وقوع کی جانب مجذوب کیا جا سکے ۔ [۱۳] اسی طرح ہولوکاسٹ کے بعد (UJA) نے ایک بڑے مالی سرچشمے کے طور پر یورپ میں (Sheerit Hapleitah)[14] جیسے بڑے ادارو ں کے تعاون، اسرائیل میں ہجرت کے ادارہ کی مدد کے نیز زراعت کے لئے شہروں کے بنائے جانے سے لیکر شہروں کی توسیع و ترقی، مدارس کی تعمیر و تاسیس اور دیگر ثقافتی پراجیکٹس میں حصہ لیا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حواشی
[۱] ۔ United Jewish Appeal تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو : ” JEWISH GROUPS UNITE FOR REFUGEES; Combined Appeal to Be Offered to Nation for Fund 3 or 4 Times That Given Last Year HEIGHTENED CRISIS CITED Agencies to Retain Separate Duties in Pressing Common Cause for Victims”. The New York Times. January 13, 1939. Accessed December 8, 2008.
[۲] ۔ Jewish communities in the united، تٖفصیل کے لئے ملاحظہ ہو : Abelson, Reed (February 14, 1999). “Merger Near, 2 Jewish Philanthropy Groups Pick a Leader”. The New York Times. Accessed December 9, 2008.
[۳] ۔ The soviet Jewry Movement
[۴] ۔ http://digifindingaids.cjh.org/?pID=1681121.
[۵] ۔ United Isreal Appeal
[۶] ۔ http://www.zionistarchives.org.il/about-us/Pages/Default.aspx.
[۷] ۔ Jeffrey A. schoenfeld
[۸] ۔ Robert S. kapito
[۹] ۔https://jewishweek.timesofisrael.com/writers/jeffrey-a-schoenfeld/.
[۱۰] ۔ Chemi Shalev (Dec 12, 2012). “An evening of affluence and influence with the Jewish wizards of Wall Street”. Haaretz. Retrieved 29 May 2014.
[۱۱] ۔ (Haredi Judaismقدامت پسند یہودیوں کی ایسی شاخ جو یہودی ارتھوڈکس کے طور پر جانی جاتی ہے یہ لوگ بزعم خود اپنے عقائد و اپنی تعلیمات کو بلاواسطہ طور پر جناب موسی اور ان طور سینا پر پر نازل ہونے والی توراۃ سے لینے کے قائل ہیں اسرائیل کی آبادی کا ۱۱ فیصد حصہ حریدیوں پر مشتمل ہے اور زیادہ تر یہ لوگ ارتھوڈکش نشین محلوں اور شہروں میں ہی بود و باش اختیار کرتے ہیں ۔
[۱۲] ۔https://www.ujafedny.org/what-we-do/respond-to-crisis.
[۱۳] ۔ https://www.ujafedny.org/what-we-do/shape-our-jewish-future/investing-in-israeli-society/?utm_source=ujafedny_site&utm_medium=uja_hero. https://www.ujafedny.org/what-we-do/shape-our-jewish-future/investing-in-israeli-society/?utm_source=ujafedny_site&utm_medium=uja_hero.
– https://www.ujafedny.org/who-we-are/our-approach.
[۱۴] Sh’erit ha-Pletah : שארית הפליטה, ۔ ہولو کاسٹ کے متاثرین اور یہودی پناہ گزینوں و رفیو جیز کے لئے کام کرنے والا ادارہ ، تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو : United States Holocaust Memorial Museum. “Liberation.” Holocaust Encyclopedia. Retrieved 8 June 2014.
^ Königseder, Angelika, and Juliane Wetzel. Waiting for Hope: Jewish Displaced Persons in Post-World War II Germany. Trans. John A. Broadwin. Evanston, Ill.: Northwestern University Press, 2001. 15.
^ Berger, Joseph. “Displaced Persons.” Encyclopaedia Judaica. 2nd Ed. Vol. 5. Detroit: Macmillan Reference USA, 2007. 684-686; here: 684. Berger cites historian Jehuda Bauer as estimating that 200,000 Jews in total emerged alive from the concentration camps.
^ Pinson, Koppel S. “Jewish Life in Liberated Germany: A Study of the Jewish DP’s.” Jewish Social Studies ۹٫۲ (April 1947): 101-126; here: 103.
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تبصرہ کریں