کیا بنی اسرائیل سے مراد ہم ہیں؟ (۱)
یہ تحقیقی مقالہ اس ویڈیو کے جواب میں لکھا گیا ہے، جو کئی ماہ سے فیس بک پر گردش کر رہی ہے۔ جس میں قرآن کی بدیہی آیات کو مخصوص اہداف کے پیش نظر عوام پر مشتبہ کرنے کی کوشش کی گئی ہے، اگرچہ لوگوں نے کمنٹس کئے ہیں لیکن وہ کمنٹس ہزاروں میں ہیں، ایک تو ان کو پڑھنا امکان سے باہر بھی ہے اور دوسرا بعض کا جواب درست بھی نہیں جس کی وجہ سے ایک بڑی تعداد اس شبہے کا شکار ہو گئی ہے۔ اس لئے ایک جامع جواب کی ضرورت تھی۔ اسی لئے اب ایک جامع جواب موصوف اور قارئین کے لئے آمادہ کیا گیا ہے لیکن زیادہ توجہ قارئین محترم کی طرف دی گئی ہے۔ مذکورہ ویڈیو میں شیخ محمد صاحب کا کہنا ہے کہ جواب صرف قرآن سے دیں، جبکہ علمائے اسلام کا اس بات پر اتفاق ہے کہ قرآن کی بعض آیات کو سمجھنے کے لئے فقط قرآن کافی نہیں اور احادیث کی بھی ضرورت ہے۔ اس لئے موصوف سے پہلے صرف اور صرف حجیت حدیث پر بات ہونی چاہیئے تھی لیکن وقت کی قلت کے باعث ہم ان کے چیلنج کے عین مطابق صرف قرآن سے ہی جواب دیں گے۔ موصوف کی ویڈیو فیس بک میں کئی جگہوں پر شئیر ہوئی ہے ان میں سے ایک کا لینک بھی ہم بھیج دیتے ہیں۔ اس تحقیق میں ہم صرف بنی اسرائیل کی حقیقت کو قرآن کی روشنی میں بیان کریں گے تاہم یاد رہے کہ موضوع کی طوالت اور عمق کے پیشِ نظر بہت سے ادبی نکات سے چشم پوشی کی گئی ہے اور نہایت سادہ الفاظ میں بحث کی گئی ہے تاکہ عام آدمی بھی اس تحقیق کو سمجھ سکے، البتہ ہم آئندہ حسبِ توفیق، قرآن کی روشنی میں حجیت حدیث پر بحث کریں گے۔
گرامی القدر محقق کا مفروضہ:
موصوف کا کہنا ہے کہ بنی اسرائیل سے مراد ہم لوگ ہیں اور جو ہم یہ کہتے ہیں کہ اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ ﴿۶﴾ صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ (فاتحہ ۶ و ۷)۔ ترجمہ: خدایا! ہمیں سیدھے راستے کی ہدایت کر، راستہ ان لوگوں کا جس پر تو نے انعام کیا۔ اس راستے سے مراد بنی اسرائیل کا راستہ ہے کیونکہ ہم قرآن میں دیکھتے ہیں کہ مختلف آیات میں بیان ہوا ہے کہ اللہ نے فقط بنی اسرائیل پر انعام کیا ہے اور تمام جہانوں پر بنی اسرائیل کو فضیلت دی ہے۔ جس کی دلیل “يَا بَنِي إِسْرَائِيلَ اذْكُرُوا نِعْمَتِيَ الَّتِي أَنْعَمْتُ عَلَيْكُمْ وَ أَوْفُوا بِعَهْدِي أُوفِ بِعَهْدِكُمْ وَ إِيَّايَ فَارْهَبُونِ”۔ (بقرہ ۴۰) اے بنی اسرائیل ! میری وہ نعمت کو یاد کرو جس سے میں نے تمہیں نوازا ہے اور میرے عہد کو پورا کرو میں تمہارے عہد کو پورا کروں گا اور تم لوگ صرف مجھ ہی سے ڈرتے رہو۔ “يَا بَنِي إِسْرَائِيلَ اذْكُرُوا نِعْمَتِيَ الَّتِي أَنْعَمْتُ عَلَيْكُمْ وَ أَنِّي فَضَّلْتُكُمْ عَلَى الْعَالَمِينَ”۔ ﴿بقره ۴۷ ، و ۱۲۲﴾ اے بنی اسرائیل! میری وہ نعمت یاد کرو جس سے میں نے تمہیں نوازا اور تمہیں عالمین پر فضیلت دی۔ ان کے علاوہ دوسری چند آیات اس بات کی شہادت دیتی ہیں کہ بنی اسرائیل پر اللہ کا انعام ہوا اور انہیں تمام جہانوں پر فضیلت دی گئی۔ ساتھ ان کا کہنا ہے کہ جہاں پر بھی بنی اسرائیل کا ذکر ہوا ہے وہاں ان کی فضیلت بیان ہوئی ہے اور یہ فضیلت قیامت تک خدا نے طبق قرآن دے رکھی ہے۔ سورہ صف کی ۶ نمبر آیت میں جہاں ذکر ہوا ہے، “اور جب عیسٰی ابن مریم نے کہا: اے بنی اسرائیل! میں تمہاری طرف اللہ کا رسول ہوں اور اپنے سے پہلے کی (کتاب) تورات کی تصدیق کرنے والا ہوں اور اپنے بعد آنے والے رسول کی بشارت دینے والا ہوں جن کا نام احمد ہے، پس جب وہ ان کے پاس واضح دلائل لے کر آئے تو کہنے لگے، یہ تو کھلا جادو ہے”۔ اس آیت سے استدلال کیا کہ چونکہ عیسٰی (ع) کو خطاب کیا کہ تمہاری طرف رسول بھیج رہا ہوں۔ اس لئے احمد یعنی نبی اکرم صلی اللہ و آلہ وسلم بھی اسرائیل ہیں۔
مفروضے کا جواب قرآن سے:
جو سورہ فاتحہ میں آیت ہے کہ “اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ ﴿۶﴾ صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ” فاتحه( ۷) خدایا! ہمیں سیدھے راستے کی ہدایت کر راستہ ان لوگوں کا جس پر تونے انعام کیا۔ اس آیت میں یہ بھی لکھا ہے کہ “غَيرْ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالِّين”، نہ راستہ ان لوگوں کا جن پر تو غضبناک ہوا اور نہ گمراہوں کا ۔۔۔ یہ آیت یہ بھی بیان کرتی ہے کہ ممکن ہے ایک قوم پر خدا نے نعمتیں نازل کی ہوں لیکن اللہ ان پر غضبناک بھی ہوا ہو اور وہ گمراہ بھی ہوئی ہوں۔ پس سورہ فاتحہ میں قطعا ان کا راستہ نہیں، جن پر نعمتیں تو ہوں لیکن ساتھ عذاب بھی نازل ہوا ہو اور وہ گمراہ بھی ہوئی ہوں۔ یہ بات تو قبول ہے کہ بنی اسرائیل پر اللہ نے بہت زیادہ نعمتیں نازل کی ہیں لیکن ان پر اللہ نے عذاب بھی نازل کیا ہے اور یہ طول تاریخ بھی گمراہ بھی رہیں اور اب بھی گمراہ ہیں۔ کچھ آیات میں اللہ نے فرمایا کہ بنی اسرائیل کو ہم نے فضیلت دی جبکہ دوسری چند آیات میں صریح الفاظ کے ساتھ بنی اسرائیل کے برے اعمال کا ذکر بھی کیا۔ موصوف کا دعوٰی تھا کہ بنی اسرائیل کی پورے قرآن میں صرف تعریف بیان ہوئی ہے جبکہ اس تحقیق میں ہم آپ کو وہ آیات دکھاتے ہیں جو بنی اسرائیل کے برے اعمال اور خدا کے بنی اسرائیل پر غضبناک ہونے کو بیان کر رہی ہیں۔۔
بنی اسرائیل پر انبیاء کی لعنت اور ماضی میں بھی گمراہ رہنا:
“لُعِنَ الَّذِينَ كَفَرُوا مِنْ بَنِي إِسْرَائِيلَ عَلَى لِسَانِ دَاوُدَ وَ عِيسَى ابْنِ مَرْيَمَ ذلِكَ بِمَا عَصَوْا وَ كَانُوا يَعْتَدُونَ” ﴿المائدہ ۷۸﴾۔ بنی اسرائیل میں سے جن لوگوں نے کفر اختیار کیا، داؤد اور عیسیٰ بن مریم کی زبان سے ان پر لعنت کی گئی، کیونکہ وہ نافرمان ہو گئے تھے اور حد سے تجاوز کرتے تھے۔ “كَانُوا لاَ يَتَنَاهَوْنَ عَنْ مُنْكَرٍ فَعَلُوهُ لَبِئْسَ مَا كَانُوا يَفْعَلُونَ”﴿المائدہ ۷۹﴾۔ جن برے کاموں کے وہ مرتکب ہوتے تھے ان سے ایک دوسرے کو روکتے نہیں تھے، ان کا یہ عمل کتنا برا ہے۔”و کانوا یعتدون” ماضی استمرار ی یعنی ماضی میں بنی اسرائیل تجاوز کرتے رہے۔ ۷۹ آیت کے آخر میں “ما کانوا یفعلون”، بھی ماضی استمراری ہے یعنی ماضی میں دائما برے اعمال کرتے رہے۔
بنی اسرائیل پر خدا کی لعنت:
فَبِمَا نَقْضِهِمْ مِيثَاقَهُمْ لَعَنَّاهُمْ وَ جَعَلْنَا قُلُوبَهُمْ قَاسِيَةً يُحَرِّفُونَ الْكَلِمَ عَنْ مَوَاضِعِهِ وَ نَسُوا حَظّاً مِمَّا ذُكِّرُوا بِهِ وَ لاَ تَزَالُ تَطَّلِعُ عَلَى خَائِنَةٍ مِنْهُمْ إِلاَّ قَلِيلاً مِنْهُمْ فَاعْفُ عَنْهُمْ وَ اصْفَحْ إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُحْسِنِينَ ﴿مائدہ ۱۳﴾ پھر ان کی عہد شکنی کی بنا پر ہم نے ان پر لعنت کی اور ان کے دلوں کو سخت بنا دیا وہ ہمارے کلمات کو ان کی جگہ سے ہٹا دیتے ہیں اور انہوں نے ہماری یاد دہانی کا اکثر حصّہ فراموش کردیا ہے اور تم ان کی خیانتوں پر برابر مطلع ہوتے رہو گے علاوہ چند افراد کے لہٰذا ان سے درگزر کرو اور ان کی طرف سے کنارہ کشی کرو کہ اللہ احسان کرنے والوں کو دوست رکھتا ہے۔ سورۃ مائدہ کی ۱۲ نمبر آیت میں بیان ہوا۔ “وَ لَقَدْ أَخَذَ اللَّهُ مِيثَاقَ بَنىِ إِسرَ ءِيلَ وَ بَعَثْنَا مِنْهُمُ اثْنىَ عَشرَ نَقِيبًا۔۔۔ ۔۔۔۔ اور اللہ نے بنی اسرائیل سے عہد لیا اور ہم نے ان میں سے بارہ نقیبوں کا تقرر کیا۔۔۔۔۔۔۔ پھر ۱۳ نمبر آیت میں بیان کیا کہ بنی اسرائیل نے اس عہد کو توڑ دیا، تب اللہ نے ان پر لعنت کی۔
بنی اسرائیل کا انبیاء کو قتل کرنا اور خدا کی طرف سے ذلیل ہونا اور بنی اسرائیل پر اللہ کا غضب نازل ہونا:
سورہ بقرہ کی ۶۱ نمبر آیت میں بنی اسرائیل کی نافرمانیوں کا ذکر کرنے کے بعد فرمایا ،”و ضُرِبَتْ عَلَيْهِمُ الذِّلَّةُ وَ الْمَسْكَنَةُ وَ بَاءُو بِغَضَبٍ مِّنَ اللَّهِ ذَالِكَ بِأَنَّهُمْ كاَنُواْ يَكْفُرُونَ بِايَاتِ اللَّهِ وَ يَقْتُلُونَ النَّبِيِّنَ بِغَيرْ الْحَق ذَالِكَ بمِا عَصَواْ وَّ كَانُواْ يَعْتَدُونَ” اور (آخرکار) ذلت (ورسوائی) اور محتاجی (وبے نوائی) ان سے چمٹا دی گئی اور وہ الله کے غضب میں گرفتار ہو گئے۔ یہ اس لیے کہ وہ الله کی آیتوں سے انکار کرتے تھے اور (اس کے) نبیوں کو ناحق قتل کر دیتے تھے۔ (یعنی) یہ اس لیے کہ نافرمانی کئے جاتے اور حد سے بڑھے جاتے تھے (ترجمہ جالندھری)۔ سورہ بقرہ کی ۴۰،۴۷ نمبر آیت میں اللہ قرآن میں صریحا بنی اسرائیل کا نام لے کر ان کو اپنی نعمتیں یاد کروا رہا ہے۔ آگے آیات میں انہی کا ذکر کرتے ہوئے ان کے برے اعمال بیان کئے۔ اور ۶۱ میں یہ بھی بیان کیا کہ اللہ نے ان پر ذلت اور مسکنت نازل کر دی،قیامت تک۔ اللہ کا غضب ان پر نازل ہوا۔
بنی اسرائیل کا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تکذیب کرنا اور خدا پر بہتان:
موصوف نے سورہ صف کی آیت نمبر ۶ کے تلاوت و ترجمہ کے ساتھ اس آیت کے آخر میں لکھا ہے کہ جب ان کے پاس (بنی اسرائیل) کے پاس روشن نشانیوں کے ساتھ پیامبر صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم آئے تو انہوں (بنی اسرائیل) نے کہا یہ آشکارا جادو ہے۔ موصوف نے نہیں کہا کہ یہ کس نے کہا؟ “قالوا ھذا سحر مبین”، یہ کہنے والے کہ یہ تو کھلا جادو ہے، اسی آیت میں ہے کہ بنی اسرائیل نے کہا کیونکہ کھلی نشانیاں جب بنی اسرائیل کے پاس لائے تو ھذا سحر مبین کہنے والے بھی وہی تھے۔ “وَ إِذْ قَالَ عِيسَى ابْنُ مَرْيَمَ يَا بَنِي إِسْرَائِيلَ إِنِّي رَسُولُ اللَّهِ إِلَيْكُمْ مُصَدِّقاً لِمَا بَيْنَ يَدَيَّ مِنَ التَّوْرَاةِ وَ مُبَشِّراً بِرَسُولٍ يَأْتِي مِنْ بَعْدِي اسْمُهُ أَحْمَدُ فَلَمَّا جَاءَهُمْ بِالْبَيِّنَاتِ قَالُوا هذَا سِحْرٌ مُبِينٌ” ﴿۶﴾ اور (وہ وقت بھی یاد کرو) جب مریم(ع) کے بیٹے عیسیٰ نے کہا کے اے بنی اسرائیل میں تمہارے پاس خدا کا بھیجا ہوا آیا ہوں (اور) جو (کتاب) مجھ سے پہلے آچکی ہے (یعنی) تورات اس کی تصدیق کرتا ہوں اور ایک پیغمبر جو میرے بعد آئیں گے جن کا نام احمد(ص) ہوگا ان کی بشارت سناتا ہوں۔ (پھر) جب وہ ان لوگوں کے پاس کھلی نشانیاں لے کر آئے تو وہ ( بنی اسرائیل) کہنے لگے کہ یہ تو صریح جادو ہے۔ اس آیت میں عیسی (ع) نے یہ کہا میرے بعد جو نبی آئے گا اس کا نام احمد ہے۔ اس سے کیسے مراد لے لی کہ احمد بنی اسرائیل سے ہے؟؟ میریے بعد کا مطلب، بنی اسرائیل سے ہونا ہے؟؟ عیسی (ع) کو کہا کہ تمہاری طرف بھیج رہا ہوں، تمہاری طرف بھیجنے کا مطلب کیسے بن گیا کہ جو بھیجا جائے گا وہ بنی اسرائیل سے ہو گا؟ اس کے بعد والی آیت میں بنی اسرائیل کو ظالم اور جھوٹا کہا گیا ہے۔ وَ مَنْ أَظْلَمُ مِمَّنِ افْتَرَى عَلَى اللَّهِ الْكَذِبَ وَ هُوَ يُدْعَى إِلَى الْإِسْلاَمِ وَ اللَّهُ لاَ يَهْدِي الْقَوْمَ الظَّالِمِينَ ﴿صف ۷﴾ اور اس سے بڑا ظالم کون ہوگا جو خدا پر جھوٹا الزام لگائے جبکہ اسے اسلام کی دعوت دی جا رہی ہو اور اللہ کبھی ظالم قوم کی ہدایت نہیں کرتا ہے۔
دلیل عقلی:
سب اسے قبول کرتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم حضرت اسماعیل کی نسل میں سے تھے نہ کہ حضرت اسحاق علیہ السلام کی نسل میں سے، اسرائیل حضرت یعقوب علیہ السلام کا لقب تھا جو حضرت اسحاق کے فرزند تھے نہ کہ حضرت اسماعیل کا۔۔۔ جب حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم حضرت اسحاق اور حضرت یعقوب کی نسل سے نہیں تو بنی اسرائیل کیسے؟
بنی اسرائیل کی پیمان شکنی:
“وَ إِذْ أَخَذْنَا مِيثَاقَ بَنِي إِسْرَائِيلَ لاَ تَعْبُدُونَ إِلاَّ اللَّهَ وَ بِالْوَالِدَيْنِ إِحْسَاناً وَ ذِي الْقُرْبَى وَ الْيَتَامَى وَ الْمَسَاكِينِ وَ قُولُوا لِلنَّاسِ حُسْناً وَ أَقِيمُوا الصَّلاَةَ وَ آتُوا الزَّكَاةَ ثُمَّ تَوَلَّيْتُمْ إِلاَّ قَلِيلاً مِنْكُمْ وَ أَنْتُمْ مُعْرِضُونَ” ﴿بقرہ ۸۳﴾ اس وقت کو یاد کرو جب ہم نے بنی اسرائیل سے عہد لیا کہ خبردار خدا کے علاوہ کسی کی عبادت نہ کرنا اور ماں باپ قرابتداروں یتیموں اور مسکینوں کے ساتھ اچھا برتاؤ کرنا. لوگوں سے اچھی باتیں کرنا نماز قائم کرنا، زکات ادا کرنا لیکن اس کے بعد تم میں سے چند کے علاوہ سب منحرف ہوگئے اور تم لوگ تو بس اعراض کرنے والے ہی ہو۔
أَ لَمْ تَرَ إِلَى الْمَلَإِ مِنْ بَنِي إِسْرَائِيلَ مِنْ بَعْدِ مُوسَى إِذْ قَالُوا لِنَبِيٍّ لَهُمُ ابْعَثْ لَنَا مَلِكاً نُقَاتِلْ فِي سَبِيلِ اللَّهِ قَالَ هَلْ عَسَيْتُمْ إِنْ كُتِبَ عَلَيْكُمُ الْقِتَالُ أَلاَّ تُقَاتِلُوا قَالُوا وَ مَا لَنَا أَلاَّ نُقَاتِلَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ وَ قَدْ أُخْرِجْنَا مِنْ دِيَارِنَا وَ أَبْنَائِنَا فَلَمَّا كُتِبَ عَلَيْهِمُ الْقِتَالُ تَوَلَّوْا إِلاَّ قَلِيلاً مِنْهُمْ وَ اللَّهُ عَلِيمٌ بِالظَّالِمِينَ۔ (بقرہ ۲۴۶)
کیا تم نے موسیٰ علیہ السّلام کے بعد بنی اسرائیل کی اس جماعت کو نہیں دیکھا جس نے اپنے نبی سے کہا کہ ہمارے واسطے ایک بادشاہ مقرر کیجئے تاکہ ہم راہ خدا میں جہاد کریں. نبی نے فرمایا کہ اندیشہ یہ ہے کہ تم پر جہاد واجب ہو جائے تو تم جہاد نہ کرو. ان لوگوں نے کہا کہ ہم کیوں کر جہاد نہ کریں گے جبکہ ہمیں ہمارے گھروں اور بال بّچوں سے الگ نکال باہر کر دیا گیا ہے. اس کے بعد جب جہاد واجب کردیا گیا تو تھوڑے سے افراد کے علاوہ سب منحرف ہوگئے اور اللہ ظالمین کو خوب جانتا ہے۔
بنی اسرائیل کا اپنی خواہشات کی پیروی کرنا:
لَقَدْ أَخَذْنَا مِيثَاقَ بَنِي إِسْرَائِيلَ وَ أَرْسَلْنَا إِلَيْهِمْ رُسُلاً كُلَّمَا جَاءَهُمْ رَسُولٌ بِمَا لاَ تَهْوَى أَنْفُسُهُمْ فَرِيقاً كَذَّبُوا وَ فَرِيقاً يَقْتُلُونَ ﴿مائدہ ۷۰﴾ ہم نے بنی اسرائیل سے عہد لیا ہے اور ان کی طرف بہت سے رسول بھیجے ہیں لیکن جب ان کے پاس کوئی رسول ان کی خواہش کے خلاف حکم لے آیا تو انہوں نے ایک جماعت کی تکذیب کی اور ایک گروہ کو قتل کردیتے ہیں۔
بنی اسرائیل کا حضرت عیسی (ع) کو شر پہنچانے کا ارادہ:
إِذْ قَالَ اللَّهُ يَاعِيسىَ ابْنَ مَرْيَمَ اذْكُرْ نِعْمَتىِ عَلَيْكَ وَ عَلىَ وَالِدَتِكَ إِذْ أَيَّدتُّكَ بِرُوحِ الْقُدُسِ تُكلَّمُ النَّاسَ فىِ الْمَهْدِ وَ كَهْلًا وَ إِذْ عَلَّمْتُكَ الْكِتَابَ وَ الحْكْمَةَ وَ التَّوْرَئةَ وَ الْانجِيلَ وَ إِذْ تخْلُقُ مِنَ الطِّينِ كَهَيَةِ الطَّيرْ بِإِذْنىِ فَتَنفُخُ فِيهَا فَتَكُونُ طَيرْا بِإِذْنىِ وَ تُبرِئُ الْأَكْمَهَ وَ الْأَبْرَصَ بِإِذْنىِ وَ إِذْ تخُرِجُ الْمَوْتىَ بِإِذْنىِ وَ إِذْ كَفَفْتُ بَنىِ إِسْرَ ءِيلَ عَنكَ إِذْ جِئْتَهُم بِالْبَيِّنَاتِ فَقَالَ الَّذِينَ كَفَرُواْ مِنهُمْ إِنْ هَاذَا إِلَّا سِحْرٌ مُّبِينٌ (مائدہ ۱۱۰) جب عیسی بن مریم سے اللہ نے فرمایا، یاد کیجئے میری اس نعمت کو جو میں نے آپ اور آپ کی والدہ کو عطا کی ہے، جب میں نے روح القدس کے ذریعے آپ کی تائید کی، آپ گہوارے میں اور بڑے ہو کر لوگوں سے باتیں کرتے تھے اور جب میں نے آپ کو کتاب، حکمت، توریت اور انجیل کی تعلیم دی اور جب آپ میرے حکم سے مٹی سے پرندے کا پتلا بناتے تھے پھر آپ اس میں پھونک مارتے تھے تو وہ میرے حکم سے پرندہ بن جاتا تھا اور آپ مادر زاد اندھے اور کوڑھی کو میرے حکم سے صحت یاب کرتے تھے اور آپ میرے حکم سے مردوں کو (زندہ کر کے) نکال کھڑا کرتے تھے اور جب میں نے بنی اسرائیل کو اس وقت آپ سے روک رکھا جب آپ ان کے پاس کھلی نشانیاں لے کر آئے تھے تو ان میں سے کفر اختیار کرنے والوں نے کہا: یہ تو ایک کھلا جادو ہے۔
بنی اسرائیل زمین پر فساد کرنے والے ہیں:
وَ قَضَيْنَا إِلَى بَنِي إِسْرَائِيلَ فِي الْكِتَابِ لَتُفْسِدُنَّ فِي الْأَرْضِ مَرَّتَيْنِ وَ لَتَعْلُنَّ عُلُوّاً كَبِيراً ﴿اسراء ۴﴾ اور ہم نے کتاب میں بنی اسرائیل سے کہہ دیا تھا کہ زمین میں دو دفعہ فساد مچاؤ گے اور بڑی سرکشی کرو گے۔ مہم نکتہ: اللہ نے اس آیت میں جو کہا کہ بنی اسرائیل زمین میں فساد پھہلانے والے ہیں، اس کے لئے ماضی کا صیغہ استعمال نہیں کیا کہ ماضی میں بنی اسرائیل ایسے گزرے ہیں بلکہ جو عربی سے واقف ہیں وہ جانتے ہیں کہ یہاں باب افعال کا مضارع کا صیغہ استعمال کیا گیا یعنی بنی اسرائیل کا حال اور آئندہ بیان کیا کہ وہ فساد کرنے والے ہیں۔ یہ بات خود تورات میں بھی لکھی گئی۔
بنی اسرائیل کا ایک گروہ ایمان نہیں لایا:
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُونُوا أَنْصَارَ اللَّهِ كَمَا قَالَ عِيسَى ابْنُ مَرْيَمَ لِلْحَوَارِيِّينَ مَنْ أَنْصَارِي إِلَى اللَّهِ قَالَ الْحَوَارِيُّونَ نَحْنُ أَنْصَارُ اللَّهِ فَآمَنَتْ طَائِفَةٌ مِنْ بَنِي إِسْرَائِيلَ وَ كَفَرَتْ طَائِفَةٌ فَأَيَّدْنَا الَّذِينَ آمَنُوا عَلَى عَدُوِّهِمْ فَأَصْبَحُوا ظَاهِرِينَ ﴿الصف ۱۴﴾ مومنو! خدا کے مددگار بن جاؤ جیسے عیسٰی ابن مریم نے حواریوں سے کہا کہ بھلا کون ہیں جو خدا کی طرف (بلانے میں) میرے مددگار ہوں۔ حواریوں نے کہا کہ ہم خدا کے مددگار ہیں۔ تو بنی اسرائیل میں سے ایک گروہ تو ایمان لے آیا اور ایک گروہ کافر رہا۔ آخر الامر ہم نے ایمان لانے والوں کو ان کے دشمنوں کے مقابلے میں مدد دی اور وہ غالب ہوگئے۔
بنی اسرائیل کا نبی اکرم صلی اللہ وآلہ وسلم سے حسادت کرنا:
أَمْ يَحْسُدُونَ النَّاسَ عَلَى مَا آتَاهُمُ اللَّهُ مِنْ فَضْلِهِ فَقَدْ آتَيْنَا آلَ إِبْرَاهِيمَ الْكِتَابَ وَ الْحِكْمَةَ وَ آتَيْنَاهُمْ مُلْكاً عَظِيماً۔ ﴿ نساء ۵۴﴾ یا جو خدا نے لوگوں کو اپنے فضل سے دے رکھا ہے اس کا حسد کرتے ہیں تو ہم نے خاندان ابراہیم (ع) کو کتاب اور دانائی عطا فرمائی تھی اور سلطنت عظیم بھی بخشی تھی۔ بنی اسرائیل کے برے اعمال کی وجہ سے خدا نے نبوت ان سے لے لی، اور اپنے آخری سب سے افضل نبی کو بنی اسماعیل کی نسل میں سے بھییجا اور نبی اکرم صلی اللہ و آلہ وسلم کو کتاب اور حکمت دی۔ جس پر بنی اسرائیل حسادت کرتے ہیں۔ یعنی آج بھی حسادت کرتے ہیں، یحسدون، صیغہ مضارع ہے، جس میں حال اور آئندہ دونوں کا زمانہ آتا ہے، اور ایمان بھی نہیں لایا۔ اس آیت میں آل ابراہیم کا ذکر آیا ہے، آل ابراہیم میں حضرت اسحاق کی اولاد اور حضرت اسماعیل دونوں کی اولاد آتی ہے۔ اب اللہ نے کتاب، حکمت اور نبوت نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو دی تو بنی اسرائیل حسادت کرنے لگے، سورہ صف کی ۶ نمبر آیت میں ہے کہ بنی اسرائیل نے کہا یہ تو کھلا جادو ہے۔ نبی اکرم (ص) کی نبوت کو قبول نہیں کیا اور حسادت کرنے لگی۔ جو نبی اکرم (ص) پر ایمان نہیں لایا تو ان کی کوئی فضیلت نہیں رہتی کیونکہ وہ اللہ کی اطاعت سے نکل گئے۔ کسی بھی نبی پر ایمان نہ لانا، خدا کی اطاعت کی نافرمانی کرنا ہے، کیا نافرمانی کرنے کے باوجود بنی اسرائیل کی کوئی فضیلت رہ جاتی ہے؟
بنی اسرائیل کا اپنی من مانی کرنا اور کاذب ہونا:
كُلُّ الطَّعَامِ كَانَ حِلاًّ لِبَنِي إِسْرَائِيلَ إِلاَّ مَا حَرَّمَ إِسْرَائِيلُ عَلَى نَفْسِهِ مِنْ قَبْلِ أَنْ تُنَزَّلَ التَّوْرَاةُ قُلْ فَأْتُوا بِالتَّوْرَاةِ فَاتْلُوهَا إِنْ كُنْتُمْ صَادِقِينَ (آل عمران ۹۳) بنی اسرائیل کے لئے کھانے کی ساری چیزیں حلال تھیں بجز ان چیزوں کے جو اسرائیل نے تورات نازل ہونے سے پہلے خود اپنے اوپر حرام کر لی تھیں، کہہ دیجئے اگر تم سچے ہو تو تورات لے آؤ اور اسے پڑھو ۔
اللہ کی نعمتوں کی ناشکری:
خدا کسی قوم کو نعمت سے نوازتا ہے تو ممکن ہے کہ وہ قوم ناشکری کرے ایسا نہیں جس قوم کو بھی نعمت دی وہ نیک پاک رہی۔
أَ لَمْ تَرَ إِلَى الَّذِينَ بَدَّلُوا نِعْمَةَ اللَّهِ كُفْراً وَ أَحَلُّوا قَوْمَهُمْ دَارَ الْبَوَارِ ﴿ابراہیم ۲۸﴾ کیا تم نے ان لوگوں کو نہیں دیکھا جنہوں نے خدا کے احسان کو ناشکری سے بدل دیا اور اپنی قوم کو تباہی کے گھر میں اتارا۔
جاری
تبصرہ کریں