کیا اسرائیل اور ایران کے درمیان جھڑپ قریب ہے؟

نیویارک ٹائمز نے آج لکھا کہ ایران اور اسرائیل کے درمیان سائبر جنگ ایران اور اسرائیل کے درمیان ایک نئے تنازع کا آغاز ہو سکتی ہے۔

فاران تجزیاتی ویب سائٹ: نیویارک ٹائمز نے دو نامعلوم امریکی حکام کے حوالے سے کہا ہے کہ ایرانی پٹرول اسٹیشن کے سافٹ ویئر سسٹم پر حالیہ سائبر حملہ اسرائیل کا کام تھا اور ساتھ ہی انٹرنیٹ پر سینکڑوں اسرائیلی سیکیورٹی شخصیات کی شناخت ظاہر کرنا ایران کا کام تھا۔ اس مقدمے کے ساتھ نیویارک ٹائمز کا کہنا ہے کہ سائبر اسپیس میں ایک دوسرے پر حملہ کرنے کے ایران اور اسرائیل کے اہداف فوجی اہداف سے آگے بڑھ کر شہری اہداف اور عوام سے متعلق مسائل تک پھیل گئے ہیں۔ لہذا اس طرح کے اقدامات ایران اور اسرائیل کے درمیان ایک نئی قسم کی جنگ کا مقدمہ ہو سکتے ہیں۔
– نیویارک ٹائمز نے تین اسرائیلی حکام کا بھی حوالہ دیا ہے جو اپنی شناخت ظاہر نہ کرنے پر اصرار کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ایران کے خلاف پچھلے تمام سائبر حملے اسرائیل نے کیے ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ حساس ایرانی جوہری مذاکرات سے دو دن قبل، اسرائیل کی طرف سے ایران کے خلاف حملوں کو منظم کرنے میں اس نیوز ایجنسی کی اسرائیل کے ساتھ نہ صرف ایک طرح کی ہمدردی ہے بلکہ اسرائیل کی دیگ کے نیچے آگ لگانا ہے۔
– حقیقت یہ ہے کہ ایران کے مقابلے میں اسرائیل کی حکمت عملی میں ایک ناقابل تردید اصول پایا جاتا ہے اور وہ ہے ایران کے ساتھ براہ راست تصادم سے گریز۔ زمینی حقائق یہ ظاہر کرتے ہیں کہ اسرائیل ایران کے ساتھ براہ راست تعلقات میں دلچسپی نہیں رکھتا اور نہ ہی وہ اپنی جنگی صلاحیت کو ایسا کرنے کے لیے کافی سمجھتا ہے۔ اس کا ایک زندہ گواہ یہ ہے کہ بحری جہاز کے تباہ ہونے کے معاملے میں، اگرچہ سرکاری طور پر کبھی یہ اعلان نہیں کیا گیا تھا کہ اس کا ذمہ دار ایران ہے، لیکن اسرائیل نے سفید جھنڈا اٹھا کر اس سازش کو روک دیا، اس کے باوجود کہ وہ یہ جانتے تھے کہ اس جہاز کے تباہ کرنے میں ایران کا ہاتھ ہے۔
اسرائیل درحقیقت دوسروں کے پیسے سے بلکہ کچھ دوسرے ملکوں کا استعمال کر کے ایران کے مقابلے میں قد علم کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ جوہری معاملہ اور اس کے سائے میں اسے ختم کرنے کی کوشش اس بات کو بڑھاوا دینے کے لیے کہ ایران جو خطے اور دنیا کے لیے جوہری خطرہ ہے، اسرائیل کے اقدامات میں شامل ہے۔
– اس حکمت عملی کے تحت اسرائیل روس کے دباؤ میں ایران کو شام سے نکالنے کی کوشش بھی کر رہا ہے! مصر جیسے ممالک کے دباؤ سے ایران کو فلسطین سے دور کرنے! اور امریکہ کے دباؤ سے لبنان اور عراق سے دور کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ اور خود آذربائیجان، عرب امارات اور بحرین میں حاضر ہو کر اس بات پر زور دے رہا ہے کہ وہ ایرانی کی سرحدوں کے قریب پہنچ چکا ہے۔
ان تمام کوششوں کے باوجود یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ اسرائیل طویل عرصے سے علاقائی مزاحمت میں گھرا ہوا ہے اور اس کی 60 لاکھ آبادی بنیادی طور پر اتنی بڑی نہیں ہے کہ خطے میں اعلیٰ درجے کی مزاحمت کے حامل ایران جیسے ملک کو خطرہ لاحق ہو سکے۔ ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ ایران کے خلاف اسرائیل کی فوجی دھمکیاں اب 40 سال سے زیادہ پرانی ہیں اور ظاہر ہے کہ اسرائیل دھمکیوں اور بیان بازی کی سطح سے کبھی آگے نہیں بڑھا ہے۔ ان دنوں ان دھمکیوں کی اسرائیلی حکمرانوں کے لیے کم سے کم اتنی اہمیت تو ضرور ہے کہ یہ دھمکیاں ایک طرف تو آئندہ جوہری مذاکرات پر اثر انداز ہوں گی اور دوسری طرف اسرائیل کی متزلزل کابینہ کو تحفظ فراہم کر سکیں گیں۔