کیا حکومت کا قیام امام حسین علیہ السلام کے مقاصد میں شامل تھا؟
فاران؛ عاشورا محض ایک تاریخی واقعہ نہیں تھا بلکہ ایک دائمی ابدی ثقافت و تہذیب اور امت مسلمہ کے لئے دائمی نمونۂ عمل اور لایحۂ عمل ہے۔ رہبر انقلاب اسلامی امام خامنہ ای (ادام اللہ ظلہ العالی) فرماتے ہیں: “امت مسلمہ کو کبھی بھی واقعۂ عاشورا کو – بطور ایک درس، بطور ایک عبرت، بطور پرچم ہدایت – نظر سے دور نہیں کرنا چاہئے۔ یقینا اسلام کی حیاتِ دوبارہ / نَشأَتِ ثانیہ عاشورا اور حسین بن علی علیہما السلام کی مرہون منت ہے جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ نے فرمایا “وَأنَا مِن حسينٍ” اس ارشاد نبوی کے مطابق، آپ فرما رہے ہیں کہ میرا دین، میرے مشن کا دوام و استمرار حسین علیہ السلام کے ذریعے ہے۔ (1 آذر 1391ھ ش)
قیامِ ابی عبداللہ الحسین علیہ السلام اور آپ کے قیام کے اسباق اور عبرتیں، ایک مکالمے کا موضوع ہیں جو رہبر انقلاب کی ویب گاہ KHAMENEI.IR نے تاریخ اسلام کے ماہر اور جامعہ کے پروفیسر ڈاکٹر محمد حسین رجبی دوانی کے ساتھ ترتیب دیا ہے۔
سوال: قیام امام حسین علیہ السلام کے بارے میں آپ کا تجزیہ کیا ہے، کیا امام کا قیام محض ظلم و ستم کے خاتمے کی غرض سے تھا یا آپ کے مقاصد میں حکومت کا قیام اور دینی حکمرانی کو عملی جامہ پہنانا بھی شامل تھا؟
جواب: پہلے درجے پر امام حسین سلام اللہ علیہ کا فریضہ یزید کی حکمرانی کے مدمقابل نہی عن المنکَر سے عبارت تھا۔ حقیقت یہ ہے کہ یزید کا برسراقتدار آنا سب سے بڑا مُنکَر تھا اور یزید کا اقتدار لوگوں کے دین، دنیا اور آخرت کو خطرے میں ڈال رہا تھا اور اسلام کو نابودی کے خطرے سے دوچار کررہا تھا؛ کیونکہ یزید کا برسر اقتدار آنے کا انداز بھی شرع مبین، عرف اور اخلاق کے خلاف تھا؛ کیوں؟
اولاً: رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ کے فرمان کے مطابق، اسلام کسی کو بھی یہ اجازت نہيں دیتا کہ – جو لوگ خدا کے عہد و پیمان کو توڑتے ہیں یا سنت نبویہ کی خلاف ورزی کرتے ہیں، اللہ کے حرام کو حلال کرتے ہیں، لوگوں پر ظلم اور جبر روا رکھتے ہیں – وہ مسلمانوں کے معشرے کے حکمران بنیں۔
ثانیاً: یزید کا اقتدار پر مسلط ہونا عرف کے بھی خلاف تھا، کیونکہ اس سے قبل معاشرے میں یہ بات تسلیم نہیں کی گئی تھی اور اس سے پہلے کبھی بھی ایسا نہیں ہؤا تھا کہ ایک خلیفہ اپنے جانشین کو اپنے خاندان سے چن لے اور اپنے بیٹے کو معاشرے پر مسلط کرے۔ چنانچہ یہ عرف کے خلاف تھا۔ امام حسن مجتبی علیہ السلام کو امیرالمؤمنین علیہ السلام نے بلکہ کوفہ کے عوام کی خواہش اور بیعت کی بنا پر، خلیفہ مسلمین کے طور پر متعین ہوئے تھے۔
ثالثاً: یہ یزید کا تقرر اخلاقی لحاظ سے بھی ایک مُنکَر اور برائی سمجھا جاتا تھا؛ کیونکہ معاویہ نے امام حسین علیہ السلام کے ساتھ صلح نامے کی دستاویز میں اپنے آپ کو پابند کردیا تھا کہ وہ اپنے بعد اپنا جانشین مقرر نہیں کرے گا اور اگر دنیا سے رخصت ہؤا تو امام حسن علیہ السلام اور آپ کے بعد امام حسین علیہ السلام مسلمانوں کے خلفاء ہونگے۔
یہ ایک اصول تھا جس کی بنا پر امام حسین علیہ السلام کا فرض بنتا تھا کہ اس قسم کی برائی کے مد مقابل کھڑے ہوجائیں، لیکن جس وقت یزید لعنۃ اللہ علیہ کی طاغوتی حکمرانی کے خلاف امام حسین علیہ السلام کی استقامت کی خبر کوفہ پہنچی تو اہل کوفہ نے اس فیصلے کا خیرمقدم کیا اور امام حسین علیہ السلام کو کوفہ آنے اور یہاں کے عوام کی مدد سے اموی حکمرانی کا خاتمہ کریں اور اہل بیت علیہم السلام کی حکمرانی کو عملی جامہ پہنائیں۔
ہم جانتے ہیں کہ اسلامی معاشرے پر حکومت امام معصوم علیہ السلام کے اختیارات اور حقوق میں شامل ہے، لیکن چونکہ عوام میں بھی اس مہم کی قبولیت کی استعداد اور آمادگی ہونا چاہئے تھی – اس لئے کہ عوام کی اطاعت اور معاونت کے بغیر حکومت حق کا قیام ممکن نہيں ہے؛ لہذا جب کوفی عوام نے خود ہی یہ درخواست پیش کی تو امام حسین علیہ السلام پر واجب ہؤا کہ عوام کی درخواست کا مثبت جواب دیں اور کوفہ کی طرف عزیمت اختیار کریں۔ بالفاظ دیگر، کہا جاسکتا ہے کہ اس صورت حال میں امام حسین علیہ السلام پر نئی ذمہ داری اور نیا فریضہ عائد ہؤا اور وہ فریضہ یہ تھا کہ آپ حالات فراہم ہونے پر حکومت قائم کرتے۔ لہذا اس لحاظ سے امام کوفہ کی طرف روانہ ہوئے تاکہ عظیم ترین معروف (اور اچھائی) یعنی اہل بیت علیہم السلام کی حکمرانی کا قیام عمل میں لائیں لیکن بدقسمتی سے، کوفیوں کی خیانت کی وجہ سے یہ مہم انجام کو نہ پہنچ سکی۔
جاری
تبصرہ کریں