کیا جنگ بندی مسئلہ کا پائیدار حل ہے؟

مسئلے کا واحد حل حقیقی ڈی کالونائزیشن کا نفاذ ہے۔ اس ڈی کالونائزیشن کو اسرائیلی استعمار پر مسلط کیا جانا چاہیئے، جیسا کہ ماضی میں الجزائر، ویتنام، کینیا، زمبابوے اور جنوبی افریقہ جیسے ممالک میں آزادی پسندوں نے ان استعماریوں پر مسلط کیا تھا۔ اسرائیلی جانتے ہیں کہ یورپی نوآبادیاتی منصوبے اس وقت کامیاب ہوئے، جب وہ مقامی لوگوں کی اکثریت کو مارنے میں کامیاب ہوئے اور زندہ بچ جانے والوں کو مستقل بنیادوں پر داخلی استعمار کے تابع کر دیا

فاران: سیاہ فام طبقے کی نمائندگی کرنے والی امریکی خبروں کی تجزیاتی ویب سائٹ بلیک ایجنڈا رپورٹ Black Agenda Report کے سیکرٹری اور کالم نگار اجمو براکا کا خیال ہے کہ حماس اور صیہونی حکومت کے درمیان موجودہ جنگ میں جنگ بندی کا قیام فوری طور پر ضروری ہے، لیکن گذشتہ چند دہائیوں سے فلسطینیوں کے خلاف صیہونی حکومت کی ظالمانہ نسل پرستی کی پالیسیوں کے ریکارڈ کو دیکھتے ہوئے پورے اعتماد کے ساتھ کہا جاسکتا ہے کہ اس جنگ بندی سے یہ مسئلہ عارضی طور پر تو حل ہوسکتا ہے، لیکن یہ جنگ بندی اس مسئلہ کا مکمل و پائیدار حل نہیں، کیونکہ اس مسئلے کی جڑیں بہت گہری ہیں۔ اس سیاہ فام امریکی سیاسی صحافی نے لکھا ہے “اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوٹیرس نے حال ہی میں نیویارک شہر میں صحافیوں کو بتایا ہے کہ غزہ کا ڈراؤنا خواب ایک انسانی بحران سے زیادہ ہے۔ دراصل یہ بحران انسانیت کا بحران ہے۔ انتونیو گوٹیرس کا کہنا تھا کہ غزہ میں جنگ بندی کے فوری قیام کی ضرورت ہر گزرتے گھنٹے کے ساتھ بڑھتی جا رہی ہے۔

اسرائیل کی آبادکار صیہونی استعماری حکومت کی طرف سے مقبوضہ فلسطین اور اس کے مظلوم عوام کے خلاف وحشیانہ دہشت گردی اور اجتماعی سزاؤں کا مشاہدہ کرنے پر اس وقت دنیا بھر کے لوگ مشتعل ہوگئے ہیں اور ان میں سے لاکھوں افراد نے دنیا بھر کے شہروں کی گلیوں اور سڑکوں پر مظاہرے بھی کئے ہیں۔ 22 لاکھ آبادی پر مشتمل غزہ کے تاریک شہر کی عمارتوں پر بمباری کی آوازوں کے درمیان بے جان فلسطینی بچوں اور حتیٰ کہ فلسطینی ماؤں کی چیخوں کی بہت سی تصاویر سامنے آئی ہیں، جس نے عوامی غم و غضہ میں شدت پیدا کر دی ہے۔ ہر طرف اس اخلاقی غم و غصہ کا اظہار کیا جا رہا ہے۔ خیال کیا جا رہا ہے کہ سیاسی میدان میں جنگ بندی کے مطالبے کی بدولت بے گناہ فلسطینیوں کے اندھا دھند قتل عام کو عارضی طور پر روک دیا جائے گا، تاہم قابضین کے غیر انسانی مظالم مختلف علاقوں میں جاری رہیں گے، جس کی وجہ سے غزہ کے علاوہ مختلف علاقوں میں فلسطینیوں کے درد اور مصائب میں کمی نہیں آئے گی۔ مزاحمت کے خلاف آبادکاروں کے حملوں میں شدت کا سلسلہ جاری رہے گا۔

یورپیوں کی طرف سے امریکی براعظم میں امیگریشن کا منصوبہ بھی فلسطین کی حالیہ صورت حال سے ملتا جلتا ہے۔ 1492ء میں یورپیوں نے اس امریکی براعظم کا سفر کیا، جو بعد میں یورپ بن گیا اور وہاں انہوں نے مقامی باشندوں کی سرزمین چرا کر اقتدار حاصل کیا اور غلامی کی وہ بدترین شکل قا‏ئم کی، جو انسانیت نے آج تک نہیں دیکھی۔ یورپیوں نے عالمی سطح پر توسیع کی پالیسی اپنائی۔ نوآبادیات اور سرمایہ داری کی بنیاد پر انہوں نے ایک صنعتی انقلاب شروع کیا۔ اس وقت یورپی یہودی تارکین وطن کا ایک ہی مقصد ہے اور وہ اسرائیل کی استعماری طاقت کو وسعت دینا اور فلسطین کے مقامی لوگوں کی تمام زمینوں پر قبضہ کرنا چاہتے ہیں۔ البتہ وہ ابھی تک تمام فلسطینیوں کا قتل عام یا انہیں بے گھر کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکے۔

اسرائیلی بستیوں کی مسلسل توسیع، نسل پرستی کی دیوار، ہمسایہ علاقوں پر آباد کاروں کے حملے، پرتشدد آباد کاروں کی تباہ کاریاں، فلسطینی گھروں سے چوری، بڑے پیمانے پر گرفتاریاں، فلسطینی رہنماؤں کا قتل، پرامن احتجاج پر حملے، غزہ کی پٹی کا غیر انسانی محاصرہ، غزہ میں وقتاً فوقتاً ہونے والے حملے، یہ سب اسرائیلی نوآبادیاتی منصوبے کے بے لگام تشدد کو بے نقاب کرتے ہیں اور یہ سلسلہ اس وقت تک جاری رہے گا، جب تک صیہونی حکومت کا نوآبادیاتی نقطہ نظر تبدیل نہیں ہوتا۔ اس صورت حال کا مطلب بہت واضح ہے۔ اسرائیل کے نوآبادیاتی منصوبے، نسل پرستی کے قوانین، صیہونیوں کی اشتعال انگیزی اور تشدد وغیرہ کو معمول پر لائے بغیر اگر آج جنگ بندی قائم ہو جاتی ہے، تو کل دوبارہ جنگ ہوگی، کیونکہ فلسطینی مخالفت جاری رکھیں گے، البتہ مستقبل میں تمام فلسطینی مہاجرین باہم متحد ہو جائیں گے۔

مسئلے کا واحد حل حقیقی ڈی کالونائزیشن کا نفاذ ہے۔ اس ڈی کالونائزیشن کو اسرائیلی استعمار پر مسلط کیا جانا چاہیئے، جیسا کہ ماضی میں الجزائر، ویتنام، کینیا، زمبابوے اور جنوبی افریقہ جیسے ممالک میں آزادی پسندوں نے ان استعماریوں پر مسلط کیا تھا۔ اسرائیلی جانتے ہیں کہ یورپی نوآبادیاتی منصوبے اس وقت کامیاب ہوئے، جب وہ مقامی لوگوں کی اکثریت کو مارنے میں کامیاب ہوئے اور زندہ بچ جانے والوں کو مستقل بنیادوں پر داخلی استعمار کے تابع کر دیا، جیسا کہ امریکہ، کینیڈا، نیوزی لینڈ اور آسٹریلیا میں انجام پایا۔ اسرائیل کے حکمران طبقے نے، جس کی نمائندگی بینجمن نیتن یاہو کا موجودہ فاشسٹ اتحاد کر رہا ہے، نے واضح کر دیا ہے کہ وہ من مانا فیصلہ فلسطینیوں پر مسلط کرنا چاہتے ہیں، جسے وہ اپنے طور پر فلسطین کا حتمی حل بھی کہتے ہیں۔

اسرائیل کے وزیر جنگ Yoav Gallant نے کہا ہے۔ نہ بجلی، نہ کھانا، نہ پانی، نہ ایندھن! ہم غزہ میں انسان نما جانوروں سے لڑ رہے ہیں اور ہم غزہ میں اس اصول کے مطابق کارروائی کر رہے ہیں۔ اقوام متحدہ کے نسل کشی عالمی کنونشن میں کہا گیا ہے کہ نسل کشی کا مطلب کسی قوم، نسل یا مذہبی گروہ کے پورے یا کچھ حصے کو جان بوجھ کر تباہ کرنا ہے۔ نسل کشی کی تعریف میں مندرجہ ذیل پانچ اعمال میں سے ایک کا واقع ہونا ہے۔ 1۔ گروپ کے ارکان کو قتل کرنا، 2۔ گروپ کے اراکین کو شدید جسمانی یا ذہنی نقصان پہنچانا، 3۔ کسی گروہ پر طے شدہ پروگرام کے مطابق ایسے حالاتِ مسلط کرنا، جو اس کے تمام یا کچھ حصے کی تباہی کا باعث بنے، 4۔ گروپ کے زاد و ولد کو روکنے کے لیے اقدامات کرنا، 5۔ ٹارگٹ گروپ کے بچوں کو زبردستی دوسرے گروپ میں منتقل کرنا۔

غاصب اسرائیل کی نوآبادیاتی پالیسیاں نسل کشی کی کلاسک تعریف سے پوری طرح مطابقت رکھتی ہیں۔ اس بات کو ثابت کرنے کے لیے ضروری نہیں کہ ان کے بارے میں ہم یہ مثالیں دیں کہ وہ فلسطینی مزاحمت کاروں کا قتل عام کرتے ہیں، اسرائیلی چوکیوں پر ولادت کے دوران مرنے والی فلسطینی خواتین کی اموات کے ذمہ دار ہیں اور غزہ و مغربی کنارے میں ہزاروں فلسطینی بچوں کا قتل عام کرتے ہیں۔ غاصب اسرائیلی حکومت نے اپنی حالیہ کارروائیوں سے ثابت کیا ہے کہ وہ ماضی کی تاریخ کو دہرانا چاہتی ہے۔ وہ ارض فلسطین سے اس سرزمین کے اصل باشندوں کو ختم کرکے یا ملک بدر کرکے اس علاقہ پر اپنا مکمل کنٹرول چاہتی ہے۔ اماضی میں اہل مغرب نے سرخ فاموں کا قتل عام کرکے اور انہیں سماجی زندگی سے کاٹ کر نئے امریکہ کی بنیاد ان کے خون پر رکھی ہے۔ کیا غاصب اسرائیل اس تاریخ کو دہرانے میں کامیاب ہوجائیگا۔؟ اس سوال کا جواب ہر مسلمان سے پوچھنا ہوگا۔ ان عرب ممالک سے ضرور پوچھا جانا چاہیئے، جو عربیت کی بنا پر بڑے بڑے دعوے کرتے ہیں، لیکن عمل کے میدان میں غزہ کے نہتے شہریوں کے قتل عام پر مجرمانہ خاموشی اختیار کئے ہوئے ہیں۔