کیا ہمیں عزاداری کی مجالس میں شہادت کے واقعات ناز و انداز کے ساتھ بیان کرنا چاہئے؟
فاران تجزیاتی ویب سائٹ: گزشتہ سے پیوستہ
ایک یاد:
رات کے وقت حضرت عبدالعظیم حسنی (علیہ السلام) کی زیارت کرکے واپس آ رہا تھا، اور کار پلیئر سے ایک تقریبا پرانے نوحہ خوان کا – شب عاشورا 1997ع [مورخہ 9 محرم الحرام، سنہ 1418ھ / 16 مئی 1997ع) کا – نوحہ سن رہا تھا۔ مجلس کی سینہ زنی کا ریکارڈ گذر گیا تو حاضرین میں سے ایک نے کہا: “واہ واہ! اس کا طرز جنگ کے زمانے کا ہے!” میں خود بھی اس نوحہ خوان کی مجالس میں شرکت کرتا ہوں اور دلچسپ امر یہ ہے کہ وہ خود بھی آٹھ سالہ جنگ کے مجاہدین میں سے ہیں؛ لیکن وہ مزید اس زمانے کے جہادی اور سنہ 1990ع اور 2000ع کے عشروں کے سوز و گداز سے بھرپور نوحے نہيں پڑھتے۔ کیوں؟ اس لئے کہ وہ جوانوں کو اپنی جانب راغب کرنا چاہتے ہیں! یہی صورت حال دوسرے ممالک کی بھی ہے، اور معنویت کی جگہ ظاہری چمک دمک اور اسٹائلش مجالس اور نوحوں نے لی ہے؛ کیوں؟ اس لئے کہ نوجوانوں کو ان مجالس کی طرف راغب کیا جائے۔
لیکن ایک اہم سوال یہاں بھی اٹھتا ہے! اور وہ یہ “یہ سوچ کہاں سے ہمارے ذہنوں میں آئی ہے کہ ہمیں ہر قیمت پر نوجوانوں کو امام حسین (علیہ السلام) کی یاد میں ہونے والی مجالس و محافل کی طرف کھینچ لانا چاہئے؟ کیا ماضی کے مجاہد مداح و ذاکر و نوحہ خواں اس بات کو کوئی اہمیت دیتے تھے کہ کون راغب ہوتا ہے کون نہيں ہوتا؟ کیا آیت اللہ بہجت اور آیت اللہ عبداللہ فاطمی نیا فرائض پر عمل کو سلوک و عرفان کی شرط اول نہیں سمجھتے تھے؟ کس زمانے سے نوجوانوں یا بڑوں چھوٹوں کی ترغیب کے لئے مجالس اور نوحوں اور ماتم و مجلس کو پرکشش بنانا کب سے ہمارے فرائض میں شامل ہو گیا ہے؟ ممکنہ طور پر یہ “نیا فریضہ” اس زمانے سے ہمارے فرائض میں شامل ہؤا ہے جب دشمن کے درانداز گماشتوں نے اسے ہمارے لئے بطور فریضہ متعین کیا ہے! ہمارا عہد یہ تھا کہ دینی شعائر کو زندہ کریں، مجالس کو روایتی جوش و خروش اور شان و شوکت سے منعقد کریں اور نتائج کو صاحبان مجلس [سیدہ فاطمہ زہراء، امام حسین اور امام زمانہ (سلام اللہ علیہم اجمعین)] پر چھوڑیں، کیونکہ ہمارا راسخ عقیدہ یہی ہے کہ یہ ہستیاں مجلس کی صاحب و مالک ہیں۔
ایک مصداقی سوال: کیا ہمیں عزاداری کی مجالس میں حضرت قاسم (علیہ السلام) کی شہادت کا واقعہ ناز و انداز کے ساتھ بیان کرنا چاہئے حالانکہ آنجناب کا یہ واقعہ ان کا با مقصد جہاد – اپنا ننھا سا جسم مبارک یزیدی اشقیاء کی تلواروں کے سپرد کرکے – شعوری شہادت پر منتج ہؤا ہے؟!
چلئے نئے زمانے کی نئی زبان، نیا طرز اور نیا چلن اور نئی روشیں ہیں، تو اگر آپ یہ سب کچھ جانتے ہیں تو بامعنی و مقصد عزاداری کو نئے انداز سے پیش کیجئے لیکن زیادہ روی کرکے مقصد عزاداری کو جدت پسندی پر قربان نہ کیا کیجئے؛ کیونکہ یہ سوال بھی ہمارے سامنے ہے کہ ہم کہاں تک جدت پسندی اور لوگوں کو ترغیب دلانے کے مجاز ہیں؟ کیا مجلس میں کھینچ لانے کے لئے ہر ہر کام اور ہر محیرالعقول کرتب، مبالغہ آمیز اور مصنوعی سخن و عمل جائز ہے؟ کیا یہ مزید ممکن نہيں ہے کہ ایک عالم امام حسین (علیہ السلام) کے انقلاب کی تشریح اور مقصد عاشورا کی تبلیغ اور واجبات کی ترویج کرے اور مصائب کا آغاز ہو تو صدر اول سے آج کے زمانے کے مجاہدین کی طرح بتیاں بند کرکے خیموں اور مورچوں کا ماحول بنایا جائے، اور بہادرانہ گریہ و بکاء کے ساتھ ساتھ سامعین و حاضرین کے دلوں میں مجلس کے بعد کے لئے ایک مشن کا بیج بویا جائے، نوحہ خوانی پیغام سے لبریز ہو، ماتم بامقصد ہو، عزا اور ماتم کو مقصد نہ سمجھا جائے، بلکہ پیغام حسین (علیہ السلام) کے ابلاغ کا ذریعہ قرار دیا جائے۔
ماضی میں منبر و مجلس و عزا کی حرمت کا پاس رکھا جاتا تھا، عزا میں دخل و تصرف سے اجتناب کیا جاتا تھا، لیکن آج ہر سال اور ہر دن نت نئی روشیں سامنے لائی جاتی ہیں جس کا ایجنڈا اور نظامنامہ پردوں کے پیچھے – مگر بالکل عیاں – دشمن نے لکھا ہوتا ہے اور اس کے بزدل دراندازوں کے ذریعے نافذ کیا جاتا ہے؛ پہلے عزادار باادب تھے، آج ہم بے ادب ہو چکے ہيں، پہلے عزادار صاحب عزا کی معرفت رکھتے تھے، عزاداری کا اہتمام کرنے والے دروازے کے پاس بیٹھتے تھے اور خادم کہلواتے تھے، لیکن آج ہم اپنے آپ کو مجالس میں بہت سی چیزوں کے مالک سمجھتے ہیں؛ یہاں تک کہ دشمن کے گماشتے ہماری اس صورت حال کو دیکھ کر تشیع اور عزاداری کی بدنامی کا ساماں کرتے ہیں اور ہمارے ان اعمال کو اپنے ذرائع ابلاغ کے شیطانی جال کے ذریعے پھیلا دیتے ہیں، اور نہ صرف مکتب حسینی کو کوئی فائدہ نہیں پہنچنا بلکہ ہماری عزاداری ہی حسینیت کے لئے وبال جان بن جاتی ہے۔ تو ایسا کیوں ہے اور ہم دشمن کے منظرنامے کے مطابق کیوں عمل کر رہے ہیں؟
یہ اس لئے ہے کہ دشمن کے درانداز گماشتوں کو ہماری طرف سے کسی بھی مزاحمت کا سامنا نہیں کرنا پڑا ہے اور وہ بڑی آزادی کے ساتھ اپنا کام کر رہے ہیں، اور وہ ان عافیت پسندوں کی عافیت پسندی سے بھی بخوبی فائدہ اٹھا رہے ہیں جو ان مسائل کی یاددہانی کرانے والے ہمدردوں کے سامنے دیوار بن جاتے ہیں اور کہہ دیتے ہیں کہ “اے بھئی! محرم ہوتے ہی آپ کو اصلاح امور اور عزاداری کی زد پذیریوں کے ازالے کی فکر لاحق ہوگئی!”۔
اور ہاں، لوئس مارشلکو (Louis Marschalko) کی کتاب “عالمی فاتحین: حقیقی جنگی مجرمین” کے ساتھ ساتھ جرمن ماہر عمرانیات ورنر سمبارٹ (Werner Sombart) کی کتاب “یہودی اور جدید سرمایہ داری” (The Jews and modern capitalism) کا مطالعہ بھی اس حوالے سے کافی ممد و معاون ثابت ہوگی۔ ورنر سمبارٹ بھی عمرانیات کے باپ کہلانے والے میکس ویبر (Max Weber) کی سطح کے ماہر سماجیات ہیں لیکن چونکہ انھوں نے یہودیوں کے عالمی تسلط پر کتابیں تالیف کی ہیں اور بنی نوع انسان کو یہودیوں کے عالمی خطرے سے خبردار کیا ہے، اسی لئے آزادی اظہار کے جھوٹے لبرل سرمایہ دارانہ نظام کے علمبرداروں نے اس کا بائیکاٹ کیا اور کم ہی کوئی انہيں جانتا ہے؛ ان کی زندگی پر بھی نظر ڈالیں اور ان کی کتاب بھی پڑھ لیں تا کہ یہودیت کی ریشہ دوانیوں کا بہتر ادراک کریں اور جان لیں کہ نہ یہودیت اور نہ ہی اس کے کارندے، چین سے نہیں بیٹھیں گے، کیونکہ ان کے پاس ہماری فردی اور سماجی حیات کے ہر لمحے کے لئے “پروگرام” ہوتا ہے۔
آخری نکتہ: سیاسی مجالس / سیاسی ذرائع!
کسی زمانے میں – جب ایران میں اسلامی انقلاب بپا نہیں ہؤا تھا اور انگریزی اور صہیونی تسلط پسندوں کے نوابادیاتی افکار اہل تشیع سمیت تمام مسلمان معاشروں پر غالب تھے – سیاست کو گناہ سمجھا جاتا تھا اور کہا جاتا تھا کہ سیاست اور حکومت گنہگاروں، فاسقوں اور کافروں کا پیشہ ہے اور اہل ایمان کو ان چیزوں میں آلودہ ہوئے بغیر اپنی عبادت میں مگن ہونا چاہئے؛ لیکن اسلامی انقلاب کی کامیابی کے ساتھ ہی تاریخ اسلام کو نئی نگاہ سے دیکھا گیا، اور اس حقیقت کی طرف خصوصی توجہ دی گئی کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) نے اپنے زمانے میں حکومت قائم کی تھی، آپ کے پاس فوج تھی، خارجہ پالیسی تھی، اندرونی امن و امان قائم کرنے اور منڈی اور بازار کے لئے مربوط پالیسیوں کا نفاذ کیا جاتا تھا، جرم کے لئے سزا کا نظام موجود تھا اور آنخصرت کو اس سلسلے میں قرآن کریم کی پشت پناہی بھی حاصل تھی۔ حضرت رسول (صلی اللہ علیہ و آلہ) نے اپنے آخری حج کے بعد امیرالمؤمنین (علیہ السلام) کو اپنا وصی اور جانشین بنا کر اپنی حکومت کے تسلسل کی ضمانت فراہم کی؛ سقیفہ نے وصایت کی سمت بدل دی، تو حضرت امیرالمؤمنین (علیہ السلام) کو – گوکہ بہت دیر سے – حکومت قائم کرنے کا موقع ملا، تو ہمارے امام اول نے حکومت قائم کی اور امام حسن (علیہ السلام) نے بھی حکومت کی اور حالات کے تقاضے کے مطابق صلح کرلی؛ امام حسین (علیہ السلام) نے حکومت وقت کے خلاف احتجاج کیا، تحریک چلائی اور جہاد کرکے شہید ہوئے، اور یہ سب سیاسی اقدامات تھے، لیکن استعمار زدہ معاشروں میں سیاست کو دشمن اسلام کی میراث قرار دیا گیا۔ اسلامی انقلاب نے یہ سارے حقائق واضح کر دیئے، اور دشمن کی سازشوں کو طشت از بام کیا، چنانچہ آج کے زمانے میں سمجھنے والے ان حقائق کو سمجھتے ہیں اور ان کی لئے کسی توجیہ (Briefing) وغیرہ کی ضرورت نہیں ہے لیکن کچھ لوگ سمجھتے ضرور ہیں لیکن انجانے بنتے ہیں اور انہیں اس کے عوض معاوضہ ملتا ہے، وہ جانتے ہیں اور انجانے بنتے ہیں اور 14 صدیوں کے گھسے پٹے شبہے بروئے کار لا کر مسلمانوں کو دقیانوسی دور کی طرف گھسیٹتے ہیں۔
بطور مثال آج کے زمانے میں اگر ایک طرف سے دشمن نے ہزاروں سیٹلائٹ چینل اور لاکھوں ویب گاہیں اسلام کے خلاف تشہیری مہم چلانے کے لئے قائم کی ہیں تو مسلمانوں نے بھی کم از کم سینکڑوں چینل اور ہزاروں ویب گاہیں اسلام کی تبلیغ کے نام پر قائم کی ہیں، لیکن بدقسمتی سے ان میں کئی چینل اور ویب گاہیں یہودیت کے زیر اثر اسلام کے نام پر اسلام پر ضربیں لگانے، فرقہ واریت کو ہوا دینے، اور مسلمانوں کے درمیان منافرت و انتشار کا بیڑا اٹھائے ہوئے ہیں؛ اور کچھ ذرائع بیچوں بیچ ایسا کردار ادا کرتے ہیں کہ جس سے نہ کفر کو نقصان ہوتا ہے اور نہ ہی اسلام کو فائدہ۔ یہ ذرائع اپنے خاص ماہرین کی خدمات سے فائدہ اٹھاتے ہیں جو اسی پالیسی پر گامزن رہتے ہیں، کیونکہ بصورت دیگر انہیں لفافہ نہیں ملے گا۔ اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ آپ کو امت کے حالات حاضرہ کے مسائل کیوں نظر نہیں آتے، آپ کو مقاومت کے مسائل کیوں نظر نہیں آتے؛ آپ تشیّع اور اسلام کے احیاء اور تحفظ اور خالص اسلامی افکار کی ترویج اور مقدس مقامات کی حفاظت میں اسلامی انقلاب کے عظیم کردار پر بات کیوں نہيں کرتے، تو کہتے ہیں کہ “ہم سیاسی نہیں ہیں، اور سیاست سے دوری کرتے ہیں، اور صرف مذہب اور مذہب کے شعائر کو اہمیت دیتے ہیں”، یہ لوگ سال بھر 12 مہینے، مہینے کے 30 یا 31 دن اور ہفتے کے سات دن، سیاہ پوش رہتے ہیں، عزادار کہلواتے ہیں، لیکن اس حقیقت کے انکاری ہیں کہ ہمارا مذہب انتہائی سیاسی مذہب ہے اور ہمارے پیغمبر اور ائمۂ طاہرین (علیہم السلام) کا پورا کردار سیاسی ہے، ہم امام حسین (علیہ السلام) کے عزادار ہیں جنہوں نے تاریخ اسلام کا سب سے بڑا سیاسی اقدام کیا، اور ان کے نانا اور بابا اور بھائی نے حکومت قائم کی، اور خود امام حسین (علیہم السلام) نے ایک عظیم سیاسی کارنامہ سرانجام دے کر اگلے زمانوں میں عظیم سیاسی تحریکوں کے لئے راستہ کھولا اور یہی عزادار حضرات بھی کبھی ان تحریکوں پر تبصرے بھی کرتے ہیں اور بطور مثال مختار ثقفی کا نام بھی فخر سے لیتے ہیں، اور ان کے نام کے ادارے بھی قائم کرتے ہیں۔ تو سوال یہ ہے کہ اس تضاد کا کیا جواز پیش کریں گے؟
امر مسلّم یہ ہے کہ ہر وہ پالیسی اور ہر وہ عمل جس سے اپنوں کو فائدہ اور دشمن کو نقصان نہ پہنچے، آج کے حساس زمانے میں اس سے دشمن کو فائدہ اور اپنوں کو نقصان پہنچتا ہے اور یوں یہ حضرات بھی اسلام اور تشیّع کے حلفیہ دشمنوں کی صف میں کھڑے نظر آتے ہیں، اور وہی درانداز ہیں، جو یہودیت کی خدمت میں مگن ہیں، انا حرب لمن حاربکم اور سلم لمن سالمکم کا نعرہ بھی لگاتے ہیں مگر ان لوگوں کے خاموش یا پھر بولتے پڑھتے دشمن ہیں جو اہل بیت (علیہم السلام) کے مکتب کے تحفظ کے لئے خون کا نذرانہ ے رہے ہیں اور ان لوگوں کے دوست اور رفیق کار ہیں جو اہل بیت (علیہم اسلام) اور امت محمدیہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) کے خلاف نبردآزما ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تصنیف: صادق وفائی
تبصرہ کریں